میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
تجارتی دباؤ اور نظریاتی غلامی کے شکنجے میں جکڑا ہندوستانی میڈیا

تجارتی دباؤ اور نظریاتی غلامی کے شکنجے میں جکڑا ہندوستانی میڈیا

ویب ڈیسک
جمعرات, ۵ جون ۲۰۲۵

شیئر کریں

افتخار گیلانی

تقریبا تین دہائیوں تک ہندوستان کے مین اسٹریم میڈیا کا حصہ رہنے کے بعد اس کی تنزلی کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔حالیہ ہندوپاک کشیدگی کے دوران جھوٹی خبروں کی یلغار کرکے ہندوستانی میڈیا نے ایسے منظرنامے کی تصویر کشی کی جو تجارتی دباؤ، نظریاتی غلامی، اور نمائشی تماشے کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے ۔ معلوم ہوا ہے کہ دنیا کے کئی میڈیا اداروں نے حالیہ دنوں میں اندرونی ایڈوائزیز جاری کرکے اپنے صحافیوں کو ہندوستانی میڈیا کا حوالہ دے کر خبریں فائل کرتے وقت انتہائی محتاط رہنے کا مشورہ دیا ہے ۔
صحافی ہونے کے علاوہ میں ہندوستان میں میڈیا سے متعلق کئی اداروں سے بھی وابستہ رہا ہوں۔ پارلیمنٹ کی پریس ایڈوائزری کمیٹی کا ڈپٹی چیئرمین، سینٹرل پریس ایکریڈیٹیشن کمیٹی کا ممبر پریس کونسل کے ساتھ وابستگی کے علاوہ میں نے برکس میڈیا فورم میں ہندوستان کی نمائندگی بھی کی ہے ۔اس کے علاوہ پریس کلب آف انڈیا، پریس ایسوسی ایشن اور دہلی یونین آف جرنلسٹس کا بھی عہدیدار رہا ہوں۔ان تجربات کی بنیاد پر یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی عار نہیں ہے کہ ہندوستان میں کبھی بھی میڈیا ایک آزاد اور خود مختار ادارہ نہیں تھا، مگر آزادی کی ایک ظاہری اور موہوم شکل موجود تھی۔ میڈیا کو جمہوریت کا چوتھا استون تو کہا جاتا ہے ، مگر اس کو چلانے والے صحافیوں یا نانـصحافیوں کے نان و نفقہ کا کوئی ڈھانچہ کبھی بھی کھڑا نہیں ہو پایا ہے ۔ پہلے تین ستون یعنی پارلیمنٹ، ایگزیکٹو، عوامی ٹیکس کے دم پر ایک سسٹم کے تحت چلتے ہیں ۔ مگر میڈیا جیسے اہم شعبہ کو اشتہاری اور تجارتی اجارہ داری کے مگرمچھ کے حوالے کردیا گیا ہے ۔
ہندوستان میں اس وقت ایک لاکھ پچاس ہزار کے قریب اخبارات شائع ہوتے ہیں، اس کے علاوہ ملک کے طول و عرض میں 850 سے زائد ٹی وی نیوز چینلز ہیں۔ہندوستان میں اشتہاری معیشت کا حجم نوسو بلین کے لگ بھگ ہے ۔ یہ معیشت اس وسیع میڈیا کو سنبھال نہیں سکتی ہے ۔ دیکھا جائے تو میڈیا کی آمدن کا کوئی پائیدار ماڈل موجود ہی نہیں ہے ۔ اس پر طرہ کہ ٹی آر پی نظام شفافیت سے مبرا ہے ۔ ہندوستان کے ایک سابق وزیر اطلاعات و نشریات منیش تیواری کے بقول اس خامی سے ہی سنسنی خیزی کی دوڑ شروع ہو جاتی ہے ، جس کو مقابلہ جاتی غیرذمہ داری کا بھی نام دیا گیا ہے ۔ جب پورا نظام ہی اشتہارات اور ٹی آر پی پر منحصر ہو، تو سچ کی ہی سب سے پہلے قربانی دی جائے گی۔اس کے عالاوہ ہندوستان میں میڈیا ملکیت کا پیٹرن بھی اس کا ذمہ دارہے ۔ جنوبی ہندوستان کے بنگلور میں دکن ہیرالڈ گروپ کے علاوہ باقی سبھی قومی میڈیا کے ادارے ایک مخصوص طبقہ یعنی بنیا یا ویشیہ کی ملکیت ہیں۔ ان کے دیگر کاروبار ہیں ۔
ہندوستان ٹائمز کے مالکان ہندوستان موٹرس اور کئی دیگر کمپنیاں چلاتے ہیں۔ ٹائمز آف انڈیا کے مالکان دالمیا گروپ آف انڈسٹریز کے بھی مالکان ہیں۔ زی نیوز، ویان اور ڈی این اے کے مالک سھاش چندرا نامی گرامی بلڈر ہونے کے ناطے ایس ایل گروپ کے مالک ہونے کے علاوہ تیس سے زائد کمپنیوں کے مالک ہیں۔ ان کمپنیوں کے مقابلے میڈیا ادراوں سے ان کو نہایت ہی کم منافع حاصل ہوتا ہے ، چند ادارے تو نقصان میں ہی چلائے جاتے ہیں۔ مگر وہ اس کو اپنی طاقت کے بطور استعمال کرکے دیگر بزنس اداروں کے لیے اکثر و بیشتر مراعات حاصل کرتے ہیں۔میڈیا کے زوال کی تاریخ کا اگر جائزہ لیا جائے ، تو پتہ چلتا ہے کہ قومی سلامتی کے حوالے سے ہندوستانی میڈیا میں ہمیشہ ہی حکومت کے ورژن کو ہی حرف آخر تصور کیا جاتا رہا ہے ۔ مگر پھر بھی کسی وقت رگ صحافت پھڑک ہی جاتی تھی۔ کرگل جنگ کے وقت مجھے یاد ہے کہ انڈیا ٹوڈے کی ہریندر باویجا نے وہاں ناگا بریگیڈ کے کیمپ کے گیٹ پر پاکستانی سپاہیوں کے سروں کو بطور وار ٹرافی لٹکانے کی واردات کو رپورٹ کیا تھا۔ اس کے بعد ایک عرصہ تک ان کو کرگل جانے سے منع کر دیا گیا تھا۔ مگر اس کے لیے انہوں نے اپنے صحافتی اقدار کا سودا نہیں کیا۔ جبکہ اس کو رپورٹ کرنے کی سختی سے ممانعت کی گئی تھی۔کم و بیش بڑی حد تک اس جنگ کی رپورٹنگ متوازن ہی تھی۔ لیکن 2014 کے بعد خوف، نظریاتی جبر، اور تجارتی دباؤ نے ادارتی آزادی کو نگل لیا ہے ۔جس سے آج کا میڈیا دراصل ‘پرفارمیٹو جرنلزم’بن گیا ہے ۔یہاں تک کہ نیٹ فلکس جیسے عالمی پلیٹ فارم بھی اب ہندوستان میں خود کو سینسر کر رہے ہیں۔ کوئی نہیں کہتا، مگر خوف اندر تک بیٹھ گیا ہے ۔ ہر سانحہ، ہر خبر، جھوٹ کے سرکس میں کھو جاتی ہے ۔ یہ صحافت نہیں، ایک تماشہ سا بن گیا ہے ، جس سے ہم سب کی معتبریت مجروح ہو گئی ہے۔بین الاقوامی سطح پر ہندوستانی میڈیا کی ساکھ اس قدر متاثر ہو چکی ہے کہ اس کا نقصان سب سے پہلے حکومت کو ہی عالمی سطح پر اٹھانا پڑ رہا ہے ۔ کل جماعتی وفد جو سفارتی مشن پر مختلف ممالک کے دورہ پرہے ، کو یہ ادراک ہو رہا ہے کہ میڈیا نے ملک کی کس قدر سبکی کی ہے ۔
تیواری کے مطابق، دو ہزار سات میں کانگریس کی زیر قیادت یو پی اے حکومت نے میڈیا ریگولیشن کا بل لانے کی کوشش کی، مگر میڈیا ہاؤسز نے شدید مزاحمت کی۔ انہیں ریاستی کنٹرل سے نہیں بلکہ کسی بھی کنٹرول سے پرہیز تھا۔ انہوں نے سیلف ریگولیشن کی وکالت کی، جس کی آئے دن دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ جب تک اشتہارات کے کیبل ایکٹ کی طرز پر اس سیلف ریگولیشن کو کسی قانونی دائرہ میں نہیں لایا جاتا ہے ، تب تک اس کا وجود ہی بے معنی ہے ۔ہندوستانی جمہوریت ایسے میڈیا ہاؤسز بنانے میں ناکام رہی ہے جو کاروباری مفادات سے آزاد ہوں۔ یہی ہندوستانی جمہوریت کا سب سے بڑا المیہ ہے ۔بنیے کا میڈیا آزاد معیشت اور ہندو تو نظریہ کو ضم کر چکا ہے ۔ اب حکومت کو کچھ کرنے کی ضروت ہی باقی نہیں رہ گئی ہے ۔ صحافت کو پیشہ ورانہ بنانے کی ہر کوشش کو میڈیا گروپس نے خود ناکام بنایا ہے ، کیونکہ اب وہ خود ہی صحافتی اسکول بھی چلاتے ہیں اور معیار بڑھانے میں ان کو کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔اگر ایک صحافی کی ضرورت ہے ، تو اس کے لیے بیس کو ایڈمیشن دیتے ہیں، تاکہ مارکیٹ میں ان کی کثرت رہنے سے مسابقت رہے اور ان کو زیادہ تنخواہیں نہ دینا پڑیں۔پاکستان کے ساتھ حالیہ جنگ میں بتایا جاتا ہے کہ حکومت کی طرف سے باضابطہ کوئی ہدایات نہیں تھیں۔ فوج کے سربراہ کا بھی کہنا تھا کہ اس نازک وقت میں ان کا پندرہ فی صد وقت غلط خبروں سے نمٹنے میں صرف ہوا۔پاکستانی شہر ہندوستانی فوج کے قبضے میں آ گئے ، یا اعلیٰ افسران ملک چھوڑ گئے ، یہ نہ تو سرکاری بیانات تھے ، نہ ہی کسی معتبر ذرائع سے تصدیق شدہ۔ یہ دعوے خود میڈیا اداروں نے گھڑے تھے ۔ اور یہ زیادہ خطرناک ہے ۔
جنگی جنون اور حالیہ مس انفارمیشن ایک پیٹرن کا حصہ ہے ، جس میں ، اقلیتوں کے خلاف نفرت، اور سرکاری بیانیے کی اندھی تکرار اور اس سے بھی آگے جاکر شاہ کی وفاداری میں مسابقت کرنااب ایک معمول ہے ۔چونکہ میڈیا کے حالیہ رویہ سے ملک اور حکومت کی سب سے زیادہ سبکی ہوگئی ہے اور بین الاقوامی طور پر ہندوستان کا بیانیہ کتنا ہی سچا کیوں نہ رہا ہو، پٹ گیا ہے ، اس لیے ضرورت ہے کہ سنجیدگی کے ساتھ میڈیا کے اصلاحات کا بیڑا اٹھایا جائے ۔ ایک بڑی جمہوریت ہونے کے ناطے یہ خطہ نے دیگر ممالک کے لے بھی مشعل راہ ہوسکتے ہیں۔
نہ صرف میڈیا کی ملکیت کے حوالے سے شفافیت ہونی چاہیے بلکہ کراس ہولڈنگ پر بھی پابندی ہو۔ جو براڈکاسٹر ہے ، وہ پروڈیوسر نہ ہو۔ ایک آزاد میڈیا کونسل کی بھی اشد ضرورت ہے ، جو خود مختار اور سبھی سیاسی جماعتوں پر مشتمل ادارہ ہو۔ اس میں کسی ایک پارٹی کا غلبہ نہیں ہونا چاہیے ۔ یہ ادارہ ہمہ وقت معیار، اشتہارات کی نگرانی کے علاوہ احتساب کا بھی کام کرے ۔کئی میڈیا کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دو ہزار چودہ کے بعد میڈیا نے جس طرح کی مثال قائم کی ہے ، اگر وزیر اعظم مودی کی حکومت اقتدار سے باہر بھی ہو جاتی ہے ، توبھی آئندہ آنے والی حکومتوں کے لیے بھی ایک نظیرقائم کی گئی ہے ۔ وہ بھی میڈیا کی اسی طرح کی تابعداری کی توقع کریں گے اور اگر کوئی ادارہ اس سے انکار کرے گا تو اس کو اسی طرح بھگتنا پڑے گا۔
دی وائر کی ایڈیٹر سیما چشتی نے حال ہی میں معروف قانون دان کپل سبل کے ایک پروگرام میں کہا کہ سیاست دانوں نے سیکھ لیا ہے کہ میڈیا پر جتنا دباؤ ڈالو وہ اتنامطیع رہے گا۔ اب کوئی بھی پاور میں آئے گا تو وہ جمہوریت کے اس چوتھے ستون کو غلام بنانے پر پورا زور صرف کرے گا۔اندرا گاندھی کے ذریعے ایمر جنسی لگانے کے بعد 1977 میں جب ایل کے اڈوانی وزیر اطلاعات و نشریات مقرر ہوئے ، تو انہوں نے ہندوستانی میڈیا پر طعنہ کستے ہوئے کہا کہ ان کو رکوع کرنے کے لیے کہا گیا تھا مگر وہ پیٹ کے بل لیٹ گئے ۔ موجودہ میڈیا کے حوالے سے اب کیا کہا جاسکتا ہے ۔ وہ لیٹنے کے عمل کو بھی پیچھے چھوڑ چکے ہیں۔سبل کے مطابق یہ صرف میڈیا کا نہیں، بلکہ جمہوریت کے وجود کا مسئلہ ہے ۔ جب سچ کی جگہ جھوٹ، اور احتساب کی جگہ تماشا لے گا، توملک ایک ہیجان زدہ قوم کا مسکن بن جائے گا، جو پورے خطے کے لیے خطرناک اور پریشان کن صورتحال ہے ۔
ہندوستان کا میڈیا ایک باخبر عوام کے بجائے قوم کو ایک ہیجان زدہ جنونیوں کے قالب میں ڈھالتا جا رہا ہے ۔دنیا بھر کے ذی ہوش اور ذی حس افراد کو اس کا نوٹس لینے کی ضرورت ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں