میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
کے پی ٹی ، 57؍ ارب کی 1060 ایکڑ اراضی پرقبضہ

کے پی ٹی ، 57؍ ارب کی 1060 ایکڑ اراضی پرقبضہ

ویب ڈیسک
هفته, ۵ اکتوبر ۲۰۲۴

شیئر کریں

کراچی پورٹ ٹرسٹ (کے پی ٹی ) کی ایک ہزار60 ایکڑقیمتی زمین پر قبضہ ہوگیا، قومی ادارے کو 57 ارب روپے کا نقصان ہوگیا۔جراٗت کی رپورٹ کے مطابق کراچی پورٹ ٹرسٹ کے اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے مینوئل میں واضح طور پر تحریر ہے کہ اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے افسران کی ذمیداری ہوگی کہ کے افسران خبردار رہیں گے اور پی ٹی کی زمینوں پر قبضہ نہیں ہونے دیں گے، 5 آکتوبر 1991 کے ایس آر او نمبر 307 (KE)کے تحت کراچی پورٹ ٹرسٹ کے پاس لینڈ ایریا 34 کلومیٹر یا آٹھ ہزار 6سو 44 ایکڑ ، سمندر کے اندر41 کلومیٹریا 10 ہزار 2 سئو 92 ایکڑ اور ساحل سمندر کی ایک لاکھ 21 ہزار ایکڑ زمین کراچی پورٹ ٹرسٹ کی ملکیت ہے ۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ کی قیمتی زمین پر شہر کے مختلف علاقوں میں قبضے ہوگئے ہیں، یونس آباد میں 156 ایکڑ، گریکس ولیج میں 31 ایکڑ، مچھر کالونی میں 4 سئو ایکڑ، انٹیلی جنس اسکول یا این ٹی آر کالونی میں 41 ایکڑ، ہجرت کالونی میں 19 ایکڑ، گلشن کالونی یا سکندر آباد میں 390 ایکڑ، مجید کالونی میں 10 ایکڑ اور ڈاکس کالونی میں 14 ایکڑ زمین پر قبضے ہوگئے ہیں۔ اس کے علاوہ حکومت سندھ نے کے پی ٹی کی کلفٹن بیچ کی زمین پر پلاٹس الاٹ کر دیئے، مائی کولاچی بائی پاس کے قریب این ایل سی ہیڈ کوارٹر کے پاس ایک سئو ایکڑ زمین پر سندھ حکومت اپنی ملکیت ہونے کا دعویٰ کرتی ہے۔ کلفٹن کے علاقے بوٹ بیسن میں نیشنل سیلنگ کلب کے قریب 20 ایکڑ زمین پر قبضہ مافیا نے قبضہ کرکے غیرقانونی پارکنگ قائم کردی ہے۔ منہوڑہ میں یاچ کلب کے قریب کے پی ٹی کی70 ایکڑ زمین پر بھی قبضہ ہوگیا ہے۔ سمندر میں مشرقی اور مغربی پانیوں پر بھی قبضہ ہوگیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کراچی پورٹ ٹرسٹ کی قیمتی زمین پر قبضہ کے باعث قومی ادارے کو 57ارب روپے کا نقصان ہوا ہے اور کے پی ٹی کی زمین پر قبضہ ادارے کے ملازمین کے تعاون کے علاوہ ممکن نہیں۔ کراچی پورٹ ٹرسٹ کی انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ پورٹ کی حدود کا تعین 1940 اور 1990 میں کیا گیا اور کے پی ٹی کی زمین کے معاملے کے پی ٹی اور حکومتی اداروں کے درمیان تکرار کے باعث قبضہ مافیا نے فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلے زمین کچرہ پھینکا اور کچی آبادیاں بنائیں ، کے پی ٹی کی زمین پر کچی آبادیاں بنانے کی شروعات 1947 میں تقسیم ہند کے بعد ہوئی ، جس کے بعد 1973اور سال 1979 کے بعد کے پی ٹی کی زمین پر قبضوں میں اضافہ ہوا ، کے پی ٹی کی زمین پر قبضوں کا اہم سبب کے الیکٹرک اور سوئی سدرن گیس کمپنی کی جانب سے بجلی ، گیس کے کنیکشن جاری کرنا ہے ، سندھ ہائی کورٹ میں کچی آبادیوں میں گیس ، بجلی کے کنکشن جاری کرنے پر پابندی عائد کی ہے لیکن عملدرآمد نہیں ہورہاجبکہ ہائی کورٹ نے حکومت سندھ اور بورڈ آف روینیو کے زمین الاٹ کرنے پر حکومت سندھ کے خلاف اسٹی آرڈر جاری کیا ہے، صدر پاکستان نے سال 2001 اور سندھ ہائی کورٹ نے کے پی ٹی کی زمین پر قبضہ ختم کروانے کے احکامات جاری کئے ہیں لیکن اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے قیمتی زمین سے قبضوں کے خاتمے کے لئے اقدامات نہیں کئے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں