لیگی ارکان پارلیمنٹ کی بغاوت کا خدشہ، نوازشریف نے ایاز صادق کو قابو پانے کا ٹاسک دیدیا
شیئر کریں
اسلام آباد+ لاہور ( بیورو رپورٹ/ ایجنسیاں) لیگی ارکان پارلیمنٹ کی بغاوت کا خدشہ، نواز شریف نے ایاز صادق کو قابو پانے کا ٹاسک دے دیا۔ تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعظم و مسلم لیگ ن کے صدر محمد نواز شریف سے اسپیکر قومی اسمبلی سردارایاز صادق اور وفاقی وزیر ریلویز خواجہ سعد رفیق نے ملاقات کی ،ملاقات کے دوران موجودہ صورتحال پر گفتگو سمیت آئندہ کے حوالے سے بھی تبادلہ خیال اور حکمت عملی طے کی گئی، اسپیکر قومی اسمبلی نے نواز شریف کو مردم شماری کے تناظر میں پارلیمانی نشستوں کے حوالے سے پارلیمانی رہنمائوں سے ہونے والی ملاقات کے حوالے سے آگاہ کیا،ملاقات میں اس بات کا حتمی فیصلہ کیا گیا کہ نواز شریف 12نومبرکو ایبٹ آباد جلسے سے عوامی مہم کا آغاز کریں گے اور اس کے بعد آئندہ کے جلسوں کاشیڈول جاری کیا جائے گا۔علاوہ ازیں میڈیا رپورٹس کے مطابق ملاقات میں سابق وزیراعظم نے جنوبی پنجاب میں بھی رابطہ مہم تیز کرنے بارے تبادلہ خیال کیا گیا جبکہ پارٹی کے اندر جاری گروپ بندی ختم کرانے کیلئے اسپیکر قومی اسمبلی کو ٹاسک دیا۔اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق نے کہا ہے کہ جو غیر جمہوری طریقوں سے اقتدار میں آنا چاہتے ہیں انہوں نے تو اچکن بھی سلوا لی ہیں لیکن یہ دھری کی دھری رہ جائیںگی ،آئین میں ٹیکنوکریٹ حکومت کی کوئی گنجائش نہیں،احتساب بل میں عدلیہ اور افواج کو لانے کی کوئی بات نہیں ہوئی ،نواز شریف آئندہ چند روز میں عوامی مہم کا آغاز کریں گے ،اسحاق ڈار طبیعت ناساز ہونے کے باعث نیب عدالت میں پیش نہیں ہو رہے ۔ اپنے حلقہ انتخاب کے دورہ کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے ایاز صادق نے کہا کہ پارٹی قائد نواز شریف سے ملاقات میں سیاسی امور پر تبادلہ خیال ہو اہے جبکہ اس موقع پر حلقہ بندیوں کے حوالے سے بات ہوئی جس کیلئے ہم نے قانون سازی کرنی ہے ۔ تمام پارلیمانی لیڈرز پراس پر متفق تھے لیکن کچھ جماعتوں نے تحفظات کا اظہار کردیا ۔ پیر کے روز دوبارہ میٹنگ ہے جس میں سندھ کے خدشات کے حوالے سے گفتگو ہو گی اور اگر ضرورت پڑی تو منگل کے روز دوبارہ اجلاس ہوگا کیونکہ ہمیں اس معاملے کو جلد سے جلد پایاتکمیل تک لے کرجانا ہے ۔ انہوںنے نعیم الحق کی جانب سے افواج پاکستان اور عدلیہ کو احتساب بل میں لانے کے حوالے سے سوال کے جواب میںکہا کہ احتساب بل ضرور زیر بحث آیا ہے لیکن اس میں فوج اور عدلیہ کولانے کی کوئی تجویز نہیں ۔جن لوگوںنے یہ تجاویز دی تھیں وہ خود ہی اس سے پیچھے ہو گئے ہیں ۔ مجھے معلوم نہیں انہیں یہ خواب کہاں سے آتے ہیں کیونکہ اگر قومی اسمبلی کا کوئی ممبر یہ بات کرتا تو وہ مناسب ہوتا لیکن ان کا بات کرنا مناسب نہیں لگا۔پی ٹی آئی نے پہلے بھی دھرنے دئیے کیا ہوا اب بھی کچھ نہیں ہوگا۔ انہوںنے ایک سوال کے جواب میں کہاکہ نواز شریف تین بار اس ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیںانہیں سکیورٹی دی گئی ہے اور کیا یہ غیر مناسب بات نہیں کہ نواز شریف کو سکیورٹی مہیا نہ کی جائے۔ انہوںنے ٹیکنو کریٹ حکومت کے سیٹ اپ بارے سوال کے جواب میں کہا کہ میں نے اس پر ڈسکشن بھی کی ہے لیکن آئین میں ٹیکنوکریٹ حکومت کی کوئی گنجائش نہیں،جو لوگ ایسا سوچ رہے ہیں وہ نہیں چاہتے کہ پاکستان اور جمہوریت مستحکم ہو۔ میںیہ بھی میں جانتا ہوں جو ووٹ کے ذریعے اقتدار میں نہیں آسکتے اور غیر جمہوری طریقوں سے اقتدار میں آنا چاہتے ہیں وہ اچکن اور سوٹ بھی سلوا بھی چکے ہیں لیکن یہ دھرے کے دھرے رہ جائیں گے ۔ انہیں چاہیے کہ وہ اچکن تھوڑی کھلی سلوائیں تاکہ یہ آئندہ پچیس سے تیس سال مزید چل سکے ۔وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ عمران خان کے ایجنڈے کا پتا ہے لیکن آصف زرداری نامعلوم ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔ لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ نواز شریف بطور وزیراعظم سیاسی مخالفین کے لیے اتنے خطرناک ثابت نہیں ہوسکتے جتنے اب ہوسکتے ہیں لیکن مخالفین کو یہ بات سمجھ نہیں آئی انہوں نے کہا کہ ہماری قیادت کو ناجائز طور پر شکنجے میں جکڑنے کی کوشش کی جارہی ہے ہمارے ساتھ جو ناانصافی کی جارہی ہے اس سے ن لیگ کا بیانیہ قوم کے سامنے ارہا ہے جب کہ جو لوگ جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں وہ ہماری جماعت کے حامی بنتے جارہے ہیںوزیر ریلوے کا کہنا تھا کہ جلسے کرنے والے کو بہت جلدی ہے لیکن جب الیکشن کا ڈھول پڑے گا تو نتائج سامنے آجائیں گے جبکہ آصف زرداری کو سیاست کا آئن اسٹائن سمجھا جاتا ہے انہیں ایک مشورہ ہے کہ ہمارے ساتھ مل کر آئین میں ترمیم کرالیں تاکہ انتخابات وقت پر ہوں ابھی حلقہ بندیاں کرنی ہیں اگر یہ کام لمبا ہوگیا تو عام انتخابات تاخیر کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ایک سوال کے جواب میں خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ آصف زرداری سے ملنے کے لیے کوئی بے تابی نہیں وہ جو لڈو بانٹتے ہیں ہمیں نہیں چاہیے ان کے لڈو ان جیسے ہاضمے والے ہی کھاسکتے ہیں لیکن سیاسی جماعتوں کو آپس میں رابطہ ختم نہیں کرنا چاہیے جو رابطہ نہ کرنے یا بات نہ کرنے کا کہے وہ سب کچھ ہوسکتا ہے بس سیاستدان نہیں ہوسکتا۔