جیالوں کا المیہ
شیئر کریں
انوار حسین حقی
پاکستان کی عدالتِ عظمی ٰ میں پانامالیکس کے معاملے پر پیش رفت کے بعد عمران خان نے دو نومبر کادھرنا موخر کرنے کا اعلان کیا کیا کہ” اسٹیٹس کو “ کی حامی قوتوں کی توپوں کا رُخ اُن کی طرف مڑ گیا ۔وہ تمام جو عمران خان کے دو نومبر کے احتجاج کو ان کا ذاتی فیصلہ قرار دے رہے تھے عمران خان کے تازہ ترین ذاتی فیصلے پر سیخ پا نظر آتے ہیں ۔ شیخ رشید احمد ، طاہر القادری سمیت پاکستان کی پوری سیاسی برادری کی خواہش یہ ہے کہ عمران خان ان کے مشورے پر چلیں ۔ سینیٹ میں قائد حزبِ اختلاف اعتزاز احسن اپنی جماعت میں تو اپنا موقف منوا نہیں سکتے لیکن عمران خان کو مشورہ دےنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے ۔۔۔ موجودہ حالات میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ سب سے زیادہ ” ستم ظریفی “ کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔ اپنے تازہ ترین بیان میں انہوں نے عمران خان پر میاں نواز شریف کو مضبوط کرنے کا الزام عائد کیا ہے ۔ شاہ صاحب کو کون سمجھائے کہ پاکستانی قوم کا حافظہ اتنا بھی کمزور نہیں ہے کہ انہیں 2014 ءکے دھرنے کے موقع پر پارلمنٹ کے طویل ترین بے مقصد اجلاس میں حکومت کا ساتھ دینے کی تمام کہانی بھول جائے ۔۔ قوم دوپہر کے اُس کھانے کو بھی نہیں بھول پائی جو رائے ونڈ کے ” جاتی عمراء“ محل میں آصف علی زرداری کے اعزاز میں میاں صاحبان نے پکایا تھا ۔۔۔ اس لنچ کی 80 ڈشیں شاید آصف علی زرداری کو ہضم ہو گئی ہوں لیکن قوم کو نہیں ۔
موجودہ پیپلز پارٹی کو کئی قسم کے المیوں کا سامنا ہے۔ جن میں پیپلز پارٹی سندھ اور پنجاب کی قیادت کے خیالات کا تضاد ،آصف علی زرداری کی پارٹی پر مضبوط گرفت اور بلاول بھٹو زرداری میں سیاسی پختگی کا فقدان سرِ فہرست ہے ۔ پیپلز پارٹی کا 46 سالہ سفر اب ” سیاسی بڑھاپے “ میں ڈھل رہا ہے ۔ پارٹی کا یہ بڑھاپا خورشید شاہ سے برداشت نہیں ہو پاتا شاید یہ سب اس لیے ہے کہ وہ خود عمرکے اس حصے میں ہیں جہاں عمرِ رفتہ کی یادیں روگ بن جاتی ہیں ۔اور پھر مستقبل بلاول بھٹو جیسی قیادت سے جُڑا ہو تو پریشانی خورشید شاہ جیسی ہی ہو جاتی ہے ۔۔۔۔
بے نظےر بھٹو کا بےٹا ہونے کے باجود بلاول” بھٹو“ نہےں بن سکا ۔۔۔۔۔۔ یہ سب تین سال پہلے مزارِ قائد کے سامنے پےپلز پارٹی کے اےک بڑے جلسے مےں یہ خود بلاول نے ثابت کیا تھا جب عوام کے اےک جمِ غفےر مےں بلاول کی عملی سےاسی مہم مےں انٹری کامےاب نہےں ہو سکی تھی۔تین سال بعد بھی آج اگر بلاول بھٹو کی گزشتہ ایک ماہ کی تقاریر اور بیانات کا جائزہ لیں تو بلاول ےہ تا¿ثر قائم کرنے مےں مکمل طور پر ناکام نظر آتے ہیں کہ پاکستان کے موجودہ ” باغِ سےاست “ کے ماحول کا انہےں کچھ اندازہ ہے۔ ۔۔ گلستانِ سےاست کی پہلی ’‘ بہار “ کے نووارد کے طور پر بلاول زرداری سےاست کے” صوفےوں“ کے سبق سے محروم نظر آئے تھے اور ابھی تک ان کی محرومی بر قرار ہے ۔ پہلی سیاسی تقریر میں انہےں دوران تقرےر شےری رحمن کی ٹےوٹر شپ تو حاصل رہی لےکن سکوتِ لالہ و گُل سے کلام پےدا کرنے والے دلِ فطرت شناس کی آگاہی سے ان کی محرومی واضح طور پر محسوس ہوتی رہی۔
اس جلسے مےں بلاول زرداری کی تقرےر کے دوران شےری رحمن ان کے ساتھ نہ صرف موجود رہےں بلکہ ان کی رہنمائی بھی کرتی ر ہےں ،ان کے برقت لقموں کے باوجود بلاول کی تقرےر مےں قائدانہ خطاب کی جھلک کہےں نظر نہےں آئی تھی ۔ اب بھی بلاول بھٹو کی تقاریر کو کوئی بھی نام دےا جا سکتا ہے۔ لےکن ان کی بے ہنگم ، بے ترتےب، بے آہنگ گفتگو کو کسی طور پر بھی ”بھٹو“ کے وارث ےا کسی بڑی پارٹی کے مرکزی لےڈر کا ” اظہاریہ “ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔ بھٹو خاندان کی تارےخ ہے کہ انہےں جواں سالی مےں ہی مےدانِ سےاست کا بارِ گراں اُٹھانا پڑا ۔ اس حوالے سے مسائل کے انبار کے باوجود بھٹوز کے لیے مےدان بہت ہموار اور ماحول ساز گار رہا ۔ پاکستان کی قومی سےاست مےں قوم نے بھٹوز کو امر ہوتے اور حےاتِ جاودانی پاتے ہوئے دےکھا ہے۔ لےکن بلاول کے لیے بہت سی مشکلات ہےں ۔سب سے بڑی مشکل ےہ کہ انہےں اپنے والد کی عوامی شہرت کو ساتھ لے کر چلنا ہے جو کسی بھی صورت مےں مثبت نہےں ہے۔آصف علی زرداری کی مفاہمت کی سےاست نے ثابت کردےا ہے کہ وہ مےاں نوازشرےف سمےت کسی سے بھی ٹکر نہےں لےنا چاہتے ۔ ےا پھر آصف علی زرداری کو ےقےن ہوگےا ہے کہ 37 سال سے بھٹو کے نام پر قربان ہونے والا ” جےالا “ اب ےکطرفہ محبت مےں زےادہ پُر جوش نہےں ہے ۔
2013 ءکے عام انتخابات سے پہلے عمران خان کو فےورٹ قرار دےنے والوں کا خےال تھا کہ اگر عمران خان حکومت نہ بنا پائے تو وہ اےک انتہائی خطرناک اپوزےشن لےڈر ثابت ہوں گے ےہ تجزےہ شاےد درست ثابت نہ ہوتا اگر مےاں نواز شرےف حالات کا ادراک کر لےتے لےکن چار حلقوں مےں ہونے والی دھاندلی کو تحفظ دےنے کے لیے انہوں نے جس ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کےا وہ نہ صرف ان کے گلے کی ہڈی بن گئی بلکہ اس نے رواےتی سےاست کے علمبرداروں کے لیے بھی مشکلات کھڑی کر دی ہےں۔ اسلام آباد کے شاہراہ دستور پر دیے گئے دھرنوں نے لوگوں کی سوچ بہت حد تک بدل دی ہے۔
خورشید شاہ اور سعید غنی کی پارٹی اور قیادت کا المیہ یہ ہے کہ یہ ایک ایسے وقت بہت کمزور وکٹ پر ماضی کی کرکٹ کے آل راو¿نڈر او ر ورلڈ کپ کے فاتح کو للکار رہے ہیں جب ان کی اپنی اننگز بارہوےں کھلاڑی کا کرےکٹر معلوم ہو رہی تھی۔ یہ اب جنرل پروےز مشرف اور جنرل ضےاءالحق کی باقےات کا شور بھی مچا سکتے ہیں کہ ماضی کے اِن تلخ حقائق نے اِن کے لہجے کی گھن گھرج کو کھسےانہ بنا دےا کہ ان کی والد ہ نے جنرل پروےز مشرف کے ساتھ اےن آر او سائن کےا تھا اور بےنظےر بھٹو نے جن پر اپنے قتل کی سازش کا الزام لگاےا تھا اور جو چوہدری برادران جنرل ضےاءالحق کی خالص باقےات کا حصہ کہلاتے ہیں وہ پےپلز پارٹی کے دورِ حکومت مےں نائب وزراعظم کا منصب تخلےق کرکے حکومت کا حصہ بنائے گئے ۔ جسے بے نظےر کا قاتل قرار دے کر کراچی مےں اس کی موجودگی کا حوالہ دےا جا رہا تھا اس پروےز مشرف کو ان کے اپنے دورِ حکومت مےں گارڈ آف آنرز پےش کےا گےا تھا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ دےگر جماعتوں کو آمرےت سے ےارانوں کا طعنہ دےنے والے بلاول زردار ی بھول جاتے ہیں کہ ان کے ”نانا “ ذوالفقار علی بھٹو ےحےیٰ خان کی نےم مارشلائی حکومت کی پےداوار ہےں ۔ اور جمہورےت کے اسی چےمپےن نے پاکستان کے فوجی ڈکٹےٹر فےلڈ مارشل اےوب خان کی حکومت مےں شمولےت اختےار کیے رکھی اور بھٹو ازم کے فلسفہ کے بانی اےوب خان کے لیے ” ڈےڈی “ کے الفاظ استعمال کےا کرتے تھے۔
پیپلز پارٹی کی قیادت باقی جماعتوں کے قائدےن کو بھٹو ازم کے فلسفے مےں فلاح کی راہ دکھانے کی کوشش مےں مگن دکھائی دیتی ہے ۔ جیے بھٹو کے نعرے لگائے جاتے ہیں مگر خود ان کی پارٹی کی 37 سالہ تارےخ بھٹو ازم کے فلسفے سے بے وفائی اور کج ادائی کی تارےخ دکھائی دےتی ہے ۔ اِ س کے مقابلے مےں جس عمران خان کے لیے کٹھ پتلی کا نام استعمال کرتے ہوئے بلاول خود” جو کر“ دکھائی دیتے ہیں وہ قوم کو اُس ترجمانِ حقےقت کا پےغام دےتا نظر آتا ہے جو نوجوانوں کو ” رہ نوردِ شوق“ قرار دے کر مسلسل جستجو اور جد وجہد کا پےغام دےتے ہےں ۔ اےسا رہ نوردِ شوق جس کی نظر مےں بے شمار لےلائےں اور بے شمار محمل ہوتے ہےں ۔
بلاول بھٹوزرداری اپنے والد کے خےالات کے برعکس وزےر اعظم مےاں نواز شرےف اور ان کے بھائی مےاں شہباز شرےف پر تنقےد تو کرتے ہیں لےکن ان کے خلاف اپنے لائحہ عمل کا اعلان نہےں کرتے ۔ بلاول زرداری نوجوان ہےں ، پرعزم ہےں ، اپنی والدہ کے جانشےن بننا چاہتے ہےں۔ سےاسی زندگی کو تےز ہواو¿ں اور آرزو¿ں مےں اُڑانا چاہتے ہےں لےکن ان کا المےہ ےہ ہے کہ وہ اپنی عمر کے لوگوں کو بھی متا¿ثر نہےں کر سکے ۔۔۔ سےاست مےں جسمانی بلوغت کے ساتھ ساتھ ذہنی بلوغت بھی ضروری ہے ۔ جس سے خورشید شاہ کی پارٹی کے چیئر مین ابھی بہت دور نظر آتے ہےں۔ ماےوسی کے اس ماحول مےں پےپلز پارٹی کا ورکر مرتضیٰ بھٹو کے بےٹے ذوالفقار جونےئر اور فاطمہ بھٹو کی جانب رجوع کر سکتا ہے ۔۔۔۔ اس حوالے سے کچھ کہنا ابھی قبل از وقت ہوگا۔