میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نواز شریف کادوبارہ انتخاب ۔۔ عوام کی نظریں سپریم کورٹ پر

نواز شریف کادوبارہ انتخاب ۔۔ عوام کی نظریں سپریم کورٹ پر

ویب ڈیسک
جمعرات, ۵ اکتوبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

پاکستان مسلم لیگ (ن) نے سابق وزیراعظم نواز شریف کوگزشتہ روز ایک مرتبہ پھر بلامقابلہ پارٹی کا صدر منتخب کرلیا، جس کا باضابطہ اعلان پارٹی کے چیف الیکشن کمشنر سینیٹر چوہدری جعفر اقبال نے کیا۔الیکشن کمیشن میں مسلم لیگ (ن) کی صدارت کے لیے پارٹی رہنما ڈاکٹر طارق فضل چوہدری نے نواز شریف کے کاغذات نامزدگی جمع کرائے، ان کے مدمقابل پارٹی کے کسی بھی دوسرے رکن کی جانب سے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے گئے۔پارٹی صدر منتخب ہونے کے بعد اسلام آباد کنونشن میں پارٹی کے جنرل کونسل اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے ایک دفعہ پھر الزام لگایا کہ ’مجھے بار بار سیاست سے بے دخل کرنے کی کوشش کی گئی، لیکن آپ لوگ مجھے سیاست میں واپس لاتے رہے اور آج بھی آپ نے مجھے سیاست میں لانے کی جو کوشش کی اس پر میں آپ کا شکر گزار ہوں‘۔نواز شریف نے دعویٰ کیاکہ ’آج کے دن ہم یہ قانون اْس ڈکٹیٹر مشرف کو واپس لوٹا رہے ہیں جس نے نواز شریف کو روکنے کے لیے اسے نافذ کیا تھا‘۔اس سے قبل کنونشن سینٹر میں خطاب کے دوران وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے نواز شریف کو مسلم لیگ (ن) کا صدر منتخب ہونے پر مبارک باد پیش کی۔وزیر اعظم نے کہا کہ ’ہم نے سپریم کورٹ کا (28 جولائی کا) فیصلہ قبول کیا، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ ایسے فیصلوں کو عوام اور تاریخ نے کبھی قبول نہیں کیا’اور جون 2018 کے عام انتخابات میں پاکستانی عوام نواز شریف کو ہی وزیراعظم منتخب کریں گے۔وزیراعظم نے مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت کے دوران جاری رہنے والے تمام منصوبوں کو مکمل کرنے کا اعادہ کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ گذشتہ چار سال کے دوران نواز شریف کے دورِ اقتدار میں جتنے کام ہوئے ہیں اتنے پیپلز پارٹی پاکستان (پی پی پی) اور سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں بھی نہیں ہوئے۔وزیراعظم سے قبل کنونشن سینٹر میں خطاب کرتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے انتخابی اصلاحاتی بل 2017 پر اپوزیشن کی تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ جب 1999 میں اقتدار پر شب خون مارا گیا تھا اور بعد میں ملک کے آئین میں ترمیم کی گئی تھی، اْس وقت کسی نے کچھ نہیں کہا اور اب آئینی ترمیم پر اعتراض کیا جارہا ہے جو منتخب نمائندوں کی اسمبلی نے کی ہے۔
رواں برس 28 جولائی کو سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کی بطور وزیراعظم نااہلی کے فیصلے کے بعد الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ (ن) کو پارٹی کا نیا صدر منتخب کرکے کمیشن کو آگاہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ (ن) کو نیا پارٹی صدر منتخب کرنے کے لیے نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر 2002 کے تحت نااہل شخص پارٹی عہدہ نہیں رکھ سکتا۔نواز شریف کی بطور پارٹی صدر نااہلی کے بعد حکمراں جماعت کی مرکزی مجلس عاملہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما سینیٹر سردار یعقوب کو پارٹی کا قائم مقام صدر منتخب کیا گیا تھا۔حکمراں جماعت مسلم لیگ (ن) کو نواز شریف کو دوبارہ پارٹی کا صدر منتخب کرنے کے سلسلے میں ایک رکاوٹ کا سامنا تھا، جس کے لیے انتخابی اصلاحاتی بل 2017 قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا، جس کے تحت نااہل شخص بھی پارٹی کا صدر منتخب ہوسکتا ہے۔قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد اس بل کو سینیٹ میں پیش کیا گیا تو پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے سینیٹر اعتزاز احسن نے ترمیم پیش کی کہ جو شخص اسمبلی کا رکن بننے کا اہل نہ ہو وہ پارٹی کا سربراہ بھی نہیں بن سکتا جس کے بعد بل پر ووٹنگ ہوئی۔حکومت نے محض ایک ووٹ کے فرق سے الیکشن بل کی شق 203 میں ترمیم مسترد کرانے میں کامیابی حاصل کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کی پارٹی صدر بننے کی راہ ہموار کردی۔اس بل کی منظوری سے آرٹیکل 62 اور 63 کی وجہ سے نااہل ہونے والا شخص یعنی وہ شخص بھی جو صادق اورامین نہ ہو سیاسی جماعت کا سربراہ بننے کا اہل بنا دیاگیا۔دوسری جانب سابق وزیر اعظم نواز شریف کو باآسانی مسلم لیگ (ن) کا دوبارہ صدر منتخب کرنے لیے پارٹی آئین میں بھی ترمیم کردی گئی اور مسلم لیگ (ن) کی مرکزی جنرل کونسل نے پارٹی آئین میں ترمیم کی منظوری دیتے ہوئے دفعہ 120 کو ختم کردیا۔ترمیم کے بعد پارٹی عہدیدار کے لیے آرٹیکل 62 اور 63 پر پورا اترنے کی شق ختم ہوگئی، جبکہ اب سزا یافتہ شخص بھی پارٹی کا صدر یا کوئی بھی عہدہ رکھ سکے گا۔نواز شریف کے مسلم لیگ (ن) کا صدر منتخب ہونے کے بعد الیکشن کمیشن کی جانب سے پارٹی کا انتخابی نشان بھی بحال کر دیا گیا۔قبل ازیں الیکشن کمیشن نے 45 روز کی مدت میں پارٹی کا صدر منتخب نہ کرنے پربعد مسلم لیگ ن کا انتخابی نشان بھی روک لیا تھا۔
اگرچہ مسلم لیگ ن قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت کے بل پرآئین میں اپنی مرضی کے مطابق ترمیم کرانے میں کامیاب ہوگئی ہے لیکن حکمراں پارٹی کے اس عمل کو جمہوری حلقوں کی جانب سے زبردست تنقید کا سامناہے اور کوئی بھی اسے شفاف قانون سازی قبول کرنے کوتیار نظر نہیں آتا جبکہ حزب اختلاف کی جماعتوں نے اس ترمیم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کرنے کافیصلہ کیا ہے،جس کی وجہ سے اب صورت حال یہ ہے کہ قومی سطح پر اداروں کی لڑائی، پارلیمنٹ کی کمزوری کے اعترافات اور پھر عدالت کی جانب سے نظام کی ناکامی کے اعلانات اور گھر کی صفائی پر تنازعات کے ساتھ ساتھ اپوزیشن میں بھی تقسیم نے حالات کو خطرناک رخ دے دیا ہے۔ اس وقت حکمران جماعت کی ساری کوشش یہ ہے کہ ان کے سابق وزیر اعظم کسی طرح سیاست میں موجود رہیں ، اس مقصد کے لیے آئین کا حلیہ بگاڑدیاگیاہے۔ صرف یہ فیصلہ کرانے کے لیے کہ ایک سزا یافتہ شخص سیاسی پارٹی کا سربراہ بن سکتا ہے تمام اخلاقیات کو بالائے طاق رکھ دیا گیا ہے اگریہ تسلیم بھی کرلیاجائے کہ میاں نواز شریف کا یہ موقف درست ہے کہ انہیں صرف نواز شریف ہونے کی وجہ سے نا اہل قرار دیا گیا ہے اور انہوں نے قومی دولت کی کرپشن نہیں کی ہے، بس تنخواہ چھپانے پر سزا دی گئی ہے توبھی اس نا اہلی کو اہلیت میں تبدیل کرنے کے لیے آئین میںجس طرح ترمیم کرائی گئی ہے پوری جمہوری تاریخ میں شاید اس کی کوئی مثال نہ مل سکے ،آئین میں جلد بازی کے ساتھ منظور کرائی گئی اس ترمیم کی رو سے اب کسی بھی سزا یافتہ شخص کے لیے پارٹی کی صدارت پر براجمان ہونے کا راستہ ہموار ہوگیا ہے اور اب عام طورپر لوگ مذاقاً کہنے لگے ہیں کہ کوئی بھی سزا یافتہ شخص جیل سے نکل کر آئے اور پارٹی کی قیادت سنبھال لے تو یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہوگی۔ اس ترمیم کے نتیجے میں یہ بھی ممکن ہے کہ آنے والے دنوں میں جیل سے کوئی پارٹی چلائی جانے لگے۔ بہرحال یہ معاملہ صرف مسلم لیگ ن یا نواز شریف کا نہیں ہے۔ ہر طرف غیر محتاط رویہ ہے۔موجودہ صورت حال میں جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت تھی وہ اپوزیشن کا اتحاد تھا لیکن جب سے پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان نے اپوزیشن لیڈر تبدیل کرنے کی مہم چلائی ہے اس وقت سے اپوزیشن میں بھی دراڑیں پڑ گئی ہیں، اور حکمراں مسلم لیگ ن نے ان ہی اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بڑی آسانی سے بل منظور کرالیا اور حزب اختلاف آپس کے اختلافات میں پڑی رہی۔ اگرچہ حکمران لیگ میں بھی انتشار کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے لیکن شاید اسی کو قابو میں رکھنے کے لیے میاں نواز شریف کو پارٹی کا دوبارہ سربراہ بنایاگیاہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ پارلیمنٹ کمزور، حکمران پارٹی کمزور، حزب اختلاف منتشر عدالتیں بے بس ، میڈیا بے مہار، تو پھر قوم کیا کرے گی ہر طرف انتشار ہی انتشار نظر آرہاہے ۔ عدالتوں کی بے بسی کی بات یوں ہی نہیں کہی گئی ہے بلکہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے مقدمے کی سماعت کے دوران کہا کہ جھوٹی گواہی کے باعث ملزمان کا بری ہونا اللہ کا عذاب ہے۔سچے گواہ پیش کیے بغیر نظام عدل نہیں چل سکتا۔ عدالتی نظام کی بے بسی کا اس سے بڑا اظہار کیا ہوگا۔ اس سے قبل بھی یہ تبصرہ عدالت ہی کی جانب سے آچکا ہے کہ عدالت بے بس ہے۔ اگر یہ صورت برقرار رہی تو قوم کو کسی آفت کا انتظار ہی کرنا چاہیے۔ اس وقت جو صف بندی نظر آرہی ہے وہ بظاہر میاں نواز شریف کے حامیوں اور مخالفین کی ہے لیکن حقیقتاً ن لیگ کے اندر بھی دراڑیں ہیں ، پی ٹی آئی بھی مضبوط نہیں رہی اورپیپلز پارٹی بھی پر اعتماد نہیں اسی لیے وہ بھی کسی قسم کا دباؤ قبول کرنے کو تیار نہیں ، نہ ہی اپوزیشن کی تمام جماعتیں انتخابات کے اعلان کی حمایت کرنے کو تیار ہیں۔ عمران خان کی پارٹی خود تضادات کا شکار ہے ایک جانب عمران خان نئے انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں اور دوسری جانب قائد حزب اختلاف تبدیل کرنے پر مصر ہیں۔ اگر نئے انتخابات کرانے ہیں تو اپوزیشن کو تقسیم کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ ایک اور خبر یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کو دباؤ میں لا کر نگران حکومت قائم کرادی جائے تاکہ وہ انتخابات منعقد کرائے۔ لیکن یہ سب کرنے کے لیے بھی اپوزیشن کی تمام جماعتوں کوکسی ایک نکتے پر متفق اور متحد ہونا پڑے گا۔جبکہ بظاہر ابھی اس بات کا دور دور تک کوئی آثار نظر نہیں آرہاہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ مسلم لیگ ن کی جانب سے کئے جانے والے تازہ ترین اقدامات کے جواب میں جو بظاہر عدالتوں کامنہ چڑانے اور خود کو عدالتوں سے بڑا اور زیادہ طاقتور ثابت کرنے کی کوشش ہے ،اپوزیشن کیالائحہ عمل اختیار کرتی ہے اورمسلم لیگ ن کی جانب سے قومی اسمبلی میں اپنی اکثریت کے بل پر آئین کاحلیہ بگاڑنے کے عمل کے خلاف اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کی جانب سے سپریم کورٹ میں متوقع طورپر دائر کی جانے والی درخواستوں پر عدلیہ کیافیصلہ کرتی ہے،موجودہ صورت حال میں عوام کی نظریں سپریم کورٹ پر جمی ہوئی ہیں،عوام یہ دیکھنا چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ آئین کاحلیہ بگاڑنے اورقومی خزانہ لوٹنے والوں کو سزا دینے اور عوام کو ان بہروپیوں سے نجات دلانے میں کس حد تک کامیاب ثابت ہوتی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں