کازان اعلامیہ اور طالبان
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
روس میں افغانستان کی صورتحال پرغورکے لیے منعقد ہونے والا اجلاس مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے کے ساتھ اختتام پزیر ہوگیاہے جس میں طالبان پر زور دیا گیا ہے کہ افغانستان میں موجود تمام دہشت گردوں کے ٹھکانے ختم کیے جائیں ماسکو فارمیٹ کے تحت یہ پانچواں اہم اجلاس روس کے شہر کازان میں منعقد ہواجسے اِس بناپر انتہائی اہم تصور کیا جارہاہے کہ خطے کے تمام بڑے ممالک نے غیر مُبہم الفاظ میں افغان صورتحال کو نہ صرف تشویشناک قرار دیا بلکہ پہلی بار طالبان سے قدرے سخت الفاظ میں مطالبات کیے گئے حالانکہ قبل ازیں مطالبات کی زبان اِس حد تک نرم ہوتی تھی جیسے کسی چہیتے کی پیارسے سزنش کی جاتی ہے حالیہ اجلاس میں میزبان روس کے علاوہ چین،بھارت ، پاکستان ،افغانستان ، ایران،قازقستان،کرغزستان،ترکمانستان اور ازبکستان کے خصوصی نمائندوں اور اعلیٰ حکام نے شرکت کی اور افغان صورتحال کے حوالے سے تفصیلی تبادلہ خیال کیا اجلاس کے شرکا نے تمام مکاتبِ فکر کی نمائندہ ایک ایسی جامع حکومت تشکیل دینے کا مطالبہ بھی دُہرایا جو انسانی حقوق کاتحفظ یقینی بنانے کے ساتھ خواتین کے حقوق کابھی احترام کرے روس نے دیگر ممالک سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے نہ صرف افغانستان میں غیر علاقائی عناصر کی شمولیت پر تشویش ظاہر کی بلکہ عبوری طالبان حکومت کی دہشت گرد گروہوں اور داعش جیسی شدت پسند تنظیم کے مقابلے میں کمزوری کو برملا تسلیم کیا اور افغانستان کے شدید اقتصادی مسائل کا حل تلاش کرنے میں ناکامیوں پر کُھل کر بات کرتے ہوئے زوردے کر کہا کہ تمام نسلی گروہوں کی حکومت میں شمولیت کے بغیر اِس ملک میں امن کا قیام کسی صورت ممکن نہیں یہ موقف طالبان پر بداعتمادی کاعکاس ہے۔
اجلاس کا اختتام توقعات کے مطابق نہیں ہواکیونکہ خطے پر نظر رکھنے والے حلقوں کو یقین تھا کہ چین کی طرح دیگرچند ممالک اجلاس کے دوران افغانستان میں سفیر بھیجنے کا اعلان کرسکتے ہیں افغان وزیرِ خارجہ امیر متقی نے اجلاس میں شریک ممالک کے نمائندوں سے ایسا مطالبہ بھی کیا لیکن کسی بھی ملک نے سفارتی دستِ تعاون بڑھانے پر رضامندی ظاہر نہیں کی اجلاس کایہ پہلوخاصا حیران کُن ہے کہ چین جو کہ اِس وقت دنیا کا واحد ملک ہے جس نے کابل میں اپنے سفیر کا تقررکر رکھا ہے نے بھی ایسے مطالبات سے کامل اتفاق کیا جس میں امن دشمن عناصر پر قابو پانے کے لیے طالبان کواپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی بات کی گئی اِس کا مطلب ہے کہ ہمسایہ ممالک کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکااور وہ اب طالبان سے دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس اور نتیجہ خیز کاروائی کے متمنی ہیں اِس وقت دنیا کا کوئی ایک ملک بھی ایسا نہیں جو طالبان کی عبوری حکومت سے مطمئن ہو۔ ظاہر ہے افغانستان میں امن سے ہی یہ خطہ تجارتی اور معاشی سرگرمیوں کا مرکز بن سکتا ہے ۔لیکن دندناتے امن دشمن عناصرنہ صرف ترقی کی منزل حاصل کرنے میں رکاوٹ ہیں بلکہ پورے خطے پر عدمِ استحکام کے بادل گہرے ہوتے جارہے ہیں اگر اب بھی طالبان نے زمہ داریاں ادا کرنے میں کوتاہی روارکھی تو اُنھیں تسلیم کرنے کی ہوہوم اُمید بھی ختم ہو جائے گی۔
اِس میں کوئی ابہام نہیں کہ ملک میں سیکورٹی انتظامات کے حوالے سے طالبان نے اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کیں چاہیے تویہ کہ امن دشمن عناصر کو کچلنے کامربوط نظام بناتے اُلٹا سیکورٹی انتظامات میں مزید نرمیاں کردی گئی ہیں ملک کے اہم مقامات اور مصروف شاہراہوں پر بنی چوکیوں کا بھی خاتمہ کر دیا ہے اِس کی وجہ شاید وسائل اور افرادی قوت کی کمی ہو مگر انھیں یہ ہر گزنہیں بھولنا چاہیے کہ اقتدار میں ہونے کی وجہ سے ملکی نظم و نسق چلانا اور امن کو یقینی بنانا اُن کافرض ہے اب بھی اگر فرائض ادانہیں کرتے تو نہ صرف بیرونی دنیا کے اعتماد سے مستقبل میں بھی محروم رہیں گے بلکہ اندرونِ ملک بھی بے چینی بڑھ سکتی ہے کیا وہ لا علم ہیں کہ اسلامک اسٹیٹ کی مقامی شاخ افغانستان میں متحرک ہے اسی طرح قومی مزاحمتی فرنٹ (NRF)سے منسلک مختلف گروہ بھی اپنی سرگرمیاں بڑھا رہے ہیں ٹی ٹی پی کی سرحدپار کاروائیاںمسلسل بڑھ رہی ہیں مزکورہ تنظیموں کے جنگجوئوں کے پاس لڑنے کے لیے دورماراور جدیدترین ہتھیاروں کی کمی نہیں کیونکہ امریکی قیادت میں نیٹوا فواج انخلا کے وقت ہتھیاروں کے غیرمحفوظ بڑے ذخائر چھوڑ کر گئی ہیں جس سے امن دشمن عناصر کی لڑنے کی صلاحیت بہتر ہوئی اسی لیے اگر لا علمی کی وجہ سے بھی ملک میں نرمی کی گئی ہے تو مجھے کہنے دیجئے کہ طالبان نے اپنے پائوں پر ہی کلہاڑی ماری ہے اور یہی عناصر خطے میں عدمِ استحکام کا باعث بننے کے ساتھ طالبان کے اقتدار کو بھی کمزور کر سکتے ہیں جس سے اعتماد پر آمادہ بیرونی دنیا طالبان سے بدظن ہو کر مزید دور ہو سکتی ہے اِس لیے کازران اعلامیہ زمہ داریوں کا احساس دلانے کا باعث بنے گا؟ کابہترجواب طالبان کا طرزِ عمل دیکھ کرہی دیا جا سکتا ہے اِس میں شائبہ نہیں کہ طرزِ عمل پر نظرثانی کرتے ہوئے انھیں خیرخواہ ممالک کا اعتماد بحال کرنا ہوگا۔
روس نے افغانستان پر حملہ کرنے کی سنگین غلطی کی اور مزید یہ کہ جامع سیاسی حل کے بغیر ہی ملک سے نکل گیا جس کے نتیجے میں طالبان اور دیگر گروہوں میں بڑے پیمانے پر لڑائی چھڑ گئی امریکی قیادت نے بھی روس جیسی غلطیاں دہرائیں یہی وجہ ہے کہ آج بھی افغانستان امن سے دوراور دہشت گرد گروہوں کی محفوظ پناہ گاہیں برقرارہیں یہ گروہ ملک میں آزادانہ دندناتے پھررہے ہیںاور ہمسایہ ممالک کے لیے بھی خطرہ بن چکے ہیں بیرونی تائید وحمایت سے محروم اور امن دشمن عناصر کو کچلنے میں ناکام طالبان کے پاس ضروری تربیت اور وسائل کافقدان کسی سے پوشیدہ نہیں ٹی ٹی پی جیسی شدت پسند تنظیم نے پاکستان کے اندرخونریز کاروائیوں سے یہ احساس دلایا ہے کہ وہ اب بھی جہاں چاہیے وار کرنے کی استعداد رکھتی ہے مگر اطمنان بخش امر یہ ہے کہ دیگر ہمسایہ ممالک کو بھی ایسے گروہوں کے مزموم اِرادوں کا ادراک ہے اسی لیے کازان اجلاس میں شریک تمام دس ممالک نے ایک مشترکہ اور متفقہ اعلامیہ جاری کیا وگرنہ بھارت جیسا ملک جو دہشت گردی کی حکومتی سطح پر سرپرستی کرتا اور پاکستان کو زک پہنچانے کے لیے ہر حد تک جانے کو ہمہ وقت تیار رہتا ہے کبھی متفقہ اعلامیے کی نوبت نہ آنے دیتا اسی طرح کاروباری مفادات کی وجہ سے چین کی طرف سے بھی اختلاف ِ رائے آنا اچھنبے کی بات نہ ہوتی۔
پاکستان نے امریکی انخلا کو یقینی بنانے سمیت طالبان کی واپسی میں بھی کلیدی کردارادا کیااِ س دوران روس کی طرف سے بھی تعاون حاصل رہا اب بھی پاکستان نہ صرف طالبان کو منجمد بیرونی اثاثے دلانے کی جدوجہد میں مصروف ہے بلکہ عبوری حکومت کو تسلیم کرنے کی عالمی سطح پر وکالت کرتا ہے لاکھوں افغانوں کی کئی دہائیوںسے بے لوث میزبانی بھی کررہا ہے لیکن تمام تر احسانات کے باوجودماضی کی کٹھ پتلی افغان حکومتوں کی طرح طالبان بھی شمالی سرحد پر امن قائم نہیں کر سکے ظاہر ہے اب جبکہ طالبان کے پاس اقتدار ہے اوروہ پاکستان کے بظاہر خیرخواہ ہونے کے دعویداربھی ہیں تو انھیں امن دشمن قوتوں پرقابو پانے کے لیے زیادہ سنجیدگی دکھانے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان
عالمی سطح پراُن کا مقدمہ بہتر انداز میں پیش کر سکے لیکن قرائن سے ظاہر ہے کہ طالبان اور ماضی کی کٹھ پتلی حکومتوں میں کوئی خاص فرق نہیں طالبان بھی ایسی قوتوں کے زہنی طورپر یرغمال ہیں جنھیں معاشی ترقی کی بجائے شدت پسندی اور دہشت گردی سے خطے پر دھاک بٹھانا مطلوب ہے کازان اعلامیہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ خطے کے ممالک مزید امن دشمن قوتوں سے نرمی برداشت کرنے پرآمادہ نہیں بلکہ پاکستان سمیت سبھی امن مخالف قوتوں کے خلاف فوری نتیجہ خیز کاروائی کے خواہاں ہیںکیونکہ وعدوں کے باوجود طالبان اپنی زمہ داریاں ادا نہیں کر سکے اِس لیے جتنی جلد ممکن ہو افغانستان کا جامع سیاسی حل تلاش کرنا ضروری ہے تاکہ امن کولاحق خطرات کا نہ صرف مستقل خاتمہ ہو بلکہ خطے میںتجارتی و معاشی سرگرمیوں کو فروغ ملے۔