میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
شوگر مافیا کو لگام کون ڈالے گا؟

شوگر مافیا کو لگام کون ڈالے گا؟

جرات ڈیسک
منگل, ۵ ستمبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

پیٹرولیم مصنوعات اور بجلی کی قیمتوں میں ناقابل برداشت اضافے کے خلاف پورے پاکستان میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے اور نگراں حکومت اس مسئلے کا کوئی قابل قبول حل تلاش کرنے کی کوشش میں ہے دوسری طرف حکومت کو مسائل میں الجھا دیکھ کر شوگرمافیا نے ایک دفعہ پھر اپنے پیر پھیلانا شروع کردیے ہیں اور اطلاعات کے مطابق گزشتہ چند روز کے دوران مارکیٹ میں چینی کی قیمتوں میں 50 روپے فی کلو سے زیادہ کا اضافہ ہوچکاہے اور اضافے کا یہ سلسلہ ابھی جاری ہے،جس کی وجہ سے پاکستان میں اس وقت چینی کی قیمت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ چینی کی قیمت جو اس سال کے شروع میں 85 سے 90 روپے فی کلو تھی، صرف 8 مہینوں میں 180 روپے کی سطح تک پہنچ گئی ہے۔چینی کی قیمت میں 8 ماہ کے دوران ہونے والے اس اضافے کی وجہ سے ایک عام صارف گزشتہ سال کے اختتام پر چینی کی قیمت کے مقابلے میں اس وقت 90-100 روپے زائد قیمت ادا کر رہا ہے۔ملک میں اشیائے خوردو نوش کے اعداد و شمار مرتب کرنے والے وفاقی ادارہ شماریات نے ملک کے مختلف حصوں میں چینی کی قیمت کو گزشتہ ہفتے اختتام تک 156 روپے سے 165 روپے کلو کے درمیان ظاہر کیا تھا جبکہ ملک کے مختلف حصوں میں اب چینی 180 روپے کلو سے زائد پر دستیاب ہے۔ملک کی اناج منڈیوں میں کام کرنے والے تاجروں کے مطابق اس وقت چینی کی ایکس فیکٹری قیمت 168 روپے پر موجود ہے۔ ہول سیل پر یہ قیمت 172 سے 175 روپے تک پہنچ چکی ہے اور اس کی ریٹیل قیمت 180 روپے فی کلو یا اس سے زائد سطح پر پہنچ چکی ہے۔پاکستان میں چینی کی قیمت میں اس اضافے کی ایک بڑی وجہ گزشتہ پی ڈی ایم حکومت کی جانب سے جنوری کے مہینے میں چینی کی بیرون ملک برآمد کرنے کی اجازت کو قرار دیا جا رہا ہے جس کے بعد مارکیٹ میں چینی کی قیمت بڑھنا شروع ہوئی۔معیشت سے منسلک افراد اور تجزیہ کار چینی کی قیمت میں اضافے کی وجہ چینی کی برآمد کے فیصلے کو قرار دیتے ہیں تاہم اس کے ساتھ ہی ملک میں چینی کی ذخیرہ اندوزی، سٹے بازی اورا سمگلنگ کو بھی اس کی ایک بڑی وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔دوسری جانب ملک میں کام کرنے والی شوگر ملز بھی اس وقت تنقید کی زد میں ہیں اور ان کے مطالبے پر چینی برآمد کرنے کی اجازت ملنے کے بعد چینی کی قیمت بڑھنے پر انھیں مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے اگرچہ شوگر ملز کی نمائندہ تنظیم کی جانب سے اس تاثر کی نفی کی جارہی ہے اور اسے ’حقائق کے برعکس‘ قرار دیا جارہاہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ پی ڈی ایم کی گزشتہ حکومت کی جانب سے اس سال جنوری کے مہینے میں چینی کی برآمد کے فیصلے کی منظوری دی گئی تھی جس کے بعد ہی مارچ کے مہینے میں چینی کی قیمت میں اضافے کا سلسلہ شروع ہوا اور اس میں مسلسل اضافہ ریکارڈ کیا جارہاہے۔اس بارے میں معاشی امور کے ماہرین کا کہناہے کہ جب چینی برآمد کرنے کا فیصلہ لیا گیا اور چینی کے ذخائر کے حوالے سے جو اعداد وشمار دیے گئے تھے ان کا جب آزادانہ جائزہ لیا گیا تو چینی کا اتنا ذخیرہ موجود نہیں تھا،چینی کی برآمد کی اجازت لینے کیلئے جوظاہر کیاگیاتھااور اب چینی کی جو کھپت بتائی جا رہی ہے وہ اصل کھپت سے کم ہے۔’اس وقت کے ایف بی آر اور وزارت صنعت و پیداوار کے اعداد و شمار میں فرق تھا، خاص طور [ر چینی کے ذخیرے کے بارے میں حقیقت اور بیان میں فرق تھا۔ تاہم تمام حقائق کو پس پشت ڈالتے ہوئے مبینہ طورپر چند با اثر سیاستدانوں کے دباؤ پر ایک سیاسی فیصلہ کیا گیا اور حقائق کی چھان بین کیے بغیر چینی برآمد کرنے کی اجازت دے دی گئی جس سے شوگر ملز مالکان نے 2 فائدے اٹھائے۔ایک تو انھوں نے غیر ملکی مارکیٹ سے چینی برآمد کر کے زرمبادلہ کمایا۔ دوسری جانب جب یہاں سے چینی برآمد کی گئی تو جو چینی 85 روپے کلو تھی وہ 180 روپے تک پہنچ گئی تو اس کا انھوں نے فائدہ اٹھایا۔ اجناس سے متعلق امور کے ماہرین نے اس وقت بھی چینی کی برآمد کے فیصلے کو غلط قرار دیا تھا۔انھوں نے واضح کردیاتھاکہ ’پاکستان میں مارچ کے مہینے کے بعد چینی کی کھپت میں عموماً اضافہ ریکارڈ کیا جاتا ہے کیونکہ ایک جانب گرمی کے سیزن کی وجہ سے چینی کی کھپت بڑھ جاتی ہے تو دوسری جانب مخلتف تہواروں کی وجہ سے بھی اس کے استعمال میں اضافہ ہوتا ہے۔پاکستان میں چینی کی پڑوسی ملک افغانستان کو ا سمگلنگ بھی ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہا ہے۔ چینی کی قیمت میں موجودہ اضافے کی ایک وجہ ا سمگلنگ بھی بتائی جا رہی ہے۔یہ بات صحیح ہے کہ ایک جانب چینی برآمد ہوئی تو دوسری جانب ا سمگلنگ نے بھی قیمت کو بڑھایا۔ا سمگلنگ کا ہمیشہ اس میں ایک کردار رہا ہے اور اس بار بھی رہا ہے۔لیکن جب چینی برآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا اس وقت جو اعداد و شمار پیش کیے گئے وہ صحیح ثابت نہیں ہوئے کیونکہ اس وقت کہا گیا تھا کہ نومبر 2023 تک ملک کے چینی کا اسٹاک2 مہینے کی کھپت کے لیے کافی ہوں گے لیکن اب اس اسٹاک کے ختم ہونے کی بات جا رہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ شاید چینی کی برآمد کرنے کا فیصلہ کروانے والی مافیا اب چینی درآمد کرنے کی اجازت حاصل کرنے کیلئے مارکیٹ میں مصنوعی طریقے سے اس کی قیمتوں میں اضافہ کرکے حکومت کو یہ بحران ختم کرنے کیلئے چینی درآمد کرنے کی اجازت دینے پر مجبور کرنا چاہتی ہے۔کراچی گروسری ہول سیلرز ایسوسی ایشن رکا کہناہے کہ ’چینی برآمد کرنے کے فیصلے نے چینی کی قیمت کو بڑھایا تاہم اس کے ساتھ چینی کی ذخیرہ اندوزی اور سٹے بازی بھی چینی کی قیمت کو بڑھا رہی ہے۔ایک دن میں چینی کی قیمت میں 4 روپے اور اگلے روز 5 روپے کا بڑھ جانا اس بات کی علامت ہے کہ اس میں سٹے بازی جاری ہے۔چینی کے کاروبار میں سٹے باز شوگر ملوں کے مالکان کی ملی بھگت سے مال بناتے ہیں،اس کاطریقہ یہ ہے کہ شوگر ملوں کی جانب سے جو ڈیلیوری آرڈر جاری کیے جاتے ہے وہ اکثر بے نامی ہوتے ہیں۔اورشوگر ملوں کی جانب سے جو چینی فیکٹریوں کو فراہم کی جاتی ہے اس کے ڈیلیوری آرڈر پر تو اس فیکٹری کا نام اور اس کا سیلز ٹیکس نمبر موجود ہوتا ہے تاہم انفرادی سطح پر جو ڈیلیوری آرڈر جاری ہوتے ہیں اس پر کوئی نام یا سیلز ٹیکس یا انکم ٹیکس نمبر نہیں ہوتا۔ان بے نامی ڈیلیوری آرڈر کے ذریعے چینی کی کوئی فزیکل سپلائی تو نہیں ہوتی تاہم اس کے ذریعے قیاس آرائیوں پر مبنی قیمت بڑھائی جاتی ہے اور اس وقت بھی یہی ہو رہا ہے کیونکہ چینی کی برآمد کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں اس کی کمی ہوئی اور ابھی نئے کرشنگ سیزن میں کم از کم 2مہینے ہیں اور نئی چینی مارکیٹ میں آنے میں کچھ عرصہ لگے گا۔اس کی وجہ سے ایک ایسی صورتحال پیدا ہو گئی ہے جہاں چینی پر سٹہ بھی ہو رہا ہے جو قیمت میں مزید اضافے کے امکان کی وجہ سے ہے۔پاکستان میں 93 روپے کلو بکنے والی چینی افغانستان میں 193 روپے فروخت ہونے کے لیے ا سمگل کی جاتی ہے؟پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن (پنجاب زون) سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو ایسوسی ایشن کی جانب سے تحریری موقف دیا گیا۔پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے اپنے موقف میں بتایا کہ گزشتہ شوگر سیزن 22-2021 کے اختتام پر پاکستان کے پاس تقریباً 10 لاکھ ٹن چینی کا اضافی ذخیرہ تھا۔ اس بھاری سرپلس کی وجہ سے حکومت نے 2.5 لاکھ ٹن چینی برآمد کرنے کی اجازت دی تھی اور اس کے
بعد مزید 2.5 لاکھ ٹن چینی برآمد کی اجازت دینی تھی۔پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے مطابق ’یہ بھی اندازہ لگایا گیا تھا کہ شوگر سیزن 2022-23 چینی کی پیداوار کے لیے اچھا رہے گا۔ لیکن شوگر سیزن کے دوران یہ محسوس ہوا کہ فصل کی پیداوار اندازوں اور توقعات کے مطابق نہیں ہے، اس لیے حکومت کی جانب سے چینی کی مزید برآمد روک دی گئی۔پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن نے اپنے موقف میں بتایا کہ شوگر سیزن 23-2022 کے آغاز میں پاکستان کے پاس 8.15 ملین ٹن کا ذخیرہ تھا جس میں گزشتہ سال کا کیری اوور اسٹاک بھی شامل تھا، جو پورے سال کے لیے ایک تسلی بخش پوزیشن تھی۔فیڈرل بورڈ آف ریونیو اور دیگر متعلقہ سرکاری ادارے اب بھی یہ موقف رکھتے ہیں کہ ہماری ماہانہ کھپت 0.65 ملین ٹن ہے۔ نومبر 2022 سے جولائی 2023 کے دوران 9 ماہ کے لیے کھپت 5.85 ملین ٹن رہی۔ باقی 3 ماہ کے لیے پاکستان کو 1.95 ملین ٹن کی ضرورت ہوگی، جب کہ پاکستان میں  اسٹاک کی دستیابی 2.3 ملین ٹن ہے۔ ان حقائق کی روشنی میں اس وقت چینی کی قلت کا تاثر سمجھ سے بالاتر ہے۔پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایشن کے مطابق ’جہاں تک چینی کی قیمت کا تعلق ہے، چینی کی بین الاقوامی مارکیٹ انتہائی اتار چڑھاؤ کا شکار ہے اور 250 روپے فی کلو تک ہے۔ اسی لیے پاکستان کی سرحدوں سے بہت زیادہ چینی اسمگل ہو رہی ہے۔یہ بات تسلیم شدہ ہے پاکستانی چینی اپنی اعلیٰ کوالٹی اور کم مقامی قیمتوں کی وجہ سے بہت مقبول ہے جس کی وجہ سے اس کی اسمگلنگ مافیا دونوں ہاتھوں سے منافع سمیٹ رہی ہے۔مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمتوں میں اضافے کا دوسرا اہم جزو ڈالر کی غیر متوقع بلند شرح مبادلہ، پیڑولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ، بینکوں کی انتہائی بلند شرح سود، اجرتوں میں اضافہ، دیگر تمام اشیا کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ اور بجلی کی قیمتوں کا آسمان کو چھونا ہے۔ ان تمام منفی حالات سے چینی کی قیمتوں کو الگ نہیں کیا جا سکتا۔ شوگر ملزایسوسی ایشن  اس کے ساتھ چینی کی بڑھی ہوئی قیمتوں کو کم نہ کرنے اور اسے بلند ترین سطح پر برقرار رکھنے کیلئے اب یہ جواز تراشنے کی کوشش کررہی ہے کہ  آئندہ شوگر سیزن 24-2023 ٍ کے دوران  پورے پاکستان میں گنے کے رقبے میں کمی کی وجہ سے چینی کی پیداوار بمقابلہ کھپت میں کمی کا امکان ہے،ہم سمجھتے ہیں کہ ارباب اختیار کو اس صورت حال اور شوگرملز ایسوسی ایشن کے ارادوں کو مد نظر رکھتے ہوئے وقت سے پہلے چینی کی متوقع کمی کو پورا کرنے کے لیے حکمت عملی تیارکرنے کی ضرورت ہے جس میں چینی کی اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے سخت اقدام کو اولیت دی جانی چاہئے۔ تاکہ چینی باہر نہ جا سکے اور شہریوں کومناسب قیمت پر پورے سال دستیاب رہے،اب دیکھنا یہ ہے کہ نگراں حکومت اس حوالے سے کیا حکمت عملی تیار کرتی ہے اور چینی کی اسمگلنگ کو روکنے کیلئے اقدامات کے ساتھ حکومت کے غلط اعدادوشمار پیش کرکے چینی برآمد کرنے کی اجازت حاصل کرنے والے مگرمچھوں کے خلاف کیاکارروائی کی جاتی ہے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں