پاکستان میں چین کا بڑھتا اثرورسوخ!
شیئر کریں
سید بابر علی: سی پیک کے آغاز کے بعد ملک بھر میں جہاں ایک طرف چینی باشندوں کی تعداد میں اضافہ ہوا تو دوسری طرف ملک کے مختلف شہروں میں چینی زبان سکھانے والے بہت سے نئے ادارے بھی وجود میں آئے جب کہ اس سے قبل نومبر 2013کو جامعہ کراچی میں چینی زبان سکھانے کے لیے باقاعدہ ایک شعبے کا قیام عمل میں آگیا تھا۔
عظیم چینی مفکر کنفیوشش کے نام پر بننے والے اس انسٹی ٹیوٹ میں چھے چھے ماہ کے دو سرٹیفیکیٹ کورسز کرائے جا رہے ہیں۔ اس انسٹی ٹیوٹ میں چینی زبان سیکھنے والے طلبا کی تعداد میں ہر گزرتے دن اضافہ ہورہا ہے، جب کہ نجی سطح پر غیرملکی زبانیں سکھانے والے ملکی اور غیرملکی درجنوں ادارے چینی زبان سکھانے کے لیے مختلف کورسز متعارف کرواچکے ہیں۔ مختلف کلاسیفائیڈ ویب سائٹس پر چینی زبان سکھانے والے سافٹ ویئرز کی بھرمار ہے۔
اس طرح پاکستانیوں میں چینی زبان و ثقافت سے شناسائی بڑھ رہی ہے۔ دوسری طرف پاکستان میں چین کا کاروباری اثرورسوخ بھی بڑھتا جارہا ہے، جس نے مقامی صنعتوں کی تباہی کا آغاز بھی کردیا ہے۔ ایک زمانے میں چینی ساختہ برقی مصنوعات نے مقامی کارخانوں میں تالے لگوائے، لیکن سی پیک کے ساتھ چینی کاروبار اور کمپنیوں کے بڑھتے ہوئے قدم پاکستان کی معیشت اور تجارت پر مزید وسیع اور دوررس اثرات مرتب کر رہے ہیں۔ اب چین سے آنے والے سیب، گاجر، ٹماٹر اور دیگر پھل و سبزیاں مقامی کسانوں کے لیے آمدنی کے ذرایع دن بہ دن کم کرتی جا رہی ہیں۔ غرض یہ کہ چین کی اس کے معاشی و تجارتی حجم کے لحاظ سے اس معمولی سی سرمایہ کاری نے پاکستانی حکم رانوں، عوام اور سیاست دانوں کو خوشی سے نہال کردیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ سی پیک چین کے ایک عظم منصوبے کا بہت چھوٹا سا حصہ ہے۔
اس سے کہیں زیادہ سرمایہ کاری وہ اپنے حریف ممالک امریکا اور انڈیا میں کرچکا ہے یا کرنے والا ہے۔ سی پیک کے آغاز کے ساتھ ہی پورے ملک میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا۔ کچھ نے اسے جادو کی چھڑی قرار دیا جس سے پاکستان یک لخت امریکا، برطانیہ کی معیشت کو پیچھے چھوڑ دے گا، کچھ جغادری تجزیہ کاروں نے اس منصوبے سے پیوستہ ترقی کی ایسی لمبی تمہیدیں باندھیں کہ جی اس منصوبے کے آتے ہی ملک بھر سے بے روزگاری کا خاتمہ ہوجائے گا، جب سب برسر روزگار ہوں گے تو پھر امن و امان ایسا ہوگا کہ لوگ سونے کے سکے اچھالتے جائیں گے اور کوئی آنکھ اٹھا کر بھی ان کی طرف نہیں دیکھے گا، لیکن ہوا کچھ ایسا کہ بے روزگاری میں کمی تو آئی لیکن چینیوں کے لیے، سی پیک سے وابستہ انجینئرز اور مزدوروں کی کھیپ کی کھیپ پاکستان درآمد کی گئیں، جن کی حفاظت کے لیے پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے ادارے دن رات اپنی نیندیں حرام کر رہے ہیں۔ اس تناظر میں کچھ تجزیہ کاروں نے اسے اکیسویں صدی کی ایسٹ انڈیا کمپنی کی آمد قرار دیا ہے۔
یہاں اس بات کو مدنظر رکھنا چاہیے کہ چین کے اپنے معاشی اہداف ہیں، جن میں ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ، ایشیا پیسیفک اور یورپی ممالک سے روابط بڑھانے اور آزادانہ تجارت کا فروغ شامل ہیں۔ چین دنیا بھر کی معیشت میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کے لیے سرگرم ہے۔ چین پاکستان کا دیرینہ دوست ہے، لیکن پاکستان میں چینی اثرورسوخ کو سمجھنے کے لیے ہمیں ماضی کا سفر کرنا پڑے گا۔ تقسیم کے بعد ہی پاکستان نے ملکی معیشت میں بہتری کے لیے غیر ممالک پر انحصار شروع کردیا تھا ، اس وقت دنیا دو سپر پاورز سوویت یونین اور امریکا کے درمیان تقسیم تھی۔ پاکستان نے امریکا کو منتخب کیا جس کے عوض اسے بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے امداد کے نام پر قرضے ملنا شروع ہوئے۔ ان ستر سالوں میں پاک امریکا تعلقات کبھی بہت بہتر رہے تو کبھی بہت تنائو رہا۔ چند دہائی قبل پاکستان نے امریکا کی طوطا چشمی کو دیکھتے ہوئے اس کے رقیب اور اپنے دیرینہ دوست چین کے ساتھ سماجی اور معاشی تعلقات میں مزید بہتری لانی شروع کردی۔ گزشتہ ایک دہائی میں چین کی جانب سے پاکستان میں انفرا اسٹرکچر اور توانائی کی شعبے میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی گئی۔
٭ ’ون بیلٹ، ون روڈ‘ اور پاکستان میں بڑھتی ہوئی چینی سرمایہ کاری کے اثرات
انفرا اسٹرکچر میں بیرون ملک سرمایہ کاری اور سی پیک کے بارے میں جاننے کے لیے ہمیں چین کے ’ون بیلٹ، ون روڈ‘ جیسے بڑے منصوبے کے بارے میں جاننا ہوگا۔ پانچ سال قبل چینی صدر نے دنیا کے 65 سے زاید ممالک میں باہمی تجارت کے فروغ کے لیے سڑکوں، ریلوے لائنز، سمندری اور خشک بندرگاہوں کو ایک دوسرے سے مربوط کرنے کے لیے ون بیلٹ، ون روڈ منصوبے کا علان کیا، جس کے تحت چین کو مختلف ممالک سے بہ ذریعہ سڑک ملاتے ہوئے یورپ تک ایک روڈ کی تعمیر اور نقل و حمل، توانائی، تجارت اور مواصلات کے انفرا اسٹرکچر میں بہتری کو فروغ دینا ہے۔ ون بیلٹ، ون روڈ آنے والے برسوں میں چین کی دنیا بھر میں سرمایہ کاری اور اپنے اثر و رسوخ کو بڑھانے کے تصور کا آغاز ہے۔ درحقیقت یہ چین کی تجارتی راستوں پر علاقائی ربط سازی، دنیا بھر میں چینی کمپنیوں کی تعداد میں اضافے، اور گلوبل مارکیٹ میں رسائی کو بڑھانے کے لیے جاری سرمایہ کاری کا تسلسل ہے۔ اسے چین کی ’گوئنگ آوٹ حکمت عملی‘ کے اگلے مرحلے کے طور پر بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
ہانگ کانگ ٹریڈ ڈیولپمنٹ کونسل ریسرچ سینٹر کی جانب سے جاری ہونے والے نقشے کو بہ غور دیکھا جائے تو چین تو اپنے حریف انڈیا کو بھی ساڑھے سولہ لاکھ اسکوائر کلومیٹر طویل بی سی آئی ایم اقتصادی راہ داری کا حصہ بنا رہا ہے، لیکن وہاں کے عوام اور سیاست دان اتنا شور نہیں کر رہے جتنا ہمارے ملک میں سی پیک کو لے کر کیا جارہا ہے۔ یعنی جس بات پر ہمارے حکم راں خوشی سے پاگل ہوئے جا رہے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ سی پیک سے پاکستان میں معاشی خوش حالی کا دور دورہ ہوگا تو انہیں عوام کو اس حقیقت سے بھی آگاہ کرنا چاہیے کہ سی پیک تو محض چین کے ایک عظیم منصوبے کا بہت چھوٹا حصہ ہے۔ ون بیلٹ، ون روڈ کا اہم مقصد ’پالیسی کوآرڈینیشن‘ ہے۔
جیسے ہی یہ ‘ون روڈ، ون بیلٹ’ کا منصوبہ مکمل ہوگا چین کو ایسے علاقوں تک رسائی مل جائے گی جہاں پر آبادی کم ہے۔ اس صورت حال میں پاکستان میں چینی صنعت کاری کو مزید فروغ دیا جائے گا۔ چین نے اپنی غیر معمولی معاشی قوت کی بدولت خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھالیا ہے جب کہ بھارت بھی اپنی غیر معمولی آبادی، بڑی مارکیٹ اور معاشی ترقی کی بدولت جنوبی ایشیاء میں ایک مقام رکھتا ہے۔ پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ تجارت و سرمایہ کاری کی بدولت چین کے اِن ممالک سے معاشی تعلقات تیزی سے مضبوط ہورہے ہیں لیکن بھارت جنوبی ایشیا میں چین کو سب سے بڑا خطرہ تصور کرتا ہے کیوںکہ چین اپنے سب سے بڑے انفرااسٹرکچر بینک کے ذریعے ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ منصوبے کے تحت خطے کے ممالک کے انفرااسٹرکچر کو مضبوط بنا کر اُنہیں آپس میں ملانا چاہتا ہے جس کی وجہ سے چین کا خطے میں اثر و رسوخ مزید بڑھنے کا امکان ہے۔ چین کے بہتر تعلقات صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ بنگلادیش کا جھکائو بھی اب چین کی طرف ہوگیا ہے۔
پاکستان کے لیے پاک چین اقتصادی راہداری منصوبہ نہایت اہمیت کے حامل ہے۔ پاکستان کو خطے میں اپنی حیثیت برقرار رکھنے کے لیے اس منصوبے سے بھرپور فائدہ اٹھانا چاہیے۔ لیکن اربوں ڈالر کی چینی سرمایہ کاری کے باوجود ملکی معیشت پر چین کا بڑھتا ہوا اثرورسوخ باعث تشویش بھی ہے۔ سرکاری اعدادوشمار کے مطابق اس وقت سو سے زاید چینی کمپنیاں اور بارہ ہزار سے زاید چینی شہری پاکستان میں جاری مختلف چینی منصوبوں پر کام کر رہے ہیں۔ پاکستان اور چین کا تجارتی حجم بارہ ارب ڈالر سے تجاوز کرچکا ہے، لیکن اس تمام تر سرمایہ کاری سے مستفید بھی سب سے زیادہ چین ہی ہورہا ہے، کیوں کہ گوادر بندر گاہ ہو یا ریکوڈک سے سونے تانبے اور دیگر معدنیات کے ذخائر کی کان کنی، ہر جگہ چینی کمپنیاں سرفہرست ہیں۔ اس بابت ماہرین معیشت کو بھی کچھ تحفظات ہیں کیوںکہ ان کے خیال میں پاک چین آزاد تجارت کے معاہدوں میں پاکستان سے زیادہ چین کے مالی اور سماجی مفادات کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ ان دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا زیادہ فائدہ چین کو ہورہا ہے۔
پاکستانی معیشت پر بڑھتے ہوئے چینی اثرو رسوخ کی واضح مثال یہ بھی ہے کہ ملک بھر سے جوتا سازی، برقی آلات، کاغذ سازی اور اس جیسی کئی دیگر صنعتیں یا تو ختم ہوگئی ہیں یا اپنے اختتام کے قریب ہیں۔ پاکستان میں کام کرنے والی مواصلاتی کمپنیوں اور مالیاتی اداروں نے اردو اور انگریزی کے ساتھ ساتھ چینی زبان میں بھی ہدایات فراہم کرنی شروع کردی ہیں۔ اگر آپ کسی سُپرمارکیٹ جائیں تو آپ کو چینی ساختہ مصنوعات کی بھرمار دکھائی دے گی۔ کراچی کے علاقوں صدر، ڈیفنس، کلفٹن اور شہر کے دیگر علاقوں میں چینی باشندے بڑی تعداد میں گھومتے دکھائی دیتے ہیں۔ چند سال قبل پاک چین تعلقات کو مزید مستحکم کرنے کے لیے کھانے کے مسالے بنانے والی ایک کمپنی نے اپنے اشتہار میں چینی لڑکی کو بریانی بناتے دکھایا تو گذشتہ سال ہی ایک پاکستانی فلم میں اداکارہ سائرہ شہروز کے ساتھ چین کے اداکار کینٹ ایس لیونگ کو بہ طور ہیرو کاسٹ کیا گیا۔ پاکستان میں چینی اثرات کا ایک ثبوت اسلام آباد سے شایع ہونے والا پندرہ روزہ جریدہ ہے، جو چینی میں شایع ہوتا ہے۔ کاروباری خبروں سے مزین اس پندرہ روزہ رسالے کی پانچ ہزار کاپیاں شایع کی جاتی ہیں، جب کہ اس کے قارئین کی تعداد ایک سال میں پچیس ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔
٭ پاکستان میں چینی سرمایہ کاری
چینی صدر ژی جن پنگ نے اپنے دورۂ پاکستان کے دوران6 ارب 45 کروڑ ڈالر کے 51 منصوبوں پر دستخط کیے تھے، جس میں پاک چین اقتصادی راہ داری کے منصوبوں میں8 ارب 33کروڑڈالر توانائی اور8 ارب 11کروڑ ڈالر انفرااسٹرکچر کے شامل ہیں۔ بجلی اور پانی کے15منصوبوں 1320 میگاواٹ کا پورٹ قاسم کول پاور پلانٹ، 50 میگاواٹ کا ہائیڈرو چائنا ونڈ پروجیکٹ، 660 میگاواٹ کا حبکو کول پاور پلانٹ، 50 میگاواٹ کا سچل ونڈ پراجیکٹ، 1320 میگاواٹ کا ساہیوال کول پاور پلانٹ، 300 میگاواٹ کا سالٹ رینج کول پاور پلانٹ، 870 میگاواٹ کا سوکی کناری ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، 720 مگاواٹ کا کاروٹ ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، 100میگاواٹ کا UEP ونڈ پراجیکٹ، 1320میگاواٹ کا SEC تھرکول پاور پلانٹ، 1000میگاواٹ کا قائداعظم سولر پارک، 660 میگاواٹ کا اینگروتھرکول پاور پلانٹ شامل ہیں۔
توانائی کے منصوبوں کوئلے، ہوا، شمسی اور ہائیڈرو کے لیے 5 ارب ڈالر کے مختصر المیعاد کے Early Harvest منصوبے شامل ہیں جو 2017 کے آخر تک 10400 میگاواٹ اضافی بجلی پیدا کرسکیں گے، جب کہ 3 ارب 18کروڑ ڈالر کے طویل المیعاد منصوبے 2021 تک 6120 میگاواٹ بجلی پیدا کرسکیں گے۔ اس طرح ان تمام منصوبوں سے آئندہ 7 سالوں میں مجموعی طور پر 16520 میگاواٹ اضافی بجلی پیدا کی جاسکے گی۔ یہ بات واضح رہے کہ 3 بڑے بینکوں چین ترقیاتی بینک (CDB)، انڈسٹریل اینڈ کمرشیل بینک آف چائنا (ICBC) اور چائنا انفرااسٹرکچر ڈویلپمنٹ بینک (CIDB) نے ان منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے والی ملکی و غیرملکی کمپنیوں کی جانب سے ان منصوبوں کی سیکیوریٹی کے عوض سرمایہ کاری کی ہے۔