داعش افغانستان میں قدم جما رہی ہے
شیئر کریں
شہزاد احمد
عراق اور شام کے وسیع علاقوں پر غلبہ پانے کے بعد شدت پسند تنظیم داعش نے افغانستان کا رخ کر لیا ہے اور اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اب افغانستان کے 34 میں سے 25 صوبوں میں داعش کے ہمدرد پائے جاتے ہیں۔ تحریک طالبان پاکستان کے سابق عناصر اب افغانستان کی سرحد کی جانب داعش کے سیاہ جھنڈے تلے جمع ہو رہے ہیں۔یہ ایک نیا ابھرتا ہوا خطرہ ہے۔ افغانستان میں وہ گروپ یا جنگجو جنہوں نے داعش کی حمایت کا اعلان کیا اْن کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
افغان طالبان میں سے تقریباً 10 فیصد داعش کے حمایتی بن چکے اور اور اس حمایت میں وقت گزرنے کا ساتھ اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے۔ داعش کے حامی گروپ اکثر علاقوں میں سرکاری افواج پر حملے کر رہے ہیں جبکہ ننگر ہار صوبے میں منشیات کے دھندے پر کنٹرول کے لیے ان کی لڑائی طالبان کے ساتھ بھی ہو رہی ہے۔ داعش کے حامی مشرقی صوبہ ننگر ہار میں اکٹھے ہو گئے ہیں اور کافی مضبوط ہوگئے ہیں۔اب یہ طالبان کے علاوہ حکومتی فوجوں پر بھی حملے کر رہے ہیں۔ افغان حکومت کے لیے چیلنج وہی ہے کیونکہ یہ طالبان ہیں۔ انکاصرف پلیٹ فارم تبدیل ہوا۔ ابھی تک کوئی بڑا کمانڈر داعش میں شامل نہ ہوا ہے۔سٹنگہار پہاڑ کے ایک طرف پاکستان ہے اور دوسری طرف مشرقی صوبہ ننگر ہار ہے۔
یہ انکشاف بھی کیا گیا ہے کہ طالبان کے سابق امیر ملا امیر کے سابق مشیر عبد الرؤف خادم اب افغانستان میں داعش کے سرکردہ رہنما بن چکے ہیں۔ وہ 2014 میں عراق گئے اور اب افغانستان کے ہلمند اور فرح صوبہ میں اپنا علیحدٰہ گروپ قائم کر چکے ہیں اور ہلمند اور فرح صوبے میں متحرک ہیں۔ عبد الرؤف خادم کے متعلق بتایا گیا ہے کہ وہ بھاری رقوم ادا کر کے لوگوں کو داعش میں بھرتی کر رہے ہیں اور افغانستان میں داعش کا اثر و رسوخ تیزی سے بڑھا رہے ہیں۔
داعش کے افغانستان میں قدم جمانے سے پاکستان کو محتاط ہونے کی ضرورت ہے اور اگر داعش کو پاکستان میں بھی اپنا اثر و رسوخ بڑہانے کا موقع دیا گیا تو پاکستانی فوج کی ملک کو طالبان سے پاک کرنے کی کوششوں کے ملیا میٹ ہو جانے کا خدشہ ہے۔ یہ ایک دہشتگردوں کا نیا برانڈ ہے۔ داعش کے لوگ وہی ہیں اور یہ لوگ طالبان کو چھوڑ کر داعش میں شامل ہوئے ہیں۔اگر داعش ، افغانستان میں طالبان کی جگہ لے لیتی ہے تو یقینا ،اگلی باری پاکستان کی ہو گی اور یہ پاکستان کیلیے بہت بڑا خطرہ ہو گا۔ ابھی تک پاک فوج اور عسکری اداروں کی بہتر حکمت عملی اور آپریشن ضرب عضب کی وجہ سے داعش پاکستان میں اپنے قدم نہ جما سکی مگر ہمیں مستقبل میں داعش کا راستی روکنے کے لیے ایسی ہی مستعدی دکھانا ہو گی۔پاکستان کی طرف سے یہ کہا جاتا رہا ہے کہ داعش کا ملک میں کوئی وجود نہیں البتہ متعلقہ ادارے اس شدت پسند گروپ کے خطرے سے آگاہ ہیں۔
داعش افغانستان کی سیاسی حکومت اور پاکستان کے لیے مشترکہ دشمن کے طور پر سامنے آ رہی ہے۔ دونوں کو مل کر اس برائی کو ابتدا سے ہی روکنے کی کوشش کرنی چاہئیے۔داعش ایک ناسور ہے اورکسی صورت میں بھی اْسے پاکستان میں پذیرائی نہیں ملنی چاہئے۔
افغان سفیرکا کہنا ہے کہ داعش سے وابستہ جنگجو افغانستان کے صوبے ننگرہار میں اپنے قدم جمانے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ان کے بقول ان عناصر کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ داعش اپنا پروپیگنڈہ اور اپنا نکتہ نظر اس خطے بشمول پاکستان میں پھیلا رہا ہے۔ دہشت گردی اور غیر ریاستی عناصر کی کارروائیوں کے باعث یہ علاقہ گزشتہ 15 سالوں کے دوران بہت متاثر رہا ہے اور ان کے بقول اگر ہم مزید ایک دہائی تک ان عناصر سے نہیں لڑنا چاہتے تو ہمیں فورا فیصلہ کرنا ہو گا۔
شدت پسند گروپ داعش عراق اور شام میں سرگرم ہے، جہاں اس نے وسیع علاقے میں قبضہ کر رکھا ہے۔ داعش نے کئی افغان جنگجوں کو اپنی طرف راغب کیا ہے اور افغانستان میں اپنی جگہ بنائی ہے، جس سے افغان طالبان کے اثرورسوخ میں بظاہر کمی آئی ہے۔ افغانستان کے مشرقی صوبہ ننگر ہار میں موجود داعش کے جنگجوں اور طالبان کے درمیان لڑائی کی اطلاعات بھی ملتی رہی ہیں۔ داعش سے تعلق رکھنے والے کئی مشتبہ جنگجو افغانستان میں ڈرون حملوں میں مارے جا چکے ہیں۔کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے بھی کئی شدت پسندوں کی طرف سے داعش میں شمولیت کا اعلان کیا گیا تھا۔
روس نے کہا ہے کہ اس کے اندازے کے مطابق شدت پسند تنظیم داعش کے لگ بھگ دس ہزار عسکریت پسند افغانستان میں موجود ہیں اور کیونکہ شام اور عراق سے فرار ہونے والے جنگجو بھی جنگ سے تباہ حال اس ملک کا رخ کر رہے ہیں تو یہاں ان کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ماسکو خاص طور پر تاجکستان اور ترکمانستان کے ساتھ واقع شمالی افغانستان میں داعش کی بڑھتی ہوئی آماجگاہوں پر فکر مند ہے۔ روس ان اولین آوزوں میں شامل ہے جس نے افغانستان میں داعش سے متعلق خطرے پر آواز اٹھائی داعش نے حال ہی میں اس ملک میں اپنی قوت خاطر خواہ طور پر بڑھائی۔روسی نمائندہ خصوصی نے الزام عائد کیا کہ بغیر کسی شناخت والے” ہیلی کاپٹر ان جنگجووں کو منتقل کر رہے ہیں اور اس شدت پسند تنظیم کی افغان شاخ کو مغربی آلات فراہم کر رہے ہیں۔
داعش خوارج قاتلوں، ٹھگوںاور گمراہوں کا گروہ ہے جو اسلام کی کوئی خدمت نہ کر رہاہے بلکہ مسلمانوں اور اسلام کی بدنامی کا باعث ہے اور مسلمان حکومتوں کو عدم استحکام میں مبتلا کر رہا ہے اور اسلام کے نام پر امت مسلمہ کو تباہ کر رہا ہے۔داعش طالبان سے کہیں زیادہ ظالم ہیں اور مسلمانوں کا کوئی فرقہ بھی ان کی سفاکی سے محفوظ نہ ہے جیسا کہ ان لوگوں سے شام اور عراق میں کیا ہے۔ داعش کے مظالم کے سامنے ہلاکو اور چنگیز خان کے مظالم ہیچ ہیں۔