ہنزہ نگر سے چائنا کی سرحد۔۔خوابوں کا سفر
شیئر کریں
دنیاکاشایدہی کوئی ایساعلاقہ ہو جہاں چاروں جانب بلندقامت چوٹیوں کاراج ہواورہریالی بھی چھائی ہوئی نظرآئے
برف پوش انتہائی اونچے پہاڑوں پرخرمستیاں کرتے مارخوروں کے ریوڑسیاحوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالیتے ہیں
گلیشیئرسے بہہ کر آنے والاپانی صحت بخش‘ معدنیات سے پراورشفافیت کے لحاظ سے دنیامیں دوسرے نمبرپرہے
ہنزہ نگرمیں جابہ جاسیب ‘ناشپاتی ‘اخروٹ‘آڑو‘چیری باغات ہرجانب موجود‘اس علاقے کی خوبانی دنیابھرمیں مشہورہے
2010میںحادثاتی طور پر وجود میں آنے والی عطاء آباد جھیل بھی قدرت کا انمول تحفہ ‘ اس علاقے کی پہچان بن چکی ہے
پرویز قمر
ہنزہ نگر خوابوں کی حسین سرزمین جہاں پریاں اپنا ڈیرہ جماتی ہیں اور دور اونچے برف پوش پر آسمان سے باتیں کرتے مار خور اپنی خرمستیوں سے دھیان ہٹا کر جب ان پریوں کو اپنی سرزمین پر چہل قدمی کرتے دیکھتے ہیں تو ان کی خوشیوں کا ٹھکانہ نہیں ہوتا۔
جی ہاں! یہ گلگت بلتستان ہنزہ نگر ہے جہاں کی نگری نگری دلفریب نظاروں سے مزین ہے اور کیا ہی خوب منظر ہوتا ہے جب سورج کی پہلی کرن گولڈن پیک سے ٹکرا کر اسے سونے کے روپ میں تبدیل کر دیتی ہے۔ اور اگر غروب آفتاب کا دلکش و سہانا منظر دیکھنا ہو تو ہنزہ میں واقع قلعہ التت کا رخ کیجئے۔
وادی ہنزہ نگر گلگت شہر سے تقریباً112 کلو میٹر شمال میں واقع ہے یہ وادی سطح سمندر سے تقریباً2438 میٹر بلند ہے یہاں زیادہ تر بروشکی زبان بولی جاتی ہے۔
و ادی ہنزہ نگر کو چاروں طرف سے بلند و بالا برف پوش پہاڑوں نے اپنے حصار یں لیا ہوا ہے، ہنزہ نگر کے چاروںطرف جو برف پوش پہاڑی چوٹیاں واقع ہیں ان میں مشہور راکا پوشی7788 میٹر، ھسپر پیک7611 میٹر، الترپیک73800 میٹر اور لیڈی فنگر6000 میٹر قابل ذکر ہیں۔
دنیا کا شاید ہی کوئی اتنا خوبصورت خطہ ہوجہاں چاروں طرف اس طرح کی بلند قامت چوٹیوں کا راج ہو۔
ہنزہ نگر ایک بادشاہی ریاست پر مشتمل خطہ تھا جہاں کے حکمران کو’’ میر‘‘ کہا جاتا تھا1974 ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے اسے پاکستان میں شامل کروایا۔شاہراہ ریشم یہیں سے گزرتی تھی جو چین اور پاکستان کے درمیان رابطے کا قدیم ترین اور واحد ذریعہ تھی اب یہ شاہراہ قراقرم کی عظمت میں دھندلا چکی ہے۔ہنزہ نگر کے حکمران میر نے اپنے حفاظت اور رہائش کے لیے بلند پہاڑی پر ایک قلعہ تعمیر کروایا جو ’’قلعہ بلتت‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔یہ قلعہ8 سن عیسوی میں تعمیر کیا گیا2004 ء میں اقوام متحدہ کی زیلی تنظیم یونیکو نے اسے عالمی ثقافتی ورثہ کا درجہ دیا۔ قلعہ بلتت کی بناوٹ اور اندرونی ساخت یاد رفتہ کا تازہ کرتی ہے قلعہ سے ہنزہ نگر کا نظارہ بآسانی کیا جا سکتا ہے۔
وادی ہنزہ نگر کے لوگ نہایت ہی سادے اور ملنسار ہوتے ہیں ہنزہ کے گلیشیئر سے آنے والا پانی نہایت ہی صحت بخش اور معدنیات سے پر ہوتا ہے اور تحقیق کے مطابق ساری دنیا میں شفافیت کے لحاظ سے دوسرے نمبر پر آتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ہنزہ نگر کے لوگ طویل العمر ہوتے ہیں۔ہنزہ نگر اپنی ہریالی اور خوبصورت برف پوش پہاڑوں کی وجہ سے دنیا بھر میں الگ الگ مقام رکھتا ہے۔دریائے ہنزہ مختلف علاقوں سے ہوتا ہوا پہلے دریائے گلگت کا حصہ بنتا ہے اور پھر بالآخر دریائے سندھ سے مل کر عظیم ہو جاتا ہے ۔ اگرآپ لذیذپھلوں سے سجے کسی علاقے کی تلاش ہے تو یہ مقام بھی ہنزہ ہی ہوسکتا ہے ،ہنزہ نگر میںسیب، ناشپاتی، آڑو، چیری، اخروٹ اور خوبانی کے جابجا باغات نظر آتے ہیں۔یہاں کی خوبانی نہایت لذیذ ہوتی ہے اور اسے خوبانی کا دیس بھی کہا جاتا ہے۔یہاں کی خوبانی ساری دنیا میں مشہور ہے اور اس سے بنا Arricot Cake کا کوئی ثانی نہیں۔
قدیم گزر گاہ ہونے کی وجہ یہاں بدھ مت سے تعلق رکھنے والی نقش و نگاری پہاڑوں پر جا بجا کندہ کیے ہوئے نظر آتے ہیں۔جو یہاں تجارت کی غرض سے آنے والے افراد نے رقم کیے ہیں اور آج بھی قابل دید مقام رکھتے ہیں۔حادثاتی طور پر وجود میں آنے والی عطاء آباد جھیل بھی قدرت کا انمول تحفہ ہے جو اس علاقے کی پہچان ہے۔عطاء آباد جھیل2010 ء میں ایک بہت بڑی لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے وجود میں آئی جو تقریباً21 کلو میٹر پر مشتمل ہے اور اس کی گہرائی تقریباً360 فٹ کے قریب ہے۔
اس لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے مختلف گائوں متاثر ہوئے اور اس حادثاتی جھیل نے13 کلو میٹر میٹر شاہراہ کو اپنے نرغے میں لے لیا۔ چنانچہ نقل و حرکت میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔نقل و حرکت کے لیے مقامی تجارتی قافلے بذریعہ لانچ اور کشتیوں کے ذریعے19 کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد شاہراہ قراقرم تک دوبارہ پہنچے۔لہٰذا ان تمام عوامل کو دیکھتے ہوئے حکومت چین نے نقل و حرکت کو بلا کسی رکاوٹ جاری رکھنے کے لیے پہاڑوں کے اندر 3 ٹنل تعمیر کیے جن میں سب سے بڑی ٹنل کا فاصلہ تقریباً7 کلو میٹر پر محیط ہے آپ ایک ٹنل سے نکل کر ابھی عطاء آباد کی سحر انگیزی کو دیکھ بھی نہیں پاتے کہ دوسرا ٹنل آپ کو اپنی آغوش میں لے لیتا اور یہ آنکھ مچولی کسی نعمت سے کم نہیں۔
عطاء آباد جھیل کا پانی سطح سمندر سے اتنی بلندی پر ہونے کی وجہ سے بالکل گہرا نیلا ہے جو اپنی خوبصورتی پر بہت مطمئن ہے عطاء آباد جھیل دنیا کی سب سے صاف ستھرا اور آلودگی سے پاک جھیل ہے۔آپ اپنا سفر ہنزہ نگر سے چائنا بارڈر خنجراب پاس کی طرف کرتے ہیں تو شاہراہ قراقرم آپ کا مددگار و معاون ہوتا ہے۔
اب آپ پاسو کی طرف محو سفر ہیں دلکش و دلفریب نظارے ہر تھوڑے دیر بعد آپ کو رکنے پر مجبور کرتے ہیں۔ دریائے ہنزہ بھی آپ کے ساتھ ساتھ ہوتا ہے کہیں پردریا بہت شور مچاتا ہے تو کہیں خاموشی سے اپنا سفر طے کرتا اہے۔
تقریباً45 کلو میٹر کا فاصلہ طے کرنے کے بعد آپ گلگت پہنچ جاتے ہیں یہ سو سال پرانا تاریخی قصبہ ہے یہاں سیاحوں کے لیے کئی ہوٹل موجود ہیں اس کے علاوہ ایک چھوٹا سا میوزیم بھی آپ کی دلچسپی کے لیے موجود ہے۔
اس علاقے میں آنے کے لیے آپ کوانتہائی دشورارگزارسفرطے کرناپڑتاہے ۔ لیکن یہاں پہنچنے والے سیاحوں کی ساری تھکان خوبصورت مناظرمیں ڈو ب کرکھوسی جاتی ہے ۔
٭٭٭٭