آرمی چیف کا عزمِ صمیم
شیئر کریں
پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے شمالی وزیرستان ایجنسی کا دورہ کیا‘ پاک افغان سرحد پر حال ہی میں تیار کیے گئے قلعوں اور نصب کی گئی باڑ کا جائزہ لیا‘ اور سرحدی سکیورٹی کے لیے فارمیشن کی جانب سے تیز رفتاری سے معیاری کام کرنے کے عمل کو سراہا۔ جنرل ا?فیسر کمانڈنگ (جی او سی) میرانشاہ نے سلامتی کی صورتحال، عارضی طور پر نقل مکانی کرنے والے افراد کی بحالی کے لیے ایجنسی میں سماجی واقتصادی ترقی کے منصوبوں کے حوالے سے بریفنگ دی۔ بعد ازاں ا?رمی چیف نے ڈسٹرکٹ کرک کے علاقے غر خیلہ میں محمد علی خان کے گھر کا دورہ کیا اور ان کے بیٹوں کی شہادت پر تعزیت کی۔ آرمی چیف نے اس موقع پر کہا: میں ان قوتوں کو‘ جو باہر بیٹھ کر ہمیں دھمکیاں دیتی ہیں‘ یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ جب تک ہمارے پاس ایسے والدین اور ایسے بچے موجود ہیں کوئی بھی اس ملک کا بال بیکا نہیں کر سکتا۔ آرمی چیف کا شمالی وزیرستان میں سرحد کے ساتھ ساتھ تعمیر کیے گئے قلعوں اور نصب کی گئی باڑ کا جائزہ لینا ظاہر کرتا ہے کہ اس ایجنسی سے دہشت گردوں کا خاتمہ کرنے کے بعد پاک فوج اب ان کی واپسی ناممکن بنانے کے لیے قلعے تعمیر کر رہی ہے‘ اور باڑ کی تنصیب بھی جاری ہے۔
پاک افغان سرحد پر باڑ کی تنصیب پاکستان کا ایک دیرینہ مطالبہ تھا‘ جس کے لیے افغان انتظامیہ اور پاکستان کے کچھ حلقے بوجوہ تیار نہیں ہو رہے تھے۔ بہرحال خاصے انتظار کے بعد اب پاکستان نے اپنے طور پر اس کی تنصیب شروع کر دی ہے‘ لیکن سرحد کی دوسری جانب سے اب بھی اس کی مخالفت جاری ہے۔ ان قلعوں اور چوکیوں پر حملے اسی مخالفت کا شاخسانہ ہیں۔ اور سرحد کو محفوظ بنانے کے لیے محض باڑ کی تنصیب اور قلعوں کی تعمیر ہی نہیں کی جا رہی بلکہ جی او سی میرانشاہ کی جانب سے دی گئی بریفنگ سے یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ عارضی طور پر نقل مکانی کرنے والے افراد کی بحالی کے لیے ایجنسی میں سماجی، اقتصادی ترقی کے منصوبوں پر کام بھی جاری ہے۔ ان منصوبوں کا ایک مقصد ماضی میں نظر انداز کیے گئے اس علاقے کو ترقی‘ آگہی اور شعور کے لحاظ سے ملک کے دوسرے حصوں کے برابر کرنا ہے تاکہ دہشت گرد اور انتہا پسند پھر کبھی یہاں اپنے قدم نہ جما سکیں اور اس علاقے کے عوام اتنے باشعور ہو جائیں کہ اچھے اور برے میں واضح طور پر تمیز اور تفریق کر سکیں۔
آرمی چیف کی جانب سے غر خیلہ میں محمد علی خان کے گھر کا دورہ اور ان کے بیٹوں کی شہادت پر تعزیت غماز ہے کہ سربراہ ہونے کے ناتے وہ فوج کے ہر افسر اور جوان کو اپنی اولاد کی طرح چاہتے ہیں اور ان کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے ہیں۔ محمد علی خان کا معاملہ اس لیے دوسروں سے مختلف ہے کہ اس کے آٹھ بیٹے تھے جن میں سے تین لانس نائیک ایف سی خورشید، نائب صوبیدار ایف سی عمر دراز اور حوالدار پاک آرمی شیر دراز مختلف آپریشنز کے دوران دفاع وطن کا فریضہ سرانجام دیتے ہوئے وطن پر قربان ہو گئے‘ جبکہ تین مزید بیٹے اس وقت ایف سی اور پاک آرمی میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ محمد علی خان کے دو بھتیجے سپاہی حضرت علی اور سپاہی لال مرجان بھی وطن پر اپنی جان نچھاور کر چکے ہیں جبکہ چار دیگر بھتیجے اس وقت پاک فوج میں ملازم ہیں۔ محمد علی خان کی حب الوطنی کسی بھی شخص کا لہو گرمانے کے لیے کافی ہے۔
آرمی چیف نے یہ بلا سبب نہیں کہا کہ مجھے محمد علی خان اور ان کی اہلیہ پر فخر ہے جنہوں نے اس ملک کے لیے تین بیٹوں کی قربانی دی۔ ان کا یہ کہنا سو فیصد درست ہے کہ جب تک ہمارے پاس ایسے عظیم والدین ہیں کوئی دھمکی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ یہ حقیقت بھی ہے کہ یہ جذبے ہی ہیں جو دشمن کے مقابل کھڑا ہونے کا حوصلہ اور طاقت عطا کرتے ہیں اور قوم میں یہ ہر دم موجزن رہتے ہیں۔ گزشتہ روز آرمی چیف سے جاپان کے وزیر خارجہ مسٹر تارو کونو نے ملاقات کی اور پاکستان کے ساتھ دفاعی تعاون بڑھانے کی خواہش کے اظہار کے علاوہ دہشتگردی کے خلاف جنگ اور خطے میں امن و استحکام کے لیے پاکستان کی کوششوں کی تعریف بھی کی۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ دوسری اقوام افواجِ پاکستان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو تسلیم کرتی ہیں اور اس کا دفاعی تعاون حاصل کرنے کی خواہش مند رہتی ہیں۔ جاپانی وزیر خارجہ کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ اور خطے میں امن و استحکام کے لیے پاکستان کی کوششوں کی تعریف دراصل امریکی صدر ٹرمپ کے اس بیانیے کی نفی اور استرداد ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمہ کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خلاف سب سے زیادہ اقدامات اور آپریشن کرنے والا ملک ہے اور اس کی کارکردگی اس طرح واضح ہے کہ اگر ہمارا ملک اس حوالے سے پیش رفت نہ کرتا تو آج افغانستان سمیت خطے کے کسی ملک میں امن برقرار نہ رہتا۔ انتہا پسند قابض ہو چکے ہوتے۔ ٹرمپ اور عالمی برادری کو بھی پاکستان کی جانب سے از خود کی گئی کاوشوں کا اعتراف کرتے ہوئے اس کا ہاتھ بٹانا چاہیے‘ کیونکہ دہشت گردی کا خاتمہ محض پاکستان نہیں بلکہ پوری عالمی برادری کی ذمہ داری ہے۔ (تجزیہ)