نواز شریف نے فوج کیخلاف اپنے تمام گھوڑے کھول دیئے‘ تجزیاتی رپورٹ
شیئر کریں
اسلام آباد(تجزیہ: ظفر محمود شیخ) کرپشن، قومی خزانہ کی لوٹ مار، اقتدار کی قوت کے غلط استعمال کی انتہاؤں پر اس تباہی کے خلاف قوم کی مزاحمت ایک ایسی جنگ کو چھیڑ چکی ہے جو ہر گزرتے دن شدید سے شدید ہوتی چلی جارہی ہے اب یہ اتفاق ہے یا معاملات کا نقطہ، انتہا کہ مزاحمت کا یہ عمل اس دور میں شروع ہوا ہے جب نوازشریف برسر اقتدار ہیں، سانپ کے سر یہ پہلا ہتھوڑا عدالت عظمیٰ نے مارا دوسرا اپوزیشن نے، تیسرا پھر عدالت ہی مارنے جارہی ہے مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ توپوں کا تمام رخ فوج کی جانب ہے یہ کہنا بھی غلط ہوگا کہ اس سارے عمل کو فوج کی حمایت حاصل نہیں اگر ایسا نہ ہوتا تو عدالتیں، نیب، ایف آئی اے وغیرہ حکمران ان سب کو چبا چکے ہوتے۔ ان اداروں کو کوئی ٹھوس کارکردگی دکھانے کے لیے ایک بالادست قوت کی امداد درکار تھی اور فوج کے بغیر یہ کام ہونہیں سکتا تھا۔ نوازشریف اور ان کے ساتھیوں کو جو دراصل سیاست کے نام پر اس ملک کی مافیاؤں کے چھوٹے بڑے سرغناؤں کا ٹولہ ہے کو بہت اچھی طرح پتہ ہے کہ ان اداروں کی پشت پر فوج کا ہاتھ ہے اسی لئے انہوں نے یکسو ہوکر فوج کو ہدف بنالیا ہے۔ انہیں نظر آرہا ہے کہ مزید چند ماہ اور یہ معاملات اسی طرح چلتے رہے تو مکمل سیاسی موت یقینی ہے۔ چنانچہ انہوں نے پہلے چاروں جانب حملوں اور نتائج پر مایوسی کے بعد ایک ہدف طے کرلیا ہے وہ ہدف یہ ہے کہ فوج کو اتنا تنگ اور مجبور کرایا جائے کہ اسے مداخلت کرنی پڑے جو یقیناً اس کرپٹ سیاسی اشرافیہ کو نئی زندگی دے گی۔ لندن کی 30 اکتوبر کی میٹنگ اس حوالہ سے فیصلہ کن تھی جس میں نوازشریف کو یہ اندازہ وہگیا کہ ان کی ٹوکری میں جتنے بھی انڈے ہیں ان میں سے شاید ہی کوئی اس حد تک جانے کو تیار ہو جہاں وہ لے جانا چاہتے ہیں چنانچہ انہوں نے نہ صرف اپنی مستقبل کی حکمت عملی سے کسی ایک فرد کو بھی اعتماد میں نہیں لیا بلکہ عملاً انہیں فیصلہ ساز بنانے کے بجائے ایک ورکر اور مہرہ بنادیا ہے۔ حتیٰ کہ وزیراعظم عباسی اور وزیراعلیٰ شہباز بھی منہ لپیٹ کر واپس آئے ہیں۔ اس وقت تمام معاملات نوازشریف صاحب خود دیکھ رہے ہیں ان کی نئی حکمہ عملی کا کسی کو بھی حتمی طور پر پتہ نہیں ہے صرف روزانہ کی بنیاد پر جاری ہونے والے احکامات ہیں جو ہر شخص کے لیے الگ الگ ہیں ہاں صرف یہ امکان ہے کہ مریم نواز کو شاید کسی حد تک علم ہو۔ باخبر ترین ذرائع نے نوازشریف کے اہداف اور حکمت عملی کے حوالہ سے ان خدشات کا اظہار کیا ہے کہ ان کا ہدف اب صرف اور صرف فوج کی تباہی ہے ان کے خیال میں ان کے اقتدار کی راہ میں نرامم اصل قوت فوج ہے جس کا تباہ ہونا بہت ضروری ہے اور حکمت عملی کے مطابق انہوں نے فوج کے خلاف اپنے تمام گھوڑے کھول دیئے ہیں اور چند ابتدائی اہداف مقرر کیے ہیں جن میں عوام اور فوج کے درمیان نفرت میں اضافہ، فوج کے ہاتھ سے بہت سی چیزیں چھین لینا اور اسے مجبور کرکے غیر آئینی اقدامات پر مجبور کرنا ہے جن میں مارشل لاء بھی شامل ہے۔ اس نئی حکمت عملی کے لیے انہوں نے ملک کے اندر نئی صف بندی شروع کرنے کے ساتھ ساتھ بیرون ملک سے بھی ہر طرح کی مدد طلب کرلی ہے جو ایسے حالات پیدا کریں گے کہ ایک بار پھر فوج اور سیاسی قیادت میں ٹکراؤ پیدا ہوجائے۔ ڈان لیکس سمیت کئی معاملات پر فوج کا اپنی روایت اور مزاج کے خلاف پیچھے ہٹ جانا نوازشریف کی ٹکراؤ کی حکمت عملی کی ناکامی کا سبب بنا ہے، رہی سہی کسر وزیراعظم عباسی نے پوری کردی ہے کہ فوج سے ٹکرانے کے بجائے انہوں نے مفاہمت اور اچھی ورکنگ ریلیشن شپ کا راستہ چنا ہے جو نوازشریف کو سخت ناپسند ہے۔ مگر کیا کریں ایک حد سے زیادہ وہ شاہد خاقان کو مجبور بھی نہیں کرسکتے اس لیے انہوں نے نئی حکمت عملی کے تحت اس بات کا جائزہ لینا شروع کیا ہے کہ اگر کلثوم نواز کی خالی نشست پر مریم کو انتخاب لڑا کر یا کسی خصوصی نشست پر انتخاب کے بعد مریم کو وزیراعظم کے طور پر آگے لایا جائے تو پارٹی کے اندر کیا صورتحال پیدا ہوگی اور جو مخالفت ہوگی اسے کس طرح روکا جاسکتا ہے۔ یہ کام وہ آئندہ چند دنوں میں کرنا چاہ رہے ہیں اس سے آگے کا ایجنڈہ ملک میں انتشار و افتراق کا ہے اسی لیے ان کی معیشت پر کوئی توجہ نہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ معیشت کی بدحالی باقاعدہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کا نتیجہ ہے تو غلط نہ ہوگا۔