میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مسجدوں اور مدرسوں پر نشانہ

مسجدوں اور مدرسوں پر نشانہ

ویب ڈیسک
پیر, ۵ ستمبر ۲۰۲۲

شیئر کریں

 

ہندوستان کا آئین ہرشہری کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے زندگی گزارے ۔ کسی کو اس بات کا حق نہیں ہے کہ وہ پڑوسی کے گھر میں جھانک کر یہ دیکھے کہ وہ کیا کررہا ہے ۔ کیا کھا رہا ہے یا کس طرح اپنے شب وروز کررہا ہے ۔ کسی کی نجی زندگی میں مداخلت اخلاقی اور قانونی دونوں اعتبار سے جرم ہے ۔لیکن اسے کیا کہا جائے کہ مرادآباد میں گھرکی چہاردیواری میں کچھ مسلمانوں کانماز پڑھناان کے ہندوپڑوسیوں کو اتنا ناگوارہوا کہ انھوں نے اس کے خلاف باقاعدہ ایف آئی آردرج کرائی اور باجماعت نماز پڑھنے والوں پر نفرت اور دشمنی کو فروغ دینے کا الزام لگایا۔پولیس نے تحقیق کیے بغیر اس کی رپورٹ درج کرلی اور یہ بھی نہیں پوچھا کہ آخرنماز پڑھنے سے نفرت اور دشمنی کیسے فروغ پاتی ہے ؟قابل ذکر بات یہ ہے کہ مرادآباد کے جس گاؤں کا یہ قصہ ہے وہاں مسلمانوں کو باجماعت نماز اداکرنے کی اجازت نہیں ہے ۔ مقامی ہندوؤں کا کہنا ہے کہ جب وہ پوجا کرنے گاؤں کے باہر جاتے ہیں تومسلمان گھروں میں نماز کیوں پڑھ رہے ہیں۔ حالانکہ جس ویڈیو کی بنیاد پر پولیس نے 26/لوگوں کے خلاف مقدمہ درج کیا تھا،وہ جون کے مہینے کا ہے ، لیکن مقامی ہندوؤں کی شکایت پر پولیس نے بلا تحقیق پہلے تو مقدمہ درج کیا اور جب اس معاملہ نے طول پکڑا تو اسے آناًفاناً واپس بھی لے لیا۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں ہے کہ نماز کو متنازع بنانے کی کوشش کی گئی ہے ۔ یہ سلسلہ مہینوں سے چل رہا ہے ۔ ابھی زیادہ دن نہیں گزرے کہ اسی اترپردیش کی راجدھانی لکھنؤ میں ایک نوزائیدہ مال کے اندر بعض نوجوانوں کے نماز پڑھنے کاویڈیو وائرل ہونے کے بعد خوب تماشا ہوا تھا۔ یہاں تک کہ نماز پڑھنے والوں کو جیل کی ہوا کھانی پڑی تھی۔پچھلے دنوں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے ایک استاد کو اس بنیاد پر نوٹس جاری ہوا تھا کہ انھوں نے سڑک کے کنارے نماز ادا کی تھی۔ جہاں کہیں کوئی نماز پڑھتا ہوا نظر آتا ہے شرپسند اس کی اس طرح ویڈیو بناتے ہیں کہ یہ کوئی عبادت نہیں بلکہ جرم کررہا ہے ۔ حالانکہ یہ وہی ملک ہے جہاں دیگر مذاہب کی تمام تقریبات سڑکوں پر انجام دی جاتی ہیں اور اس پر کسی کو اعتراض نہیں ہوتا۔ پہلے دسہرے کے موقع پر صرف رام لیلا گراؤنڈ میں راون کو پھونکا جاتا تھا،لیکن اب ہر پارک میں یہ کام انجام دیا جانے لگا ہے ۔
یوں تو ملک میں کئی سال سے نفرت اور تعصب کی ہوائیں چل رہی ہیں اور کمزور طبقات کا جینا حرام کیا جارہا ہے ، لیکن گزشتہ ہفتہ کے دوران کچھ ایسے واقعات سامنے آئے ہیں جن میں صرف مسجدوں، مدرسوں، عیدگاہوں نمازوں اور اذانوں کو نشانے پر لیا گیا ہے ۔ سلسلہ واقعات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ کسی سوچی سمجھی سازش کے تحت مسلمانوں کی عبادت میں رخنہ اندازی کی جارہی ہے ۔ پچھلے ہفتہ کیرل ہائی کورٹ نے ایک تجارتی عمارت کو مسجد میں تبدیل کرنے کی اجازت دینے سے انکار کرتے ہوئے جو کچھ کہا ہے وہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔ہائی کورٹ نے مسجد تعمیر کرنے کی عرضی مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اگر کیرل میں بغیر کسی رہنما خطوط کے مزید مذہبی مقامات اور عبادت گاہوں کی اجازت دی جاتی ہے تو شہریوں کے لیے کوئی جگہ نہیں بچے گی۔سوال یہ ہے کہ اگر کوئی اپنی تجارتی عمارت کو مسجد میں تبدیل کرنا چاہتا ہے تو اس پر عدالت کو اعتراض کیوں ہے ؟ واضح رہے کہ ملاپورم کی ایک مسلم تنظیم نے ایک تجارتی مرکز کو مسجد میں تبدیل کرنے کی درخواست دی تھی۔ اس پر ہائی کورٹ نے عبادت گاہوں سے اپنی بیزاری کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیرل کو اس کی خاص جغرافیائی حیثیت کی وجہ سے ’ایشور کا استھان ‘ کہا جاتا ہے ، لیکن ہم مذہبی مقامات اور عبادت گاہوں سے عاجز آچکے ہیں اور عدیم النظیر معاملوں کو چھوڑکر کسی نئے مذہبی مقام اور عبادت گاہ کی اجازت دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔اس معاملہ میں عدالت عالیہ نے قرآنی آیات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ یہ آیات مسلم فرقہ کے لیے مسجد کی اہمیت کو واضح طور پر اجاگر کرتی ہیں، لیکن مقدس قرآن کریم کی مندرجہ بالا آیات میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ ہرکونے اور نکڑپر مسجد ضروری ہے ۔
سوال یہ ہے کہ اس قسم کے دلائل صرف مسلمانوں کی عبادت گاہوں کی تعمیر روکنے کے لیے کیوں دیے جاتے ہیں۔ یہ وہی عدالتیں ہیں جو کسی بھی مسجد کے نیچے مندرتلاش کرنے والوں کی عرضیاں سماعت کے لیے بلا تامل قبول کرلیتی ہیں اور اس موقع پر یہ نہیں کہتیں کہ جب مسجد کی برابر میں ہی مندر موجود ہے تو وہاں پوجا کیوں نہیں کی جاسکتی۔ کیا یہ ضروری ہے کہ ہر مسجد کے نیچے مندر تلاش کیا جائے اور دوسروں کے مذہبی جذبات سے کھلواڑکی جائے ۔بنارس کی ایک ذیلی عدالت نے جس انداز میں گیان واپی مسجد کو مندر میں بدلنے کی کوششوں کا ساتھ دیا اور مسجد کی حوض میں شولنگ تلاش کرنے والے شرپسندوں کی بن آئی، اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ سب کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔ مسجدوں کی تعمیراور نماز کی ادائیگی میں شرپسندوں کی رخنہ اندازی کے ساتھ ساتھ عرصہ سے لاؤڈاسپیکر کے ذریعہ اذان کا مسئلہ بھی زیربحث ہے ۔ شرپسندوں کے مذہبی جذبات کو اس سے بھی ٹھیس پہنچتی ہے ۔ یہ تمام کوششیں دراصل اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ایک منصوبہ بند سازش کا حصہ ہیں۔نفرت اور تعصب کے ان گھٹاٹوپ اندھیروں میں کبھی کبھی امید کی کرنیں بھی نمودار ہوتی ہیں۔ ایسی ہی ایک کرن پچھلے ہفتہ اس وقت نمودار ہوئی تھی جب کرناٹک ہائی کورٹ نے لاؤڈاسپیکر سے اذان پر پابندی کا مطالبہ یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا تھا کہ اذان یا اس کے الفاظ کی وجہ سے دوسرے مذاہب کے لوگوں کے بنیادی دستوری حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوتی۔عرضی گزار منجو ناتھ نے مفاد عامہ کی عرضی میں لاؤڈاسپیکر سے دی جانے والی اذان کو اس بنیاد پر روکنے کا مطالبہ کیا تھا کہ اس سے دوسروں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے ۔ عدالت عالیہ نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ دستور کی دفعہ 25اور 26 رواداری کی علامت ہیں اور یہ دفعات لوگوں کو آزادانہ طورپر اپنے مذہب پر عمل پیرا ہونے اور ان کی تبلیغ کا بنیادی حق فراہم کرتی ہیں۔جس وقت یہ سطریں تحریر کی جارہی ہیں،آسام کے مسلمانوں میں زبردست بے چینی پھیلی ہوئی ہے اور اس کا سبب ہے وہاں کے دینی مدرسوں کے خلاف صوبائی حکومت کی محاذآرائی۔ حکومت نے مدارس کے طلباء پر شدت پسندوں سے تعلق رکھنے کے الزام میں آسام کے بونگائی گاؤں میں ایک مدرسہ کو بلڈوزر سے مسمار کردیا ہے ۔ اس مدرسے میں 224 طلباء زیرتعلیم تھے ۔آسام میں یہ تیسرا مدرسہ ہے جسے ایک ہفتہ کے دوران مسمار کیا گیا ہے ۔یہ بات کسی سے پوشیدہ
نہیں ہے کہ جب سے آسام میں بی جے پی سرکار قائم ہوئی ہے وہ مسلسل دینی مدرسوں کو نشانہ بنارہی ہے ۔سرکاری امداد یافتہ مدرسوں کو ختم کرکے انھیں عصری تعلیم کے اسکولوں میں پہلے ہی بدلا جاچکا ہے ۔ اب جو پرائیویٹ مدرسے باقی ہیں، ان پر مشتبہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرکے زمیں بوس کیا جارہا ہے ۔آسام میں مسجدوں کے اماموں پر بھی گہری نگاہ رکھی جارہی ہے ۔ حکومت نے کہا ہے کہ اگر کسی گاؤں میں کوئی امام آکر ٹھہرتا ہے تو اس کی اطلاع فوری طورپر پولیس کو دی جانی چاہئے ۔ادھر یوپی میں تمام غیرتسلیم شدہ مدرسوں کے سروے کا حکم دیا گیاہے ۔مدرسہ بورڈ کے 16ہزار مدرسوں کے علاوہ ندوہ اور دارالعلوم جیسے بڑے اداروں اور دیگر غیرسرکاری اداروں کے تحت چلنے والے مدرسوں کے سروے کا کام شروع کردیا گیاہے ۔ اس سلسلہ میں سبھی اضلاع کے ڈی ایم کو 25اکتوبر تک رپورٹ دستیاب کرانے کی ہدایت دی گئی ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں