میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
وہ گھنٹوں ایک ہی جگہ بیٹھی رہتی

وہ گھنٹوں ایک ہی جگہ بیٹھی رہتی

منتظم
هفته, ۵ نومبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

mubin-akhter

سچی کہانی فرضی نام کے ساتھ
ڈاکٹر سید مبین اختر
زیب النساءکی عمر 22سال ہے ،یہ شادی شدہ اور ایک بچے کی ماں ہے،بچے کی عمر 5ماہ ہے ،3سال پہلے اس کی ذہنی کیفیت خراب ہونی شروع ہوئی اور اس نے بلاوجہ رونا شروع کردیا ۔یہ خود کلامی کر تی ،اشارے کر تی،عجیب وغریب حرکات شروع کر دیں،مثلاً ناچنا ،چیخنا چلانا،غصہ کر نا اور بے چین رہنا،اس کیفیت میں بھی تبدیلی آجاتی تو یہ سب گھر والوں سے الگ تھلگ ہوکر بیٹھ جاتی ،سوچوں میں گم ہو کر گھنٹوں ایک ہی جگہ بیٹھی رہتی ،اپنی صفائی ستھرائی کا خیا ل نہ آتا، نہ ہی کھانے پینے کی پروا ہوتی ،بلکہ کہتی کہ اس میں بد بو آرہی ہے ،بھوک نہیں ہے،بہت مشکل سے گھر والوں کے کہنے پر آدھی روٹی کھاتی۔
زیب النساءاپنے والدین کے ساتھ آئی تھی انہوں نے ہی ساری کیفیت بیان کیا اور بتایا کہ تقریباً دو سال پہلے ہم لوگ ایک شادی کی تقریب میں گئے تھے اس کے بعد سے اس کی کیفیت خراب ہونی شروع ہوگئی ۔اس نے اپنے بالوں میں مٹی ڈالنی شروع کر دی۔بال کُھلے چھوڑ دیتی اسے پرواہی نہ رہی ،بہن بھائیوں کو مارنا پیٹنا شروع کر دیا۔اس وقت ہم نے سوچا کہ اس کی شادی کر دیتے ہیں۔شادی کے بعد یہ ٹھیک ہوجائے گی مگر پھر تو اس کی طبیعت اور زیادہ خراب ہوگئی، اور رویہ بگڑ تا ہی چلا گیا۔ایسے ہی حالات چل رہے تھے کہ بیٹا ہوگیا۔اب وہ 5ماہ کا ہے ، مگر یہ اس کابالکل خیال نہیںرکھتی ،نہ اس کو دودھ پلاتی ہے ،نہ اس کی صفائی ستھرائی کی پروا ہے،روتا ہے تو روتا رہے،بلکہ یہ اپنے شوہر سے لڑتی ہے ،اس پر شک وشبہ کر تی ہے کہ تمہارے کسی اور عورت کے ساتھ تعلقات ہیں۔
والدین سے معلومات حاصل کرنے کے علاوہ ہم نے مریضہ سے بھی سوالات کئے ،مگر اس نے اکثر سوالوں کا جواب نہیں دیا،اس کے رویّے اور بہت مختصر جملوں سے یہ صاف ظاہر تھا کہ اسے اپنی بیماری کا شعور نہیں۔
ان حالات میں گھر والوں پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مریض کی کیفیت کو سمجھیں اور صحیح علاج کی طرف آئیں،اور اس کیفیت میں ذہنی امراض کے ماہر معالج (Psychiatrist)سے علاج کروائیں۔بجائے اس کے کہ اِدھر اُدھر عاملوں وغیرہ کے پاس وقت ضائع کیا جائے ،ایک بڑی غلط فہمی لوگوں میں یہ بھی ہے کہ جب کو ئی لڑکا یا لڑکی ذہنی مریض ہو تو اس کی شادی کر دیتے ہیں اور جہاں شادی کر تے ہیں وہاں یہ بتاتے بھی نہیں کہ ان کا بیٹا یا بیٹی ذہنی مریض ہے۔اس طرح مسائل زیادہ بڑھ کر سامنے آتے ہیںاور اکثر طلاقیں بھی ہوجاتی ہیں۔کیونکہ شادی ذہنی مرض کا علاج تو نہیں ہے بلکہ اس کے بعد ذمہ داریاں مزید بڑھتی ہیں جس کے نتیجے میں مرض میں بھی اضافہ ہوتا ہے جس طرح زیب النساءبیماری میں اپنا خیال نہیں رکھ سکتی تھی شادی کے بعد اور بچے کی پیدائش کے بعد اس نے بچے کا بھی خیال نہ رکھا۔لہٰذا بچہ بھی متاثر ہوا۔جب مرض بہت بڑھ گیا تو اس کے والدین اس کوکراچی نفسیاتی ہسپتال لے کر آئے،اس وقت زیب النساءکی یہ حالت تھی کہ نہ وہ اپنا خیال رکھ سکتی تھی نہ شوہر کا اور نہ بچے کا ،جب اس کی شادی نہیں ہوئی تھی جب بھی اس کی یہی حالت تھی اور اب وقت کے ساتھ ساتھ بیماری میں شدت آگئی تھی ۔
عام طور پر لوگ لڑکیوں کے ذہنی مرض کو چھپاتے ہیں، ان کا خیال ہوتا ہے کہ پھر ان سے کوئی شادی نہ کر ے گااور اگر شادی کر تے ہیں تو بھی بتاتے نہیں جس کے نتائج افسوس ناک ہوتے ہیں۔اچھا ہوتا ہے اگر بیماری کے بارے میں درست معلومات دے دی جائیںتاکہ جہاں رشتہ ہو رہا ہے وہ خود بھی ذہنی طور پر تیار رہیں اور بیماری کے حملہ آور ہونے پر علاج کی طرف رجوع کر یں ،زیب النساءکا علاج فوری طور پر ادویات کے ذریعے شروع کیا گیا اور مشینی علاج (ECT) سے بھی مدد لی گئی۔جس کے نتیجے میں اس کی کیفیت میںجلد بہتری آگئی۔
اپنے مسائل اور ذہنی امراض کے لیے مندرجہ ذیل پتہ پر خط لکھیں:کراچی نفسیاتی ہسپتال ،ناظم آباد نمبر3 ،کراچی


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں