بی جے پی اِقتدار زوال کی جانب (غضنفر علی خاں)
شیئر کریں
جھارکھنڈ الیکشن کے بعد اب یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ بی جے پی کے عروج کے دن ختم ہورہے ہیں اور جب کسی پارٹی کے عروج کے دن ختم ہوتے ہیں تو اس کے ساتھ ہی زوال کے آثار نمودار ہوتے ہیں۔ اگرچہ کہ یہ کہنا مشکل ہے کہ بی جے پی کا گراف گرتے جارہا ہے لیکن دستوری ترمیمی بل اور بی جے پی کے ووٹ بینک میں کمی اس طرف اشارہ کرتے ہیں۔ عام طور پر یہ کہا جاتا ہے کہ خود اس پارٹی کو اپنی غلط پالیسیوں کا کوئی اندازہ نہیں ہے ، پارٹی کو اقتدار پر آئے ہوئے چھ سال کا عرصہ ہوچکا لیکن غلط وقت پر غلط فیصلوں کے نتیجہ میں عوام کا ایک بڑا طبقہ یہ محسوس کررہا ہے کہ اس نے بی جے پی کو اقتدار دے کر بڑی زیادتی کی ہے ۔ یہ پارٹی کچھ اور نہیں تو کم از کم اپنی بے راہرو پالیسیوں کیلئے ذمہ دار ٹھہرائی جائے گی، اس کا تازہ فیصلہ جو عوام پر راست طور پر اثرانداز ہوا ہے ، وہ شہریت قانون کے لاگو کرنے کا فیصلہ ہے ۔ اس فیصلے کے خلاف ملک کے عوام بلالحاظ مذہب و علاقہ احتجاج کررہے ہیں۔ اس احتجاج میں حکومت کو زبردست مالی خسارہ ہورہا ہے ۔ جانی نقصانات بھی ہوئے ہیں، اگر یوں ہی یہ سلسلہ جاری رہا تو صورتحال اتنی ابتر و بھیانک ہوجائے گی کہ بی جے پی حکومت کو سخت اقدامات کرنے پڑیں گے ۔ اس بار بھی وہی غلطی کا اعادہ کیا جارہا ہے جو اس سے پہلے کے فیصلوں کے وقت کیا گیا تھا۔ نوٹ بندی نے اتنا اثر کیا کہ پارٹی کے ووٹ بینک میں خاصی کمی ہوئی ہے لیکن پھر بھی بی جے پی اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔ اس حکومت کا یہ دوسرا دور ہے ۔2019ء کے اواخر میں جو عام انتخابات ہوئے ، اس سے پارٹی کو یہ اندازہ ہوجانا چاہئے تھا کہ عوام اب اس کے بے وقت اور غلط فیصلوں سے تنگ آچکے ہیں۔ وزراء کے انتخاب میں بھی وزیراعظم مودی نے عوام کے موڈ کو نہیں سمجھا۔ وزارت داخلہ جیسی اہم قلمدان ایسے شخص کو سونپ دی جو اپنے اقتدار کے غلط استعمال کے لئے شہرت رکھتا ہے ۔ گجرات کے مسلم کش فسادات کے ذمہ دار امیت شاہ اس وقت ملک کی داخلی صیانت کے ذمہ دار ہیں۔ دوسری طرف ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں چیف منسٹر کا عہدہ ایسے شخص کو دیا گیا جو انتقامی سیاست پر یقین رکھتا ہے ۔ یوگی ادتیہ ناتھ نے آج اترپردیش کو عملاً پولیس ریاست میں تبدیل کردیا ہے ، جہاں امن و سلامتی کی کوئی ضمانت نہیں دے جاسکتی، کابینہ کے وزراء کچھ ایسے بیانات دے رہے ہیں جو ملک کی سالمیت کے لئے خطرہ ثابت ہوسکتے ہیں اور ان تمام کی کوشش مسلم اقلیت کو دوسرے درجہ کے شہری بنانے سے تعلق رکھتی ہے ۔ اصل بات یہ ہے کہ بی جے پی ایک مخصوص ذہن و فکر رکھنے والی پارٹی ہے جس کا ریموٹ کنٹرول آر ایس ایس کے ہاتھ میں ہے ۔ آر ایس ایس اپنی مسلم دشمنی کے لئے دنیا بھر میں مشہور ہے ۔اتفاق کی بات یہ ہے کہ اس خرابی کے باوجود اس کا ڈھانچہ کافی مضبوط ہے اور بی جے پی کی حالیہ کامیابیوں کے پیچھے اسی پارٹی کا ہاتھ ہے ۔ صرف مسلمانوں سے دشمنی کی بات تک محدود نہیں ہے ۔ آج ملک کی تمام اقلیتیں و کمزور طبقات یہ محسوس کررہے ہیں کہ سکیولر حکومت نہ ہونے کی وجہ سے ان کا تحفظ ختم ہوگیا ہے چونکہ مسلمان ہندو آبادی کے بعد سب سے بڑی اقلیت ہے ، اس لئے آر ایس ایس اور بی جے پی انہیں (مسلمانوں کو) سبق سکھانا چاہتی ہے ، یہ وہ مسلمان جنہوں نے اپنی پسند سے ہندوستان میں 1947ء میں ملک کی تقسیم کے سانحہ کے بعد اپنے وطن یعنی بھارت کو چھوڑنے سے انکار کردیا تھا اور وہ مسلمان جو تقسیم کے قائل تھے اور دو قومی نظریات کے حامل تھے ، وہ ہجرت کرکے پاکستان چلے گئے ۔ وہ (مسلمان) جو ہندوستان میں رہے ان کی اس ملک کیلئے بے شمار خدمات ہیں۔ صرف تقسیم کی بات نہیں بلکہ جب سے مسلمان ہندوستان میں آئے تب ہی سے ان کی خدمات، قربانیاں، جانثاریاں ہوتی رہیں، کون کہہ سکتا ہے کہ ملک کی جدوجہد آزادی میں مسلمانوں نے کوئی خدمات انجام نہیں دیں بلکہ صحیح بات تو یہ ہے کہ خلافت کی تحریک سے لے کر آزادی کے حصول تک مسلسل مسلمانوں کی عظیم الشان خدمات رہیں، ان خدمات میں ہمارے علمائے کرام، دینی مدرسہ و دیگر کی شمولیت رہی۔ دوسری طرف میدان جنگ میں بھی مسلمانوں نے اپنی گردنیں کٹوائی۔ کیپٹن عبدالحمید نے جان دے کر سرحد کی حفاظت کی تو محمد حنیف نے اپنی چوکی کو دشمن کے حملوں سے بچانے کیلئے سخت جدوجہد کی اور بالآخر اپنی جان کی بازی لگادی ۔ مسلمان کبھی وفاداری کا دامن نہیں چھوڑ سکتے کیونکہ وطن سے محبت ان کے خمیر میں شامل ہے ۔ دفاعی اُمور کو خفیہ انداز میں دشمنوں تک پہنچانے کا کام ہم نے انجام نہیں دیا۔ ہم نے کبھی کوئی شادی رام پیدا نہیں کیا، آج بھی جدید دور میں جتنے بھی اسکینڈلس ہورہے ہیں، ان میں کوئی مسلمان نہیں پکڑا گیا۔ اس لئے اٹوٹ وفاداریوں کے بعد اگر بی جے پی کے چند لوگ یا ساری کی ساری بی جے پی نیت پر شبہ کرتی ہے تو وہ گمراہ کن ہے ۔ ہمیں اپنی وطن دوستی کا ثبوت پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ مسلمان وفادار تھے ، ہیں اور رہیں گے ۔ ان تمام خوبیوں کے باوجود بی جے پی حکومت مسلمانوں سے مسلسل نفرت کی پالیسی پر عمل کررہی ہے ۔ جبکہ ملک کی آبادی کا بڑا حصہ اس لعنت میں گرفتار نہیں ہے ۔ مسلم ووٹ بی جے پی کو کبھی نہیں گیا اور نہ آئندہ اس کی توقع ہے حالانکہ بی جے پی اور آر ایس ایس کا یہ نظریہ ہے کہ صرف وہی ملک دوست ہے جو ان پارٹیوں کو اپنا ووٹ دیتا ہے ۔ یہ نظریہ عوام میں گزشتہ 70 سال سے مسترد کردیا ہے اور یہ دونوں پارٹیاں اسی ناقابل عمل نظریہ کو سارے ملک پر نافذ کرنا چاہتی ہیں۔ ہندوتوا یا ہندو راشٹر اس ملک میں کبھی نہیں پنپ سکتا کیونکہ ہندوستانی قوم کے خمیر میں ہے کہ وہ وسیع النظری، وسیع القلبی کے ساتھ ملک کی ترقی میں حصہ لینا چاہتے ہیں ، وہ نظریہ جس کو قوم کی اکثریت تسلیم نہیں کرسکتی، اس کا نفاذ بھی اتنا ہی مشکل ہوتا ہے ، ایسی چند نہیں بلکہ سینکڑوں غلطیوں کی وجہ سے بی جے پی کی مقبولیت کم ہوتی جارہی ہے ۔ یہ صحیح ہے کہ اس وقت بی جے پی کے لیڈرس اور اس کے وزیراعظم نریندر مودی ہیں، اس مقبولیت کے حامل ہیں جبکہ دوسری کسی پارٹی میں ایسی عوامی مقبولیت رکھنے والی کوئی شخصیت موجود نہیں ہے ، اب تک بھی بی جے پی نے جو اقتدار حاصل کیا، اس میں سب سے زیادہ عمل دخل مودی کی شخصیت کا رہا ہے ، لیکن خود مودی نے اس مقبولیت کا صحیح اندازہ نہیں کیا، اب چھ سال بعد عوامی شعور جاگا ہے اور اتفاق سے بکھری ہوئی اپوزیشن نے بھی شعور کا دامن تھاما ہے ۔ اپوزیشن کا اتحاد اور ان کا یکجا ہونا ایک فال نیک ہے لیکن جب تک کہ اس اتحاد کو دائمیت نہیں دی جاتی، اس کا وہ اثر ہندوستانی سیاست پر نہیں پڑے گا جس کی توقع کی جارہی ہے ۔ جھارکھنڈ، مہاراشٹرا کی مثالیں سامنے ہیں، جہاں مختلف الخیال سیاسی پارٹیوں نے متحد ہوکر بی جے پی کو شکست دی حالانکہ ان پارٹیوں میں شدید اختلافات پائے جاتے ہیں بلکہ کسی حد تک وہ مختلف بھی ہیں کہ ان کا یکجا ہونا ایک کرشمہ سے کم نہیں۔ بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کا اور کوئی علاج نہیں، اپوزیشن پارٹیاں اگر اس نکتہ کو سمجھ جائیں اور اپنی صفوں میں اسی طرح کا اتفاق برقرار رکھیں تو آئندہ بھی انہیں کامیابی مل سکتی ہے ۔ بی جے پی اپنے اقتدار کے نشہ میں اسی طرح غلط فیصلے کرتی رہے گی تو اس کا ووٹ بینک سکڑتا جائے گا۔ اپوزیشن کو اس بات پر زور دینے کے بجائے خود اپنے کام سے عوام کو اپنی جانب راغب کروائیں بلکہ بی جے پی کی خامیوں و خرابیوں کا دن رات ذکر کرنے کے بجائے اگر اپوزیشن عوام کے سامنے کوئی مفید مشترکہ پروگرام پیش کرے جس کو سیاسی اصطلاح میں اقل ترین مشترکہ پروگرام کہا جائے گا تو آئندہ چند برسوں میں بی جے پی کو شکست دی جاسکتی ہے کیونکہ بی جے پی سے بیزارگی کے آثار نمودار ہوچکے ہیں۔ 2020ء کی فضاء بھی حوصلہ افزاء نہیں ہے اور بی جے پی ایسے سیاسی مرحلہ میں ہے جس میں وہ نہ تو ہندوتوا کے قیام کے نعرے سے دستبردار ہوسکتی ہے اور نہ اپنی امیج کو بہتر بناسکتی ہے اور بی جے پی کو ان مسائل کے علاوہ اور کوئی مسئلہ نظر نہیں آتا۔ وہ اپنے محدود پروگرام اور مخصوص پالیسیوں کے حصار میں گھری ہوئی ہے جن سے اس کی آزادی ممکن نہیں ہوپارہی ہے ، یہی چیز بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کرسکتی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔