بلوچستان حکومت ،اضطراب ابھی باقی ہے!
شیئر کریں
بلوچستان حکومت میں جمعیت علماء اسلام کی شمولیت کا ارادہ پکا دکھائی دیا تھا ۔ چند دن بڑی گہما گہمی رہی ۔ اسلام آباد اور کوئٹہ میں تواتر سے ملاقاتیں ہوئیں۔ عبدالقدوس بزنجو ان کے بڑوں مولانا فضل الرحمان اور مولانا عبدالواسع سے ملے۔ رابطہ پیہم جاری رکھے ہوئے تھے۔ پھر یکا یک سکوت طاری ہوا۔جس کے بعد سردار اختر مینگل اورجے یو آئی کے درمیان رابطہ ہوا حزب اختلاف کی ان دو جماعتوں کا مؤقف بہ زبان سردار اختر مینگل سامنے آیا ہے کہ دونوں جماعتوں کے حکومت میں شامل ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ پارٹی کے سینٹرل کمیٹی کے اجلاس میں کیا جا ئے گا۔حاضر وقت لگتا ایسا ہے کہ جیسے عبدالقدوس بزنجو اپنی جماعت کے چندناراض ارکان اسمبلی کو کابینہ میں شامل کرنے کے بعد مزید کسی کی حاجت نہ رہی ہے۔ سردار اختر مینگل کی جانب سے ہفتہ یکم اکتوبر کو اخبارات میں شائع خبر میں منفی اشارے ملے ہیں۔ سردار اختر مینگل کے الفاظ میں کہ، وہ سمجھتے ہیں کہ حکومت جاتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ ’’جام کمال اور عبدلقدوس بزنجو ملاقات بارے کہا ہے کہ ’’سیاسی لوگوں کے درمیان ملاقاتیں ہونی چاہیئں۔ لیکن وزیراعلیٰ کو بھی مشکل وقت میں ساتھ دینے اور ان کی کشتی ڈوبنے سے بچانے والوں کا خیال رکھنا ہوگا۔ کہیں انہیں کشتی سے اتار کر وہ خود اپنی کشتی میں سوراخ نہ کر بیٹھیں۔ ‘‘سردار اختر مینگل کے یہ جملے ان کی قدوس سے خفگی کو ظاہر کرتے ہیں۔ان ہی دنوں سردار اختر مینگل ،چئیرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور رکن قومی اسمبلی اسلم بھوتانی بھی ملے ۔سردار اختر مینگل نے یہ باتیں تب کیں جب29ستمبر کو عبدلقدوس بزنجو نے جام کمال خان کی رہائشگاہ جاکر ملاقات کی۔ یہ ملاقات عبدالقدوس بزنجو کی بارہا خواہش یا جتن کے بعد ہوئی ہے۔ جہاں عبدالقدوس بزنجو نے جام کمال خان سے ضلع لسبیلہ کی دو اضلاع میں تقسیم کے نوٹیفکیشن پر معذرت بھی کرلی ہے۔ جام کمال خان عالیانی اور عبدالقدوس بزنجو کے درمیان ملاقات البتہ بری سیاست کا مظہر سمجھی جاتی ہے۔جام کمال حکومت اور حزب اختلاف کے منظر نامے کو صوبے کے مفاد کے خلاف گردانتے ہیں۔ جام کمال خان بارے بہر حال اچھی رائے پائی جاتی ہے۔ مگر کیا کہا جائے کہ سیاسی قبلہ درست سمت نہیں۔
لسبیلہ سے حب ضلع کے طور پر الگ کیا جانا جام کمال کی سیاسی ضعف کا باعث بنتا۔ بلوچستان میں خصوصاً سیاستدان صوبے کے وسیع مفاد سے زیادہ اپنے آبائی علاقوں اور حلقہ ہائے انتخاب کو زیادہ عزیز رکھتے ہیں۔ لسبیلہ کی تقسیم کی صورت میں واقعی جام کمال خان کو سیاسی نقصان سے دو چار ہونا پڑتا۔ اس بنا نا معقولیت ان کی سیاسی مجبوری بن گئی ہے۔ اب جام کے ہم خیال اراکین متوقع طور پر کابینہ میں داخل ہوں گے۔ عبدالقدوس بزنجو نے ذات کی نفع کی خاطر بھوتانی برادران یعنی سردار صالح بھوتانی اور ایم این اے اسلم بھوتانی کو پیٹھ دکھائی ہے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے مخالف حلقہ کو راضی کرنے کے بعد شاید عبدالقدوس بزنجو کو جے یو آئی کی ضرورت نہ پڑی ہے۔ مگر عبد القدوس بزنجو کا اضطراب ابھی ختم نہیں ہوا ہے، ہاتھ پیر ماررہے ہیں۔ پھر جاکر اسلام آباد میں دیرے ڈال دیے۔ 3اکتوبر کو اسلام میں سردار اختر مینگل سے ملاقات کرلی ۔ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی بی این پی کے ثناء بلوچ بھی موجود تھے۔ اور اسلام آباد ہی میں جے یوآئی بلوچستان کے امیر وفاقی وزیر مولانا عبد الواسع ملے ہے۔ دراصل بلوچستان کے اندر وزیراعلیٰ کی تبدیلی جمہور عوام کی منشا ہے ۔یقینا گورننس کو ابتری سے بہتری کی پٹری پر لگانا از حد ضروری ہے۔ کہ شفاف سیاست او رشرعی تقاضا بھی یہی ہے۔ چناں چہ اگر جے یو آئی از خود اس تناظر میں کردار کے لیے آگے بڑ ھتی ہے تو اسے عوام میں پسند کیا جائے گا۔ یہی تمنا سردار اختر مینگل کی جماعت سے کی جاتی ہے۔ بلا شبہ بلوچستان کا چہرہ مسخ ہوچکا ہے۔ اوچھی سیاست اور مزاج ہر گزرتے دن کے ساتھ جڑی پیوست کررہی ہے۔ شرافت،شائستگی ،صفات اور اخلاقیات پر برائیاں حاوی اور چھائی ہوئی ہیں ۔ ٹرانسفر پوسٹنگ معمول کا سرکاری ضابطہ کی بجائے معاوضہ لے کر کیاجاتا ہے۔ پاک افغان سرحد اور پاک ایران سرحد پر اسمگلنگ میں حکومتی لوگ شامل ہیں۔ بڑی بڑی رقومات ان مدات میں کمائی جاتی ہے۔ ان دھندوں کے لئے لوگ منتخب کئے گئے ہیں ۔سالانہ صوبائی ترقیاتی فنڈز کشید کرنے کے الگ حربے اور کلیے بنائے جاچکے ہیں۔ خالص اور اصولوں پر مبنی سیاست ہوتی تو حکومت زمام کار اسمگلروں ، ٹھیکیداروں اور عوام کا حق فروخت کرنے والوں کے ہاتھ میں نہ ہو تی۔ صوبے کے اندر کمشنروں اور ڈپٹی کمشنروں کی تعیناتی کلی طور وزرا ء اور رکن اسمبلی کی خواہش پر ہوتی ہے۔ بلکہ انتظامی افسران ان کے دست نگر بن چکے ہیں۔ چیف سیکریٹری کا کام محض رسمی کارروائی تک محدود ہے ۔
ذرا قانون اور ضابطے کی بات کی جائے تو اگلے لمحے ایس ڈی او بنادیا جاتاہے۔27ستمبر کو ضلع چاغی کے ڈپٹی کمشنر حسین جان بلوچ اور اسسٹنٹ کمشنر عصمت اللہ کی معطلی تازہ مثال ہے ۔ معطلی کا نو ٹیفیکیشن چیف سیکریٹری نے جاری کیا۔ یقینا ان سے جاری کروایا گیا ہے۔یہ قضیہ دانشمندی سے حل کرنے کا متقاضی تھا، مگر عجلت کی گئی ۔ قصہ یوں ہے کہ 2ستمبر کو پاک ایران تفتان سرحد کے راہدی گیٹ پر ضلعی انتظامیہ کے افسران اور لیویز اہلکاروں نے راہداری گیٹ کے تالے توڑ کر ریلوے آفیسر کو ایران جانے دیا تھا۔ اس پر وہاں تعینات فورسز نے چیف سیکریٹری سے آفیسران کے خلاف کارروائی کا کہا۔ چیف سیکریٹری نے چیئرمین وزیراعلیٰ انسپکشن ٹیم عبدالصبور کاکڑ اور ممبر سید ظفر بخاری کو خصوصی طیارے کے ذریعے تفتان بھیجا۔ ٹیم نے بیانات سنے، موقع کا جائزہ لیا۔ ڈپٹی کمشنر اور اسسٹنٹ کمشنر کو بھی سنا ۔مگر سی ایم آئی ٹی کی رپورٹ آنے سے پہلے ہی ان افسران کو معطل کردیا گیا۔ ریلوے افسر ایران سے سیلاب متاثرین کے لئے امدادی سامان ٹرین کے ذریعے پاکستان پہنچانے کے سلسلے میں ایرانی حکام سے مشاورت کے لیے ایران جارہے تھے۔ سرحد کے اس پر ایرانی حکام انتظار میں کھڑے تھے۔ اس ملاقات کا فیصلہ 14ستمبر کو این ڈی ایم اے کی جانب سے آن لائن اجلاس میں کیا گیا تھا۔ اس مقصد کی خاطر ریلوے آفسر کو ریلوے ایران جانے کی راہداری دی گئی تھی۔ راہداری دینے کا اختیار دراصل ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو حاصل ہے ۔اور راہداری گیٹ کا انتظام و انصرام بھی ضلعی انتظامیہ کے فرائض میں شامل ہے۔ دراصل یہ رویے بیورو کریسی کی بے وقعتی پر منتج ہورہے ہیں۔ سرکار ی امور متاثر ہورہے ہیں۔انتظامی افسران کا مورال پست ہوا ہے ۔وہ خود کو پابند اور اسیر سمجھتے ہیں۔ ایسی فضاء میں صوبہ مزید گراوٹ کا شکار ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔