بھارت میں محصور افغان شہری
شیئر کریں
(مہمان کالم)
مجیب مشال
بھارت میں پھنسے افغانوں نے احتجاج کیا ‘ایک ایک دفتر میں گئے اور دنیا بھر میں پھیلے اپنے رشتے داروں سے التجا کی کہ ان کے لیے ٹکٹ کا بندوبست کریں۔صرف ایک فلائٹ دستیاب تھی جوانہیں اس ملک میں لے جا سکتی تھی جو اب طالبان کے قبضے میں ہے۔سب جانتے تھے کہ انہیں افغانستان میں کن مشکلات کا سامنا ہوگا‘ معاشی مشکلات‘انسانی آزادیوں سے محرومی حتیٰ کہ مقدمات کا سامنا بھی ممکن تھا۔ مگر گھر جلا ہوا ہو یا ٹوٹا ہو اس کی اپنی ہی کشش ہو تی ہے۔اس مہینے نئی دلی سے کابل جانے کے متمنی افراد میں کینسر کے وہ مریض بھی تھے جن کے پاس علاج کی رقم ختم ہو چکی تھی اور وہ زندگی کے ا?خری دن اپنی مٹی پرگزارنا چاہتے تھے۔وہ جانتے تھے کہ کسی دوسرے ملک میں مرنے والوں کی کتنی بڑی خواہش ہوتی ہے کہ انہیں اپنے ملک میں قبر نصیب ہو جائے۔
ایک سابق سرکاری ملازم محمد یاسین نوری نے ایران کی ماہان ایئر پر سوار ہونے سے پہلے بتایا کہ میرا والد کابل میں ایک ویل چیئر پر ہے۔ایرانی ایئر لائن مجھے پہلے ایران اور پھر وہاں سے کابل لے جائے گی۔ اس طرح اپنے باپ سے جدائی کی پریشانی تو ختم ہو جائے گی مگر پھر دوسری پریشانی گھیر لیتی ہے کہ اس کے بعد کیا ہوگا۔بھارت میں پھنسے افغانوں کو وطن واپس بھیجنے کا زیادہ تر کام نئی دہلی میں افغان سفارت خانے نے انجام دیا ہے۔سابق حکومت کا پرچم ابھی تک ایمبیسی پر لہر ا رہا ہے اور اس کی دیواروں پر ابھی تک سابق حکمرانوں کی تصاویر آویزاں ہیں۔ افغان سفیر فرید مومند زئی جو صرف چھ ماہ پہلے تعینات ہوئے تھے کاکہنا تھا کہ اس وقت ڈیڑھ لاکھ افغان بھارت میں ہیں جن میں دہشت گردی سے تنگ ہندو اور سکھ بھی شامل ہیں۔پندرہ ہزار یونیورسٹی سٹوڈنٹس بھی ہیں۔دو ہزار لوگ وطن واپس جانا چاہتے ہیں۔ہزاروں لوگ نیا پاسپورٹ چاہتے ہیں جو میں نہیں دے سکتا۔مومندزئی کہتے ہیں کہ جب آپ کی ریاست ہی نہ رہے تو سفارتی طور پر آپ کا مشن اور بھی اہم ہو جاتا ہے۔وہ اس وقت ایک انسانی ریلیف اور قونصلر سروسزمشن میں کام کررہے ہیں۔ا نہوں نے مزید بتایا کہ وہ کئی مہینوں سے بلا معاوضہ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ایمبیسی میں جو کیش بچ گیا تھا ہم اسی کو ا?پس میں تقسیم کر کے گزارا کر رہے ہیں۔سٹاف ممبرز سفیر کے اس وعدے پر کام کررہے ہیں کہ وہ انہیں اور ان کی فیملیز کو سیٹل کرنے کے لیے محفوظ جگہوں کی تلاش میں ہیں۔مومند زئی کہتے ہیں کہ ان کے لیے مشن کے دروازے زیادہ دیر تک کھلے رکھنا ممکن نہیں ہوگا۔ ’’اگر ہم اپنے مشن کو بند کرکے ان شہریوں کو ایک اجنبی سرزمین پر تنہا چھوڑ دیں تو یہ ان کے ساتھ زیادتی ہوگی۔ ‘‘پہلی فلائٹ پر جن 106لوگوں کو جگہ ملی وہ نہ صرف سب سے مستحق تھے بلکہ وہ لوگ تھے جو 850ڈالرز کا ٹکٹ خرید سکتے تھے۔اب تک تین پروازوں کی مدد سے 350افغان وطن واپس جاچکے ہیں۔ ایمبیسی کے سامنے اس وقت سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ جو لوگ ٹکٹ نہیں خرید سکتے اور ہر وقت مشن کا دروازہ کھٹکھٹاتے رہتے ہیں ان کا کیا حل نکالا جائے۔
پھنسے ہوئے افغانوں کی بڑی تعداد لاجپت نگر کے ریفیوجی ایریا میں کرائے کے کمروں میں مقیم ہے۔اکثر کے پاس رقم ختم ہو چکی ہے اور اب وہ کرایہ دینے سے بھی قاصر ہیں۔سابق پولیس آفیسر خان محمد جو طالبان کی آمد سے پہلے دلی آیا تھا‘ نے مجھے بتایا کہ مالک مکان کہتا ہے کہ وہ میرا پاسپورٹ لے لے گا۔میں نے اسے بتایا کہ میں اب مزید رقم نہیں دے سکتا‘ اب تم میری جان لے سکتے ہو کیونکہ میں اس سے تنگ آچکا ہوں۔ محمد خان پہلے امریکی فوج کے ساتھ کنٹریکٹر کے طور پر کام کرتا تھا جب وہ یورپ جانے کی کوشش میں ناکام ہو گیا تو اس نے دو سو ڈالرز ماہانہ پر پولیس فورس جائن کر لی۔ایک سال کے اندر اندر اس کی طالبان کے ساتھ ایک جھڑپ ہو گئی جس میں وہ اپنے ایک جبڑے سے محروم ہوگیا۔اسے فکس کرانے میں پچھلے چار سال میں اس کے تیس ہزار ڈالرخرچ ہو چکے ہیں۔محمد خان نے خودکشی کی کوشش بھی کی تھی۔ اس نے بتایا کہ اس کے گھر کی ہر شے لٹ چکی ہے۔
طاہرہ نوری گزشتہ بیس سال سے شمالی افغانستا ن میں ایک یو این مشن کے ساتھ بطور کک کام کررہی تھی اور اپنی بچائی ہوئی ساری رقم نئی دلی آنے پر صرف کر چکی ہے۔وہ یہاں اپنے دل کا علاج کرانے کے ساتھ ساتھ اپنے پوتے کی مفلوج ٹانگوں اور دوسرے پوتے کے بہتے کانوں کا علا ج کرانے کے لیے آئی تھی۔یہاں دلی کے ڈاکٹرز نے اس میں ایک اور بیماری کی تشخیص کر دی ہے۔اسے اووری کا کینسر بھی تھا۔دیار غیر میں پھنسی اس کی بیٹی نے تیسرے بچے کو جنم دیا ہے۔ طاہرہ نوری نے افغان سفارت کاروں کو بتایا کہ میرے جیسے بہت سے لوگ ہوائی ٹکٹ نہیں خرید سکتے۔اس نے ان سے درخواست کی کہ وہ اسے اور اس کی فیملی کو بذریعہ سڑک واپس بھیج دیں حالانکہ پاکستانی سرحد پر سخت سکیورٹی ہے مگر ا س کا کہنا تھا کہ میں پاکستانی سرحد تک پہنچ جائوں گی خوا ہ میری جان چلی جائے۔
مومند زئی نے بتایا کہ پاکستان پہلے ہر ہفتے 25ویزے جاری کرتا تھا مگر اب یہ تعداد کافی کم ہو چکی ہے۔ نئی دلی کے پاکستانی سفارت خانے نے بتایاکہ ہم طالبان کی آمد کے بعد 50افغانوں کو ٹرانزٹ ویزہ دے چکے ہیں اور باقیوں کو بھی کیس ٹو کیس پراسیس کر رہے ہیں۔کئی لوگوں کی درخواستیں مسترد ہونے کی اطلاع ان کے مرنے کے بعد ملی۔ جب مریم کی ماں کا سانس کی بیماری کی وجہ سے نئی دلی میں انتقال ہو گیا تو وہ اور اس کا بھائی دو ہفتے تک پاکستانی مشن سے ویزے اور بھارتی دفاتر سے کلیئرنس لینے کے لیے چکر لگاتے رہے۔افغان ایمبیسی سے مدد کے لیے بھی دھکے کھاتے رہے۔رات کو اس کے بہن بھائی نوڈلز کھا تے اور ایک تنگ سے کمرے میں سوتے رہے۔ ایک دن وہ ہسپتال کے مردہ خانے میں رکھی اپنی والدہ کی لاش رکھنے میں توسیع کے لیے گئے۔جب ان کی فیملی یہاں نئی دلی آئی تھی تو ماں بیٹی بہت خوش تھیں۔مریم کی بچپن میں ہی شادی ہو گئی تھی مگر جب اس کا شوہر جنگ میں مارا گیا وہ اس وقت حاملہ تھی۔ اب وہ ایک وکیل ہے مگریہاں چلغوزے بیچ کر ماں کے علاج کے اخراجات پورے کر رہی تھی۔ پہلے وہ ایک دفتر کی صفائی کرکے اپنے تین بچے پال رہی تھی۔شام کووہ کلاسز لیتی تھی۔ چھ ماہ قبل قانون کی ڈگری لینے کے بعد اس نے جنوبی افغانستان میں بچوں سے زیادتی کے کیسز لینا شروع کردیے۔اس پر اسے جان سے مارنے کی دھمکیاں ملنے لگیں اور اس کی ایک کولیگ کو گھر سے باہر قتل بھی کر دیا گیا تھا۔
مریم کا کہنا تھا کہ میں واپس جائوں گی اور میں جانتی ہوں کہ مجھے قتل بھی کیا جا سکتا ہے۔26ستمبر کو اس کی ماں کا انتقال ہواتھا اور اس کے پاس ایک ہی چوائس تھا۔کچھ بھی ہو جائے اسے اپنی ماں کی لاش کو گھر لے کر جانا ہے۔دو ہفتے قبل ایک دن انہوں نے اپنی ماں کی لاش ایک کرائے کی ایمبولینس میں رکھی اور پاکستانی سرحد کی طرف روانہ ہوگئے۔انہیں راستے میں تین دفعہ ایمبولینس بدلنا پڑی ایک اور سرحد پار کرنے کے لیے سفری کاغذات چیک کرانا پڑے۔تب وہ جنوبی افغانستان میں جا کراپنی ماں کو دفن کر سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔