ہم پھر مہمان خصوصی بنے!
شیئر کریں
ابن انشاء
مومن کی پہچان یہ ہے کہ وہ ایک سوراخ سے دوبارہ نہیں ڈسا جا سکتا۔ دوسری بار ڈسے جانے کے خواہش مند کو کوئی دوسرا سوراخ ڈھونڈنا چاہیے۔ خود کو مہمان خصوصی بنتے ہم نے ایک بار دیکھا تھا۔ دوسری بار دیکھنے کی ہوس تھی۔ اب ہم ہر روز بالوں میں کنگھا کرکے اور ٹائی لگا کر بیٹھنے لگے کہ ہے کوئی اندھا محتاج جو دے سخی کو دعوت نامہ۔ بلائے اسے صدارت کے لیے۔ اپنے دوستوں سے بھی باتوں باتوں میں ہم نے بہت کہا کہ آج کل ہم خالی ہیں اور خدمت قوم کے لیے تن من دھن حاضر ہے۔ کوئی یونیورسٹی یا کالج یا اسکول ہماری ذات ستودہ صفات سے اپنے جلسے کی ونق بڑھانا چاہے تو ہم بخوشی اس کے لیے اپنی مصروفیات میں سے وقت نکالیں گے۔
بارے ایک جگہ سے دعوت نامہ آیا۔ اسپوٹنک انگلش اسکول گولیمار کے پرنسپل صاحب نے ہم سے استدعا کی کہ آپ ہمارے ہاں مہمان خصوصی بن کر آئیں اور اسکول کو اپنی جیب خاص سے کم از کم پانچ سو روپے عطیہ دیں تو ہم بہت ممنون ہوں گے۔ ہم نے کہا۔ ہم ہیں تو بہت مصروف لیکن آپ کی خاطر آجائیں گے اور پانچ سو روپے تو خیر زیادہ ہیں دو سو روپے اسکول کو دیں گے تاکہ ہمارے ملک میں تعلیم کو ترقی ہو۔ ہم ایسے نیک کاموں کی سرپرستی نہ کریں گے تو اور کون کرے گا؟ ایسا لگتا ہے کہ ان صاحبوں کو اس سے زیادہ عطیہ دینے والا کوئی اور نہ ملا لہٰذا معاملہ پٹ گیا اور ہم نے اپنی شیروانی ڈرائی کلین ہونے کے لیے بھجوادی۔
اسپوٹنک اپنی جگہ اور انگلش اپنی جگہ، لیکن نام کے اس طمطراق کے باوجود تھا یہ بھی پرائمری اسکول اور ہم یہ سوچ کر کچھ آزردہ سے ہوگئے کہ یہی رفتار رہی، یعنی ہماری زندگی کے یہ دن پرائمری اسکولوں سے خطاب کرتے گزرگئے تو یونیورسٹی کنووکیشن سے خطاب کی نوبت کس عمر میں آئے گی۔ ابھی تو بہت مرحلے درمیان میں تھے۔ لوئر سیکنڈری اسکول، ہائر سیکنڈری اسکول، انٹر کالج، ڈگری کالج اور نہ جانے کیا کیا۔ خیر پچاس روپے اسکول والوں کو ایڈوانس دے کر ہم نے بات پکی کی اور کہا۔ گولیمار تو بڑی پیچیدہ سی جگہ ہے۔ کوئی لینے آئے گا ہمیں؟
جواب ملا کہ لینے تو کوئی نہیں آئے گا۔ آپ دو نمبر کی بس میں پاپوش نگر سے بیٹھیے اور گولی مار ۳ پر اتریے۔ سامنے جس گلے کی نکڑ پر آپ کو ”اپٹوڈیٹ ہیئر کٹنگ سیلون“، ”بے ضرر ختنہ کابہترین مرکز“ کا بورڈ نظر آئے اس میں سے نکل کر بائیں ہاتھ چوتھا موڑ آپ مڑیں گے تو آپ کو شامیانہ تنا ہواملے گا لیکن ساڑھے نو بجے آپ کا پہنچ جانا ضروری ہے کیونکہ گیارہ بجے خیموں اور کرسیوں والے اپنا سامان لینے آ جائیں گے۔ ہم نے کرایہ گیارہ بجے تک کا دیا ہے۔ اس کے بعد یہ چیزیں ایک شادی والے کے گھر چلی جائیں گی۔ہم نے کہا مضائقہ نہیں۔ ہم بھی ان کے ساتھ ساتھ شادی والے گھر چلے جائیں گے۔ آیا بود کہ گوشہئ چشمے بما کنند۔
ملا نصر الدین کو لوگوں نے دیکھا کہ ریگستان میں جابجا کھدائی کرتے پریشان پھر رہے ہیں۔ ایک صاحب نے ماجرا پوچھا تو معلوم ہوا ایک جگہ انہوں نے کچھ روپے داب دیے تھے اور نشانی یہ رکھی تھی کہ اس وقت اس جگہ کے عین اوپر ابر کا ایک ٹکڑا تھا۔ جو اب کہیں دکھائی نہیں دے رہاتھا۔ شادیوں، بیاہوں، قوالیوں، مشاعروں، یوموں، جشنوں اور تقریری مقابلوں کی ریل پیل کے دنوں میں خیمے چھولداری کی نشانی سے کسی جگہ کو پانا کچھ ایسی ہی بات تھی لیکن خیر۔ ہم اپٹوڈیٹ ہیئر کٹنگ سیلون کی گلی میں مڑکر بائیں ہاتھ دیکھنے لگے حتی کہ دور ایک شامیانہ نظر آیا۔ وہاں جاکر دیکھا کہ دریوں پر کچھ بچے کھیل رہے ہیں۔ ایک طرف کرسیوں پر کچھ بزرگ بیٹھے ہیں جو ان کے والدین ہوں گے۔ لیکن ہمارے میزبان صاحبان کا کہیں پتہ نہیں۔ خیر ہم بھی ایک طرف کو بیٹھ گئے۔ تھوڑی دیر میں کچھ اور لوگ آگئے اور اب ایک صاحب نے آکر مؤدبانہ ہم سے پوچھا کہ آپ لڑکے والوں کی طرف سے ہیں نا؟ باقی بارات کہاں ہے؟
ہم نے کہا مذاق بند کرو۔ ہمیں یہاں تقریر کرکے اور بھی کئی جگہ صدارتیں کرنی ہیں۔ بس اب کارروائی شروع ہو۔ کہاں ہے کرسی صدارت؟ تھوڑی سی مزید اور قدرے تکلیف دہ گفتگو کے بعد پتہ چلا کہ ہمیں اس سے اگلی گلی میں جانا چاہیے تھا۔ وہاں ہم خوب وقت پر پہنچے۔ اعلان ہو رہاتھا کہ آج کل اچھے اچھے لوگ غیرذمہ داری برتتے ہیں۔ وعدہ کرکے تشریف نہیں لاتے۔ ہمارے آج کے مہمان بھی ایسے ہی نکلے۔ خیر اب میں بی ڈی ممبر تاج الدین تاج سے درخواست کرتا ہوں کہ ان کی جگہ۔۔۔ لیکن ہم نے بنفس نفیس نمودار ہوکر تاج صاحب کی صدارت میں اسی طرح کھنڈت ڈال دی جس طرح ہماری فلموں میں کوئی بزرگ عین نکاح کے وقت پہنچ کر ساری کارروائی روک دیتے ہیں، ”ٹھہرو یہ شادی نہیں ہوسکتی“۔
اس کے بعد جو کارروائی ہوئی اس میں سے ہمیں فقط اتنا یاد ہے کہ عبدالعزیز جماعت اول نے ہمیں ہار پہنایا۔ دوسری جماعت کے بچوں نے انگریزی میں ہمارا خیر مقدم کیا۔ جماعت سوم کی ایک بچی نے ایک فصیح و بلیغ تقریر پڑھی۔ جو اس کے والدین کی لیاقت، وسعت مطالعہ اور زبان پر غیرمعمولی قدرت کا ثبوت تھی۔ اس کے بعد چوتھی جماعت کے ایک طالب علم نے، ہم مردمجاہد ہیں، کا ترانہ گاتے ہوئے جوش میں آکر اپنی تلوار سے ہم پر وار کیا۔ خیریت یہ ہوئی کہ ایسے موقع پر تلواریں گتے کی استعمال کی جاتی ہیں۔ بعد ازاں ہم نے کھنکار کر اپنا صدارتی خطبہ شروع کیا ہی تھا، خواتین و حضرات اور پیارے بچو۔۔۔ کہ پیچھے سے ایک صاحب نے آکے ہمارے نیچے سے کرسی کھینچ لی اور کہا۔ حضور گیارہ بج گئے۔اب یہ سامان کہیں اور لے جانا ہے۔ ظالموں نے ہمیں حاضرین کا شکریہ ادا کرنے کی بھی مہلت نہ دی۔ خیر اس کی ضرورت بھی نہ تھی۔ کیونکہ اس وقت حاضرین تھے کہاں۔ انہوں نے شامیانے کے کھونٹے اکھڑتے دیکھ لیے تھے اور زاں پیشتر کہ شامیانہ ان پر آن گرتا، غیرحاضرین بن چکے تھے۔
٭٭٭