شریف خاندان کی 15سالہ مزید حکمرانی ؟
شیئر کریں
رفیق پٹیل
ُ ورلڈ بینک نے جو تصویر پیش کی ہے اس سے ظاہر ہوتاہے کہ پاکستان ایک ایسے جال میں پھنس گیا ہے جو ملک کو سیاسی عدم استحکام اور معاشی زوال کی جانب مسلسل تیزرفتاری کی طرف ڈھکیل رہاہے، یہ ایک ایسا بحران ہے جو ملک کے دفاع کو بھی خطرے سے دوچار کرسکتا ہے۔ دنیا بھر میں جمہوریت ، آزاد عدلیہ، آزادی صحافت اور قانون کی حکمرانی ،تعلیم اور صحت کی سہولتوں کے ذریعے مختلف قوموں خصوصی طور پر مغربی ممالک نے ترقی کی ہے ۔ حالانکہ وہاں حکومت کی مخالفت میں لاکھوں افراد مظاہرے بھی کرتے ہیں، بعض صورتوں میں وہاں تشدد ، جلائو گھیراؤکے واقعات بھی رونما ہوتے ہیں لیکن جمہوری اداروں کے تسلسل ،انسانی حقوق کے احترام، آزاد اور غیر جانبدار عدلیہ کی وجہ سے وہ معاشرے عدم استحکام کاشکار نہیں ہوتے۔ عمومی طور پر ان معاشروں میں اخلاقیات کا معیار بہتر ہے۔ جھوٹ فریب دھوکادہی بہت کم ہے۔ میرٹ پر مشتمل اور بدعنوانی سے پاک پولیس کی وجہ سے جرائم بھی کم ہیں دیگر غیر جمہوری ممالک میں بھی قانون کی بالادستی استحکام کا باعث ہے۔ دوسری جانب پاکستان میں ہم جمہوریت کے نظام کو نافذکرنے کا محض دعویٰ تو کرتے ہیں عملی طور پراسے تسلیم نہیں کرتے ۔ اس وقت پاکستان کی نگراں حکومت اور دیگر اہم ادارے زوروشور کے ساتھ کسی نہ کسی طرح نواز شریف کو ایک مرتبہ پھر باقائدہ وزارت عظمٰی کے عہدے پر فائز کرنے کے درپے ہیں جبکہ موجودہ نگران حکومتیں ا پنی آئینی مدّت پوری کرچکی ہیں۔ نگراں حکومت کے لیے لازم ہے کہ وہ غیر جانبدار ہو اس کے باوجودنواز شریف کو لندن سے جس شاہانہ انداز سے پاکستان لایا گیا وہ ایک بادشاہ کی واپسی ہی محسوس ہوتی تھی۔ قانونی طور پر نوازشریف مجرم تھے لیکن عملی طور پر وہ وزیر اعظم کی حیثیت رکھتے تھے ۔واپسی کے بعد عدالتوں نے انتہائی تیزرفتاری سے ان کے مقدمات ختم کردیے۔ ان کی جماعت کے اہم رہنما اعلانیہ اقرار کر رہے تھے کہ ان کی اوپر بات ہوچکی ہے جس کی وجہ سے مسلم لیگ ن کو تن تنہا واضح اکثریت حاصل ہوگی ۔بعض رہنما دو تہائی اکثریت کابھی دعویٰ کر رہے ہیں ،اوپر جو بات ہوئی اس کی وضاحت وہ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ یعنی کوئی پس پردہ سمجھوتہ ہے جو مسلم لیگ ن کو کامیابی سے دوچار کرے گا۔نواز شریف ایک مرتبہ برسراقتدار آنے کے بعد وہ اپنی آئندہ نسلوں کے اقتدار کی راہ ہموار کریں گے۔ اگر سب کچھ ان کے قابو میں آگیا تو ان کے خاندان کی حکمرانی پندرہ سال سے بھی آگے جاسکتی ہے۔ تحریک انصاف اسے لندن سمجھوتے کا نام دیتی ہے۔ اگر ایسا ہے تو عوامی رائے کو کوئی اہمیت حاصل نہ ہوگی ۔
اب تک ملک بھر میں جو سروے کیے گئے ،ان کے نتائج کے مطابق عوام کی بھاری اکثریت مسلم لیگ ن کی مخالف ہے اور اس مخالفت میں ہر گزرتے دن اضافہ ہورہا ہے جبکہ حکومت کی جانب سے تحریک انصاف کے سربراہ اور ان کے ہزاروں ساتھیوں کی گرفتاری اور ان کی سیاسی سرگرمیوں میں رکاوٹ کے باوجود تحریک انصاف کی حمایت میں ہر آنے والے دن اضافہ ہورہاہے۔ ایک وجہ ہمدردی کی وہ لہر بھی ہے جو اس جما عت کے چیئرمین عمران خان کو جیل میں بند رکھنے اور انہیں عام عدالتوں سے دور رکھ کر ان کے مقدمات جیل ہی میں چلانے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ ملک بھر کے نوجوانوں میں تحریک انصاف مزید تیزی سے مقبول ہورہی ہے لیکن حکومت کی انتظامی مشینری اسے کچل دینا چاہتی ہے۔ تحریک انصاف پر پابندیوں سے ان کی انتخابی مہم چلانے اور ووٹرز کو باہر نکالنے کی صلاحیت کمزورہے۔ اس طرح تحریک انصاف کے ہاتھ پائوں باندھ کر نوازشریف کو مسند پر بٹھادینے سے ملک میںمسلم لیگ ن کی مخالفت اور بڑھ جائے گی۔ اس مخالفت کے باوجود وہ ایک غیر اعلانیہ مارشل لاء ایڈمنسٹر یٹر کے طرز حکمرانی کو اپناکر اپنے خاندان کی حکمرانی کو 15سے 25سال تک کی طوالت دے سکتے ہیں۔ وزیر اعظم بننے کے بعد ان کا اگلا ہدف مریم نواز کو وزیر اعظم بنانا ہوگا یہی وجہ ہے کہ شہباز شریف کی گزشتہ حکومت میں پیپلز پارٹی کی عوامی رابطہ مہم میں رکاوٹ پیدا کرکے پیپلز پارٹی کو پنجاب میں قدم جمانے کا موقع نہیں دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف ، ان کے بھائی شہباز شریف ،ان کی بھانجی مریم نواز ،ان کے صاحبزادے حمزہ شہباز اورنواز شریف کے سمدھی اسحاق ڈار اور شریف خاندان کے دیگر افراد پنجاب میں کسی دوسری سیاسی قوت کو موقع نہیں دینا چاہتے ۔جب پیپلز پارٹی نے پنجاب کا رخ کیا تھا تو مسلم لیگ ن نے تنبیہ کی تھی کہ وہ سندھ میں اپنی سیاسی سرگرمیاں تیز کردیں گے، اس طرح پیپلز پارٹی کو پیغام دیا گیا کہ وہ پنجاب میں اپنے قدم جمانے کی کوشش نہ کریں۔ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو نے اپنے حالیہ خطاب میں بھی اس بات کا اشارہ کیا ہے کہ مسلم لیگ ن کو اقتدار دینے کی کوشش ہورہی ہے ۔وہ مسلم لیگ کو مہنگائی لیگ کا نام دیتے ہیں، حیرت کی بات یہ ہے کہ ملک کی مختلف جماعتیں خصوصاً مسلم لیگ ن اس بات کی خواہاں ہے کہ تھریک انصاف کو بلّے کا نشان نہ ملے اس بات کا امکان بڑھ گیا ہے کہ الیکشن کمیشن تحریک انصاف کو بلّے کے نشان سے محروم کردے گا ۔ایسی صورت میں تحریک انصاف کے امیدوار مختلف نشانو ں پر آزاد امید وار کی حیثیت سے الیکشن میں حصہ لیں گے، یعنی آئندہ انتخابات میں تحریک انصاف بحیثیت سیاسی جماعت موجود نہ ہوگی جو آزاد امیدوار جیت کر آئیں گے ،ان پر دبائو ڈال کر ایک فارورڈ بلاک بنایا جائے گا جو نواز شریف کی حمایت کرے گا۔ یہ ایک ایسی دھاندلی ہوگی جو تاریخ میں ایک سیاہ باب کی صورت میں یاد رکھی جائے گی عدم استحکام عروج پر پہنچ جائے گا اور پاکستان نہ صرف جمہوریت سے دور ہوگا۔ بلکہ عوام میں آنے والی حکومت سے مزید نفرت پیدا ہوگی۔ پاکستان پہلے ہی انتہاپسندی ،معاشی بحران، لاقانونیت، بڑھتی ہوئی آبادی کے دبائو،آلودگی،موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات، دشمن پڑوسی کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ،ناخواندگی اورغربت کے مسائل سے دوچار ہے۔ اس موقع پر عوامی حمایت سے محروم حکومت کا قیام خوفناک تباہی کا باعث بن سکتا ہے ۔عوام پہلے ہی مہنگائی، بیروزگاری،نا انصافی اور لاقانونیت کی وجہ سے غصے میں ہیں۔ اسے ایک بھیانک آتش فشاں بننے سے روکنا ہوگا۔ پاکستان کے منتظمین کو اس صورت حال کا حل تلاش کرنے کی بھرپور کوشش کر کے ایک مثبت راہ تلاش کرنی ہوگی۔
جمہوری روایات کو تباہ کرکے ،لاقانونیت،انسانی حقوق کی پامالی ،میڈیا پر پابندیوں کے ذریعے ہم مزید سیاسی اور معاشی عدم استحکام سے دوچار ہونگے۔ معاشرے اس طرح آگے نہیں بڑھ سکتے۔ پہلے ہی ہم اخلاقیات کا جنازہ نکال چکے ہیں ،عوام پر اعتبار کرکے دیکھیں کس طرح وہ پرامن طور پر اس بحران سے ملک کو نکالتے ہیں۔انہیں آزادی سے اپنے نمائندے منتخب کرنے دیں ۔ آزاد غیر جانبدار عدلیہ ، آزاد میڈیااور انسانی حقوق سے ہی ایک صحت مند اور مستحکم معاشرہ جنم لے سکتا ہے۔ دنیا میں ترقی کرنے والے ممالک سے ہی سیکھ لیں کہ وہ اپنے شہریوں کی آزادیوں کا کس طرح خیال کرتے ہیں؟ کیسے انصاف کے نظام کو مستحکم رکھ کر مزید ترقی کر رہے ہیں ۔