اگر۔۔۔۔۔؟
شیئر کریں
ب نقاب /ایم آر ملک
میلان اٹلی کا ایک بڑا شہر ہے جس کا شمار دنیا کے گنجان آباد اور چند بڑے شہروں میں ہوتا ہے۔ اِس کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ میلان کا بجٹ ہمارے پورے ملک کے بجٹ سے زیادہ ہوتا ہے یہ شہر میٹرو پولیٹن کہلاتا ہے ۔
آپ بلدیاتی نظام کے ماضی کا باب اُٹھا کر دیکھیں جس کرسی پر جنرل ریٹارڈ تنویر نقوی کے ایجاد کردہ نئے ضلعی نظام کے تحت ضلعی سطح پر ڈسٹرکٹ ناظمین یا بڑے شہروں میں سٹی ناظمین کو متمکن کیا گیا اِس کرسی پر میئر بیٹھا کرتا تھا اور بڑے شہروں کا کنٹرول عوام کے منتخب نمائندے میئر کے ہاتھوں میں تھا ۔لوکل گورنمنٹ کے ہاتھوں تکمیل پانے والے تمام عوامی ترقیاتی منصوبہ جات کی منظوری اِن میئرز کے احکامات کی مرہون ِ منت ہوا کرتی۔
میٹرو پولیٹن میلان بھی عوامی ترقیاتی کاموں کے حوالے سے ایک میئر کے احکامات کی دسترس میں تھا جو خود نہ صرف کرپٹ تھا بلکہ اپنی کرپشن کی خاطر اُس نے ایک مخصوص گروہ رکھا ہوا تھا ۔اِس کثیر الآباد شہر کے تمام ترقیاتی منصوبہ جات کی تعمیرات کے ٹھیکہ جات میئر کے منظور ِ نظر اِس گروہ کو ملتے چونکہ اِس گروہ کی پشت پر میئر کا ہاتھ تھا ،اِس لیے یہ گروہ تعمیراتی منصوبہ جات میں ناقص اور غیر میعاری مٹیریل کا دھڑلے سے استعمال کرتا اور کرپشن کی مد میںکروڑوں روپے میئر کی جیب میں جاتے۔ اِنہی منصوبہ جات میںمیئر کے اِس مخصوص گروہ کو ”نرسنگ ہوم ” کی تعمیر کا کنٹریکٹ ملا ۔کام شروع ہوا اور چند روز میں مطلوبہ عمارت کھڑی ہو گئی۔
میئر کی ہدایت پر رشوت کی چمک پر انجینئرز آئے نرسنگ ہوم کی تعمیر میں استعمال ہونے والے میٹیریل کی کوالٹی کو چیک کیا اور عمارت کے اوکے ہونے کی سند جاری کردی۔ نرسنگ ہوم کو تعمیر ہوئے ابھی چند روز ہوئے تھے۔ ناقص مٹیریل اور کرپشن نے اپنا رنگ دکھایا۔ پوری عمارت زمین بوس ہو گئی اور معصوم بچوں کی کثیر تعداد نیچے دب کر زندگی کی بازی ہار گئی۔ ہمارے ہاں یہ روایت نہیں مگر یورپ کے عوام آج بھی اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی پر سراپا احتجاج ہوتے ہیں ،شاہرات پر نکل آتے ہیں۔ میلان میں بھی انسٹی ٹیوشن نے کرپشن کے خلاف ری ایکٹ کیا۔ کارپوریشن کے ایک مجسٹریٹ نے از خود نوٹس لیا اور اتنے بڑے سانحہ پر میئر سے جواب طلب کرتے ہوئے لکھا کہ میئر آکر وضاحت کرے کہ یہ واقعہ کیوں ہوا ؟
اٹلی کے اتنے بڑے شہر کے میئر اور کارپوریشن کے مجسٹریٹ کے اختیارات میں واضح فرق تھا نوٹس میلان کے میئر کو موصول ہوا تو اُس کا غصہ دیدنی تھا اُس نے نوٹس کو پھاڑ کر پھینک دیا اور مجسٹریٹ کو جواباً لکھا کہ مجھے نوٹس بھیجنے والے تم کون بے وقوف ہو ؟مجسٹریٹ محب ِ وطن تھا اخلاقی دبائو آڑے آیا تو اگلے مرحلے پر اُس نے میئر کے وارنٹ جاری کر دیئے۔ میئر چونکہ کرپٹ مافیا کا ہیڈ تھا۔ اِس لیے غصے میں آگیا اور ایم پی سے کہا مجسٹریٹ کا ٹرانسفر کر دو۔ ایم پی نے ٹرانسفر کیا تو میڈیا تاک میں تھا۔ فوراً سارا احوال میڈیا پر آگیا ۔میلان کے عوام کو جب میڈیا کے ذریعے اصل حقیقت کا ادراک ہوا تو مجسٹریٹ کی مدد کیلئے فوراً میلان کی شاہراہوں پر نکل آئے ،سراپا احتجاج عوام کا ایک ہی مطالبہ تھا کہ مجسٹریٹ کا فیصلہ مبنی بر انصاف ہے۔ میئر معصوم بچوں کا قاتل ہے۔ اُسے سزا دی جائے احتجاج نے تحریک کی شکل اختیار کر لی میئر کو گرفتار کرنا پڑا اُس کا اور اُس کے گروہ کا جرم ثابت ہو گیا اور اُنہیں جیل ہو گئی ۔کرپشن کے خلاف میلان شہر سے شروع ہونے والی احتجاجی تحریک اِٹلی کے گلی کوچوں تک جا پہنچی۔ عدلیہ کو ہمت ہوئی اور کرپشن کے جرم میں اِٹلی کے 12وزرائے اعظم اور چار سو ایم پیز پابند ِ سلاسل ہوئے۔یہ انسٹی ٹیوشنل ری ایکشن تھا!!
مجھے اِٹلی کے عوام کا احتجاج ،انسٹی ٹیوشنل ری ایکشن اور عدلیہ کے کٹہرے سے سزا یافتہ 12وزرائے اعظم اُس وقت یاد آئے جب جامعہ کراچی کے پروفیسر ڈاکٹر ریاض احمد کو اغوا کیا گیا ،ایک استاد کی تذلیل کیلئے کئی پولیس اسٹیشنز میں گھمایا گیا ،مگر کراچی کے نہ تو طلبہ نے احتجاج کی راہ اپنائی اور نہ ہی ان کے ہم منصب اس ناانصافی پر سراپا احتجاج ہوئے ،چاہئے تو یہ تھا کہ جامعہ کراچی کے اساتذہ اپنے ہم منصب کے اغوا کی واردات پر احتجاج کی کال دیتے ،شاہرات پر نکلتے سنڈیکیٹ کمیٹی میں انہوں نے کرپٹ حکمرانوں کے احکامات کی بجا آوری کو اپنی سروس کی بقا سمجھا۔ میں سوچنے لگا اگرسپریم کورٹ کے منصف بروقت الیکشن کرانے کے معاملے پر چیف جسٹس عمر عطا بندیا ل کے شانہ بشانہ کھڑے ہوجاتے تو آج کی پارلیمنٹ فارم 47کی جعلسازی کی راکھ پر کھڑے ہوکر عوام دشمن فیصلے نہ کرتی ،الیکشن میں پی ٹی آئی سے بلے کا نشان نہ چھینا جاتا ،عوامی رائے کو بائی پاس کرنے والے نشان ِ عبرت بنتے۔
میرے ذہن میں آیا اگرجسٹس اعجاز الاحسن کی بے دخلی پر انسٹی ٹیوشنل ری ایکشن ہوتا تو مہنگائی کا عفریت پاکستانیوں کی زندگیاں نہ نگلتا ، حکمران اپنے مفاداتی فیصلوں پر دندناتے ہوئے نہ پھرتے ،اقتدار کی تنخواہ دار سپاہ کی طرف سے عوام کی آخری امید گاہ "عدالت عظمٰی”کے عوام دوست اقدامات پر اسے آئینی حدود میں کام کرنے کا مضحکہ خیزمشورہ نہ دیا جاتا ،لوگوں کو گھروں سے اُٹھانے کا سلسلہ طوالت نہ پکڑتا ،
میرے دماغ میں اس سوال نے جنم لیا کہ اگر جسٹس طارق محمود جہانگیری کے خلاف انتقامی کارروائی پر اس کے ہم منصب انتظامیہ کے سامنے اپنے ہم منصب کا دفاع بن جاتے تو ایک عادل کے خلاف کوئی قدم اُٹھانے کی جرأت نہ کرتا۔ یہ سارے کارن محض اِس لیے ہوئے کہ انسٹی ٹیوشنل ری ایکشن کا تصور ہمارے ہاں دم توڑ چکا ہے،کسی بھی ناانصافی پر ہم باہر نہیںنکلتے ،سراپا احتجاج نہیں ہوتے ۔تنویر صباحت نے عرصہ پہلے موجودہ حالت کے تناظر میں شاید کہا تھا :۔
مدت سے میرے دل پہ ہے بے رنگ سا موسم
ہے دھوپ ٹھٹھرتی ہوئی بے سایہ شجر ہے