میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پاکستان پیپلز پارٹی  ۔عزم ۔قربانی اور جدوجہد کے 50 سال

پاکستان پیپلز پارٹی ۔عزم ۔قربانی اور جدوجہد کے 50 سال

ویب ڈیسک
منگل, ۵ دسمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

نعمان شیخ
(آخری قسط)
پیپلز پارٹی کے اس تاسیسی اجلاس کے صرف 11 ماہ بعد اس ملک کی تاریخ کا پہلا اور اب تک کا سب سے بڑا انقلابی ریلا اٹھا۔ 6 نومبر 1968سے لے کر 25 مارچ 1969ء تک کے 139 دنوں میں عملی طور پر طاقت حکمران ایوانوں سے نکل کر گلیوں، بازاروں، تعلیمی اداروں، کھیتوں اور فیکٹریوں میں امڈ آئی۔آج تقریباً آدھ صدی بعد نہ صرف نئی نسل ان تاریخ ساز نظریات اور واقعات کی آگاہی سے محروم ہے بلکہ آج کی پیپلز پارٹی کا بھی شاید ہی کوئی لیڈر ایسا ہو گا جس نے پارٹی کی بنیادی دستاویزات کا مطالعہ کیا ہو۔ وہ منشور، جس نے 1968-69ء کا انقلاب جیت کر ذوالفقار علی بھٹو کی جھولی میں ڈال دیا تھا،اس کے چند کلیدی نکات مندرجہ ذیل ہیں
سرمایہ دارانہ نظام کو بچانے کی آخری کوشش میں حکومت نے پاکستان کے غیر مراعات یافتہ عوام کا بڑے پیمانے پر استحصال کرنے کی اجازت حکمران طبقے کو دے دی۔حقیقی حل ایک سوشلسٹ پروگرام اپنانے سے ہی ممکن ہے، جیسا کہ اس منشور میں دیا گیا کہ معیشت میں بنیادی تبدیلی لائی جائے جس سے استحصال کا خاتمہ ہو اور دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے سرمایہ دارانہ مداخلت کے بغیر ملک کو ترقی دی جائے پارٹی کی پالیسی کا حتمی مقصد طبقات سے پاک معاشرے کا قیام ہے جو کہ ہمارے دور میں صرف سوشلزم کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ پارٹی سمجھتی ہے کہ مفاہمت اور اصلاح پسندنعرے لگانا لوگوں کو جھوٹی امید دلا کر دھوکہ دینا ہے۔عہدوں تک باآسانی رسائی حاصل ہو گی اور روزگار کے لیے کسی بھی قسم کا تعصب نہیں ہو گا۔ یونیورسٹوں اور کالجوں کے نصاب پر بھرپور طریقے سے نظر ثانی ہو گی اور یونیورسٹیوں کی سماجی زندگی سے علیحدگی کو ختم کرنا ہوگاایک پانچ سالہ منصوبہ شروع کیا جائیگا جس کے ذریعے تمام ضروری ا سکول تعمیر کیے جائیں گے اور اساتذہ کو تربیت دی جائے گی۔
آئین کا قانونی ڈھانچہ اگر حکمران طبقے کے مفادات کیلیے بنایا جائے تو ترقی کا ضامن نہیں ہو سکتاموجودہ انتخابی نظام ملکیت والے طبقات کو پارلیمان میں بالادستی دینے کا نہایت کارگر طریقہ ہے۔ الیکشن لڑنے کے اخراجات اتنے زیادہ ہیں کہ کوئی بھی غریب امیدوار برداشت نہیں کر سکتا جب تک اس کو امیر سرپرستوں کی پشت پناہی حاصل نہ ہوپیپلز پارٹی سماجی، معاشی اور سیاسی ڈھانچوں میں ایک انقلابی تبدیلی کا منصوبہ پیش کر رہی ہے۔
پیپلز پارٹی کو حکومت میں ہمیشہ بہت کم وقت ملاپھر جنھیں آگے کیا گیا ان کی غداریوں سے بھی پارٹی گھائل اور زخمی ہوئی۔ پاکستان کا محنت کش طبقہ اس دردناک استحصال سے نجات کیلیے تڑپ رہا ہے۔ ظاہری طور پر سکوت اور جمود کا معروض حاوی ہے لیکن بغاوت اس معاشرے کی کوکھ میںلاوے کی طرح پک رہی ہے۔ کہرام زدہ ملک میں جبر و استحصال اور مسائل 1967ء کی نسبت کہیں زیادہ بڑھ گئے ہیں،زندگی کی تلخیاں کہیں زیادہ دردناک ہوگئی ہیں۔ اس کیفیت میں پارٹی کی تاسیسی دستاویزات کے پروگرام اورلائحہ عمل کی اہمیت آج کئی گنا بڑھ گئی ہے، پارٹیوں کے منشور بدل سکتے ہیں لیکن تاسیسی دستاویزات سے انحراف پارٹی کی موت بن جاتا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ پیپلز پارٹی کی موجودہ نوجوان قیادت بلاول بھٹو زرداری کی سربراہی میں محنت کش طبقے اور نوجوانوں سے ان کی چھین گئی روایت واپس لائے گی اوران میں ایک نئی انقلابی تحریک اور روح پھونکے گی جواس طبقاتی جنگ میں محنت کشوں کی فتح کا نیا سیاسی اوزار تراش لائے گی۔
(ختم شد)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں