سفر یاد۔۔۔ قسط 5
شیئر کریں
شاہد اے خان
رات کودیر سے سوئے تھے اس لیے صبح آنکھ بھی دیر سے کھلی۔ جب سب لوگ جاگ گئے تو فیصلہ کیا گیا کہ ناشتہ باہر کسی ہوٹل میں کیا جائے۔ لیکن ایک صاحب نے یہ کہہ کر کہ ہمارے پاس نہ پاسپورٹ ہے نہ اقامہ اس لیے ہمیں باہر نہیں نکلنا چاہیے، ہم سب کو مشکل میں ڈال دیا۔ سعودی عرب میں کفیل سسٹم ہے، کفیل کوئی سعودی شہری ہوتاہے یا کوئی کمپنی بھی کفیل ہو سکتی ہے۔ کارکن کا پاسپورٹ کفیل کے پاس رہتا ہے۔ پاسپورٹ اس وقت واپس ملتا ہے جب آپ چھٹی پراپنے ملک جا رہے ہوں یا نوکری ختم کرکے مستقل واپس جا رہے ہوں۔ غیر ملکی کارکنوں کے پاس رہائش کا اجازت نامہ ہوتا ہے جسے اقامہ کہا جاتا ہے۔ اقامہ بنوانا بھی کفیل کا کام ہے جس کے بننے میں ہفتہ دس دن لگ جاتے ہیں۔ سستی لیبر فورس کی وجہ سے کئی عشروں تک ویزوں میں مبینہ بے ضابطگیوں کو نظر انداز کیا گیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ غیرملکی ورکرز کی بلیک مارکیٹ وجود میں آگئی۔ بتایا جاتا ہے کہ ان میں بہت سے ورکرز ویزے کی مدت کے بعد بھی سعودی عرب میں رہائش پذیر ہوجاتے ہیں۔ بعض غیر ملکیوں نے غیرقانونی طور پر بزنس کرلیے جبکہ بعض دوسرے آجروں کے پاس کم تنخواہوں پر کام کرنے پر راضی ہوگئے۔ اس لیے سعودی عرب میں غیر ملکیوں کے حوالے سے سختی بھی بہت ہوتی ہے۔ اکثر سڑکوں بازاروں پر پولیس چھاپے مارتی ہے، لوگوں کے اقامے چیک کیے جاتے ہیں جس نے اقامہ نکالنے میں ذرا سی دیر کی اس کو اٹھا کر گاڑی میں ڈال لیتے ہیں۔ یعنی بغیراقامے کے باہر گھومنے کو کسی طرح عقل مندی قرار نہیں دیاجا سکتا۔ لیکن ناشتہ تو کرنا ہی تھا اس لیے طے ہوا کہ باہر نکلا جائے، گروپ کے ایک صاحب جو گزشتہ روز ہوٹل کے آس پاس کا علاقہ گھوم آئے تھے انہوں نے قریب ہی واقع ایک پاکستانی ہوٹل کا بتایا، ہم سب وہاں جانے کیلیے نکل پڑے۔ سعودی عرب میں کئی لاکھ پاکستانی ملازمت کے سلسلے میں مقیم ہیں۔ اس لیے ہر شہر میں پاکستانیوں کے ہوٹل بھی موجود ہیں جہاں پاکستانی کھانے فراہم کیے جاتے ہیں۔ ہم ناشتے کے لیے جس ہوٹل پہنچے وہاں حلوہ پوری بھی مل رہی تھی اس طرح ریاض میں ہم نے پہلا ناشتہ حلوہ پوری کا کیا جس کے بعد چائے کا دور چلا۔ گرمی بڑھ رہی تھی اس لیے چائے پی کر ہم اپنے ہوٹل اپارٹمنٹ میں لوٹ آئے۔ کرنے کو کچھ نہ ہو تو دماغ میں یادوں کے جھکڑ چلنے لگتے ہیں۔ گروپ کے تمام ہی لوگ ایک دوسرے سے الگ تھلک اپنی سوچوں میں گم ہوگئے۔ ہم یہاں کیوں آئے ہیں ،کھانے کو تو اپنے ملک میں بھی مل رہا تھاتو پھر یہ سب بکھیڑا کیا ہے؟ جب خدا نے رزق دینے کا وعدہ کیا ہے تو پھر ان دور دیس کے دروازوں پر دستکیں کیوں؟ اجنبی روزنِ دیوار سے در آنے والی کرنوں کی پذیرائی کس لیے؟دماغ میں سوچوں کی ٹرین جاری تھی جس کے پہیوں کی گڑگراہٹ میں جانے کب آنکھ لگ گئی۔
آنکھ احمد کے آنے پر کھلی ، احمد وہ مقامی نوجوان تھا جو ہماری کمپنی میں رابطہ کار کے طور پر تعینات تھا۔ احمد نے ہم سب کو تیار ہونے اور اپنے کاغذات ساتھ رکھنے کے لیے کہا۔ احمد ہم سب کو لےکر کمپنی کے دفتر پہنچا ، وسطی ریاض میں موجود اس دفتر میں پاکستانی سرکاری دفاتر کی طرح کا ماحول نظر آیا، مختلف قومیتوں کے لوگ اپنی اپنی ڈیسک پر بیٹھے اونگھ رہے تھے۔ زیادہ تعداد فلپائنی اور بھارتی باشندوں کی تھی جبکہ افسران زیادہ تر مصری تھے۔ یہاں ہمارے ہاتھوں میں کنٹریکٹ تھما دیے گئے۔ ہم نے کہا کنٹریکٹ تو ہم نے کراچی میں سائن کر دیے تھے جس پر جواب ملا اس کنٹریکٹ کا ایجنٹ کو پتا ہوگا ہمیں یہاں کام کرنے کے لیے نیا کنٹریکٹ لازمی کرنا ہوگا۔ نئے کنٹریکٹ میں تنخواہ بھی کم درج تھی اور پوسٹ بھی تبدیل کرد ی گئی تھی۔ ہم نے احتجاج کیا لیکن کہا گیا کنٹریکٹ سائن کرنا ضروری ہے ورنہ واپس بھیج دیا جائے گا اور ویزا اور ٹکٹ کے پیسے بھی ہم ہی سے لیے جائیں گے۔ نئے کنٹریکٹ کے تحت سالانہ چھٹی کوئی نہیں تھی اور ہم کو ایک سال کے بجائے تین سال بعد واپسی کا ٹکٹ ملنا تھا۔ہم سب ہی لوگ کشتیاں جلا کر یہاں پہنچے تھے ہمارے سامنے اور کوئی راستہ نہیں تھا اس لیے کنٹریکٹ سائن کردیا۔ خلیجی ممالک میں اس قسم کی صورتحال پیدا ہونا کوئی انہونی بات نہیں تھی۔ ہمارے پاس صورتحال کا سامنا کرتے ہوئے اسے قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ بھی نہیں تھا،امید تھی کہ کچھ عرصے کے بعد حالت کچھ بہتر ہوجائے گی۔ دفتر سے احمد ہمیں دوبارہ ہوٹل اپارٹمنٹ چھوڑ گیا، راستے میں ایک ہوٹل پر رک کر ہم نے کھانا خرید لیا تھا۔ اپنے ہوٹل پہنچ کر ہم نے کھانا کھایا۔ شام کے پانچ بج رہے تھے۔ چائے کی طلب میں ہم سب نے باہر کی راہ لی، صبح جس پاکستانی کے ہوٹل پر ناشتہ کیا تھا وہیں پر چائے پی۔اس کے بعد بطحہ کا بازا ر دیکھنے کا پلان بن گیا۔ ہمارا گروپ بطحہ کی خاک چھاننے پیدل ہی نکل پڑا۔۔ جاری ہے