میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مقبوضہ وادی میں دس سال بعد انتخابات

مقبوضہ وادی میں دس سال بعد انتخابات

ویب ڈیسک
هفته, ۵ اکتوبر ۲۰۲۴

شیئر کریں

ریاض احمدچودھری

بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی نیم خودمختار حیثیت ختم کیے جانے کے بعد پہلی بار منعقد ہونے والے مقامی انتخابات کے تیسرے اور آخری مرحلے میں ووٹنگ مکمل ہوگئی۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے 2019 میں مقبوضہ کشمیر کی جزوی خود مختار حی?ثیت کو منسوخ کر دیا تھا جس کے بعد بڑے پیمانے پر گرفتاریاں اور بلیک آؤٹ ہوا تھا۔اس صورتحال کے بعد سے اس علاقے میں منتخب حکومت کے بجائے وفاقی طور پر مقرر کردہ گورنر چارج سنبھالے ہوئے ہیں۔
مقبوضہ کشمیر میں اس وقت 5 لاکھ سے زائد بھارتی فوجی موجود ہیں اور ضلع بارا مولا میں ووٹنگ کے دوران بھی رائفلوں سے لیس فوجی دستے بھاری تعداد میں پولنگ اسٹیشنوں کے باہر موجود تھے۔نریندر مودی کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا کہنا ہے کہ 2019 میں حکومت تبدیلی نے مقبوضہ کشمیر میں امن اور تیز رفتار اقتصادی ترقی کے ایک نئے دور کا آغاز کیا ہے۔خطے کا ایک حصہ مسلم اکثریتی وادی کشمیر ہے جب کہ دوسرا حصہ جنوب میں ہندو اکثریتی ضلع جموں ہے جو جغرافیائی طور پر پہاڑوں کی وجہ سے مقبوضہ کشمیر سے کٹا ہوا ہے۔بی جے پی نے جموں کے سب ہی حلقوں میں اپنے امیدوار کھڑے کیے ہیں جبکہ دیگر سیٹوں پر وہ صرف ایک تہائی نشستوں پر انتخاب لڑ رہی ہے۔ چاہے نتائج کچھ بھی ہوں، مقبوضہ کشمیر کی حکمرانی سے متعلق اہم فیصلے دہلی حکومت کے ہاتھ میں ہی رہیں گے جہاں مودی حکومت اپنی پارلیمانی اکثریت کا استعمال کرتے ہوئے 90 رکنی اسمبلی کی جانب سے منظور کردہ کسی بھی قانون کو منسوخ کر سکتی ہے۔
غیرقانونی طورپر بھارت کا زیر قبضہ جموں وکشمیر خاص طور پر اس کا گرمائی دارالحکومت سرینگر انتخابی ڈرامے کے حوالے سے ایک قلعے کا منظر پیش کررہاتھا۔سرینگر شہر کو ڈرون پروازوں کے لیے ریڈ زون قرار دیا گیا اور نقل و حرکت اور اجتماع کی آزادی پر پابندیوںسے لوگوں میں تشویش پیدا ہوئی جو مودی حکومت کے جمہوری عمل کے دعوئوں کے برعکس ہے۔ سرینگر میں بھارتی فورسز کی بھاری تعداد تعینات کی گئی ہے۔انسپکٹر جنرل آف پولیس وی کے بردی نے کہاہے کہ سخت حفاظتی انتظامات کیے ۔ اہم سڑکوں پر بھارتی فورسز اہلکاروں کو بھاری تعداد میں تعینات کیاگیااور خصوصی چوکیاں قائم کی گئیں۔ بھارتی فوجی گاڑیوں اورمسافروں کی تلاشی لے رہے تھے اورلوگوں کی نگرانی مزید سخت کی گئی جس سے علاقے میں خوف و ہراس کا ماحول پیدا ہوا۔ بھاری تعداد میں بھارتی فوجیوں کی تعیناتی سے علاقہ انتخابات کے بجائے ایک جنگی علاقے کا منظر پیش کررہاتھا جس سے بہت سے لوگ اس عمل کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہیں۔
کشمیری اپنے حقوق کا مطالبہ کر رہے ہیں جن کا وعدہ اقوام متحدہ نے ان سے کررکھا ہے۔ وہ انتخابات کو محض ایک فریب اور دکھاواقرار دے رہے ہیں جس کا مقصد عالمی برادری کو گمراہ کرنے کے لئے علاقے میں حالات معمول کے مطابق ظاہرکرنا ہے۔مقبوضہ جموں وکشمیرمیںڈھونگ انتخابات دراصل ایک فوجی شق رہی غیر جانبدار ماہرین اور مقامی لوگ اس عمل کی مذمت کرتے ہوئے اسے ایک بھونڈا مذاق اور فوجی مشق قراردے رہے ہیں۔جبکہ کشمیر کونسل یورپ کے چیئرمین علی رضا سید نے کہا ہے کہ بھارت مقبوضہ جموں و کشمیر میں انتخابی ڈرامے کے ذریعے ایک کٹھ پتلی اسمبلی قائم کرنا چاہتا ہے۔ بھارت علاقے میں دس لاکھ فوجیوں کی موجودگی میں اور آزادی اظہار رائے و آزاد میڈیا پر پابندی کے باوجود اسمبلی انتخابات کروا کر عالمی برادری کو گمراہ کر رہا ہے۔ دوسری جانب بھارت میں حزب اختلاف کی مرکزی جماعت کانگریس نے دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد مقبوضہ جموں و کشمیر میں بی جے پی کی بھارتی حکومت کے اقدامات پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کشمیریوں کے حقوق کی بحالی کا عزم ظاہر کیا ہے۔ پون کھیڑا نے کہا کہ کشمیر خوابوں کا قبرستان بن چکا ہے۔ جبکہ مقبوضہ جموں و کشمیر میں جدوجہد آزادی کو بدنام کرنے کے لیے بھارت کی جعلی آپریشنز کی ایک تاریخ ہے۔ آٹھ سال قبل اوڑی حملہ اس کی ایک اہم مثال ہے اب دفاعی ماہرین کا خیال ہے کہ یہ پاکستان اور تحریک آزادی کشمیر کو بدنام کرنے کی دانستہ کوشش تھی۔یہ اس طرح کا کوئی پہلا واقعہ نہیںتھا کیونکہ بھارت پاکستان کے خلاف فوجی کارروائی کا جواز پیش کرنے کے لیے ایسے حملے کرتا رہا ہے۔
کل جماعتی حریت کانفرنس نے مودی حکومت کی طرف سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں کرائے جانے والے نام نہاد اسمبلی انتخابات کی مذمت کرتے انہیں ایک بھونڈا مذاق قرار دیا ہے۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کے ترجمان ایڈووکیٹ عبدالرشید منہاس نے سرینگر میں جاری ایک بیان میں کہا کہ ڈھونگ انتخابات اقوام متحدہ کیطرف سے تسلیم شدہ استصواب رائے کا ہرگز متبادل نہیں جسکے ذریعے جموں وکشمیر کے سیاسی مستقبل کا تعین ہونا ہے۔نئی دہلی کی تہاڑ جیل میں قید کل جماعتی حریت کانفرنس کے سینئر رہنما شبیر احمد شاہ نے بھارت کی طرف سے مقبوضہ کشمیر میں جاری عالمی قوانین کی خلاف ورزیوں کی شدید مذمت کی ہے۔شبیر احمد شاہ نے نئی دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل سے ایک بیان کہا کہ بھارت نے مقبوضہ جموںوکشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی ، کشمیریوں کے تمام بنیادی حقوق سلب کر لیے اور اب نام نہاد انتخابات کا ڈھونگ رچا کر عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش کر رہا ہے۔جبکہ جموں وکشمیر میں نیشنل کانفرنس کے نائب صدر عمر عبداللہ نے کہا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے پاس اپنی کامیابیوں کے حوالے سے عوام کو بتانے کیلئے کچھ نہیں لہٰذاانہوںنے کچھ لوگوں کو خاندانی سیاست کا طعنہ دنیا اپنا وطیرہ بنا لیا ہے۔دوسری جانب دارالخیر میرواعظ منزل نے سرینگر کے علاقے چوٹہ بازار میں آتشزدگی کے واقعے میں رہائشی مکانات کے جل کر خاکستر ہونے پر دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔ دارالخیر میر واعظ منزل سرینگر نے تنظیم کے سربراہ میر واعظ عمر فاروق کی طرف سے متاثرہ خاندانوں سے ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ ضلع بارہمولہ کے علاقے اوڑی گرکوٹ گاں کے لوگوں کو پینے کے پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔گرکوٹ کے رہائشیوں نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ انہیں گزشتہ کئی ہفتوں سے پینے کا پانی میسر نہیں ہے جس کی وجہ سے وہ سخت پریشان ہیں جبکہ انتظامیہ مسئلہ کے حل کی طرف کوئی توجہ نہیں دے رہی۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں