
سیاست کے طلسماتی کردار
شیئر کریں
آواز
۔۔۔۔
ایم سرورصدیقی
بچپن میں ایک کہانی پڑھی تھی ایک مفلوک الحال مزدوری کی تلاش میں کہیں جارہا تھا کہ ایک بزرگ کو زخمی حالت میں دیکھ کر اسے بڑا ترس آیا اس نے بزرگ کا زخم صاف کیا ،پانی پلایا اور اپنے پاس موجود روکھی سوکھی روٹی کھلائی اس خدمت سے وہ بزرگ بہت خوش ہوئے اس کی نیکی کی تعریف کی پھر مفلوک الحال کے حالات سنے ۔بزرگ نے خوش ہوکر اسے ایک عجیب و غریب پتھر تحفہ میں دیدیا۔۔یہ کیاہے ؟ مفلوک الحال نے دریافت کیا ۔ ” یہ پارس پتھر ہے” بزرگ نے جواب دیا ،تمہاری نیکی کا انعام ۔ انسان کی خدمت کا صلہ۔۔یہ پتھرجس چیزکوبھی چھولے وہ سونے کی بن جائے گی ۔یوں مفلوک الحال بہت امیر بن گیا اور اس دولت سے کم وسائل رکھنے والوں کی خدمت کرنے لگا ۔
یہ کہانی جب بھی یاد آتی سوچ میں گم ہو جاتا کہ وہ شخص کتنا خوش قسمت ہوگا۔ وہ جس چیزکو چاہے سونے جیسی بنا سکتا تھا۔پھر خیال آتا وہ بزرگ کیا چیز تھا جس نے پارس پتھر جیسی چیز تحفتاً دیدی ۔پھر سو چاکیا کوئی انسان بھی پارس جیساہو سکتاہے وہ جس کو بھی چھو لے سونابن جائے ۔ ۔۔پاسے کا سونا۔۔دل نے کہا ایسے کئی انسان تو آج بھی ہمارے اردگر موجودہیں اورہم انہیں جانتے بھی ہیں۔ شاید انہیں خود بھی معلوم نہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں پارس جیسی خوبیوں سے نواز رکھاہے اور وہ جسے چاہیں سچا،سچا اور کھرا سونا بنا ڈالیں۔ پاکستان کے قومی رہنماؤں پر نظردوڑائی جائے تو محسوس ہوگاکہ ذوالفقار علی بھٹو میاں نواز شریف اور عمران خان تین شخصیات ایسی ہیں جن کی شخصیت کااعجاز پارس کی مانندہے انہوں نے سیاست اور اندازِ سیاست کو بدل کر رکھ دیا۔دونوں کی آمد تہلکہ خیزتھی اسے سیاسی بھونچال بھی کہا جا سکتاہے۔ تینوں قومی رہنماؤں میں کچھ نہ کچھ مماثلت ضرورہے لیکن کئی قدریں مشترک بھی ۔۔ ان کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہوں نے اپنے دور ِ اقتدار میں جو چاہا وہی کیاجسے پسندکیا، اسے پارٹی ٹکٹ دیا جسے چاہایک جنبش فارغ کردیا۔ حتی کہ اپنے وقت کے بڑے قدآور سیاستدانوں کو گھر بٹھادیاکہ بیٹھے رہو تصور ِ جاناں کئے ہوئے ۔ملکی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹوایسی طلسماتی شخصیت کے مالک تھے کہ عوام ان کے گردکھینچے چلے آئے انہوں نے اگر کھمبے تو ٹکٹ دیا تو کھمبا جیت گیاکم و بیش ایک دہائی تک عوام ،سیاست اور جمہوریت پر ان کا جادو سرچڑھ کر بولتا رہا بلکہ ان کے بعددو مرتبہ ان کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر ٍ اعظم اور ایک مرتبہ داماد آصف علی زرداری صدرِ پاکستان کے عہدے پر فائز رہے۔ جبکہ بلاول بھٹو زرداری بھی آئندہ وزیر اعظم کے مضبوط امیدوار ہو سکتے ہیں۔ قومی سیاست کے دوسرے طلسماتی کردار میاں نواز شریف ہیں جن پر ”آیا۔ اور چھا گیا”کا مقولہ بالکل صادق آتاہے۔ انہیں کئی اعزازات حاصل ہیں۔ میاں نواز شریف جب میدان ِ سیاست میں آئے اس وقت تک پنجابی وزیر ِ اعظم کا سوچنا بھی گناہ سمجھا جاتا تھا لیکن ان کی فہم و فراست اور سیاسی حکمت ِ عملی نے ناممکن کو ممکن کردکھایا۔ کہا جاتاہے اس میں اسٹیبلشمنٹ کا بہت بڑا کردارہے جو بھی عوامل ہوں بہرحال اس کا کریڈٹ میاں نواز شریف کو بھی جاتاہے کہ پاکستان کی تاریخ کے پہلے پنجابی وزیرِ اعظم بنے انہیں یہ بھی اعزازہے کہ تیسری بار وزیر ِ اعظم بننے والے وہ پہلے اور شاید آخری قومی رہنما ہیں۔ میاں نوا زشریف بلا شبہ مقبولیت کی اس معراج پر تھے کہ ان کا نام جس سے جڑ جائے معتبرہو جاتاہے ۔پارس ہونے کے معانی بھی یہی ہیں لیکن شاید انہیں اپنی اس خوبی کا احساس ہی نہیں ہوا یا پھروہ ایسا کرنا نہیں چاہتے ۔1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو نے نومولود پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا۔بڑے بڑے چہروں کے مقابلے پرپی پی پی کے امیدوار ایسے تھے جن کو محلے میں بھی کوئی نہیں جانتا تھا بلکہ لوگ انہیں مذاق کرتے تھے نتیجہ آیا تو بڑے بڑے برج الٹ گئے ۔یوں سمجھئے سیاسی انقلاب آگیا۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پارس جیسی شخصیت نے غیر معروف امیدواروں کو سونا بنا ڈالا اصلی اور کھرا گولڈ۔امیدواروں کی شخصیت، سیاسی جدوجہد، خاندانی پس منظر سب مائنس ہوگئے۔ بھٹوکا نام جس نام کے ساتھ نتھی ہوگیا معتبرہوگیا۔ان کے بعدقدرت نے میاں نواز شریف کو بھی اسی خوبی سے نوازا وہ ایک طاقتور لیڈر بن کر ابھرے آپ تیسری مرتبہ وزارت ِ عظمیٰ پر فائز رہے۔2013ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کے امیدواروں کے مقابلے میں نامی گرامی سیاستدان ہار گئے نااہلی کے باوجود میاں نواز شریف آج بھی سیاسی طورپر مقبول ترین سیاسی رہنما ہیں۔ 2013ء کے انتخابات میں مسلم لیگ ن کے متعدد ایسے امیدوار بھی اسمبلیوں میں پہنچ گئے ہیں جو عام حالات میں شاید کونسلر بھی بننے کی پوزیشن میں نہیں ہیں اور حامدناصرچٹھہ ،ہمایوں اختر خان،امیر مقام،اقبال ظفر جھگڑا،چوہدری شجاعت حسین،چوہدری امیرحسین،لیاقت بلوچ،ممتاز بھٹو،عابدہ حسین، فخر امام،فیصل صالح حیات،شیرپاؤ جیسے رہنما موجودہ پارلیمنٹ سے باہرہوگئے ۔ لاہورمیں ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ لے کر کامیاب ہونے والے بیشتر سیاستدانوں کے ساتھ شیر کا نشان ہٹا دیا جائے تو یقین جانیے ٔ لوگ انہیں بلی ماننے سے بھی انکارکردیں گے۔ بھٹوکے بعد میاں نواز شریف اور عمران خان ایسے قومی رہنما ہیں جنہوں نے اگر کھمبے تو ٹکٹ دیا تو کھمبا جیت گیا یعنی امیدواروں کی شخصیت، سیاسی جدوجہد، خاندانی پس منظر سب مائنس ہوگئے لیکن میاں نوازشریف کی چوتھی بار وزیر ِ اعظم بننے کی خواہش حسرت میں بدل گئی ہے۔ بہرحال ایسے لیڈروں سے بھی لوگ مایوس ہونے لگیں تواسے غورکرنا چاہیے کہ ان میں کیا کیا خامیاں ہیں۔ یہ بھی کہا جاتاہے جس لیڈر پر اللہ کا اتنا کرم ہوکہ اس کا نام ہی کامیابی کی ضمانت بن جائے ۔وہ جس کو اپنا بنالے دنیا اسی کی دیوانی ہو جائے اور جس کا نام جس کے ساتھ جڑ جائے وہی نام معتبرہو جائے تواسی لئے آج عمران خان پاکستان کی سیاست کا محور و مرکز بنے ہوئے ہیں۔
بلاشبہ وہ آج اس مقام پر ہیں جس کی خواہش کرتے کرتے سیاستدان اس دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ یہ مقام انہوں نے اپنی انتھک محنت، کوشش اور سماجی ورک سے بنایا ہے۔ کہاجاتاہے اس کے پیچھے ان کی 22سالہ جدو جہد شامل ہے۔ پاکستان میں قیادت کے فقدان اور2سال سے زیادہ جیل میں ہونے کے باوجود آج دور ِ حاضرکے سیاستذانوں میں وہ مقبولیت کی معراج پر ہیں۔ وہ پہلے پاکستانی قومی رہنما ہیں جو بیک وقت 5مقامات سے الیکشن میں تاریخی انداز میں کامیاب ہوئے ان پر مختلف نوعیت کے سینکڑوں مقدمات درج ہیں۔ ان کے کئی مخالف سیاستدان فضل الرحمن،شاہد خاقان عباسی جیسے لوگ آج تلک حیران پریشان ہیں کہ وہ کیسے ہار گئے ۔ ملک کے واحد اپوزیشن لیڈر ہونے کی وجہ سے تحریک ِ انصاف کے بانی عمر ان خان کی مقبولیت بڑھنے کا امکان ہے۔ ان کے حامیوں کا کہناہے عمران خان نے عالمی سطح پر حضور ِ اکرم ۖ کی حرمت کا مسئلہ اجاگر کر کے دنیا کو بتادیاہے کہ نبی مکرم ۖ کی محبت کے بغیر مسلمانوں کا ایمان ادھورا ہے ۔ موصوف کے کروڑوں حامیوں کاموقف ہے عمران خان کانام جس کے ساتھ جڑ جائے وہ معتبر ہو جاتاہے ۔بلاشبہ مقبولیت، عزت ، حکومت سب اللہ کی دین ہے وہ جسے چاہے عزت سے نوازے۔ غورکریں تو محسوس ہوگا اللہ کا کرم و فضل در حقیقت ایک امتحان بھی ہوتاہے جو اس کسوٹی پر پورا اتریں و ہی تاریخ میں امر ہوجاتے ہیں۔ ورنہ پاکستان کی جمہوریت میں تو ”سیاسی خداؤں” کی کوئی کمی نہیں۔ زمین ان سے بھری پڑی ہے جو اپنے سامنے کسی کو دم مارنے کی اجازت بھی نہیں دیتے اتنے مقبول و ہردلعزیز رہنماؤں کے دور ِ حکومت بھی غربت کے مارے اپنے لخت ِ جگر فروخت کرنے لگیں ۔اگر کسی کو اپنے گردے بیچنے پڑیں۔۔۔یا جنسی درندے روز عزتوں کے جنازے نکالیں یا غربت سے تنگ مائیں اپنی اولادکو قتل کرنے پر مجبور ہو جائیں تو اسے سو چنا چاہیے کہ خرابی کہا ں ہے ؟اور ا صلاح ِ احوال کیلئے کیا کرنا چاہیے ؟ بلند بانگ دعوے ، خیالی پلاؤ، حکمت کے بغیرپلاننگ سے کچھ نہیں ہونے والا۔ لوگوں کی اکثریت کا خیال ہے عمران خان جتنے دبنگ لیڈرہیں ! اللہ تعالیٰ مسلم امہ کی بہتری کیلئے آپ سے کوئی خاص کام لینا چاہتا ہے۔ اسی لئے انہوں نے عالمی فورم پر کئی بار مسلمانوں کا مقذمہ بڑی جرأت سے پیش کرکے داد ِ تحسین سمیٹی ۔یقینا اللہ نے تبھی عمران خان کو پارس جیسی خوبیوں سے نوازاہے۔ آپ کے انقلابی اقدامات، ٹھوس منصوبہ بندی،بہتر حکمت ِ عملی اس قوم کو سونا بنا سکتی ہے وہ ملک وقوم کے لئے بہت کچھ کرنے کا عزم بھی رکھتے ہیں لیکن ان کے مخالفین عمران خان کو یہودی ایجنٹ ، 9مئی کا اصل مجرم اور ملک غدار قرار دیتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہناہے کہ عمران خان نے سیاست کاکلچر خراب کرکے رکھ دیاہے۔ اب معلوم نہیں عمران خان کے بارے میں ان کے نظریات کس حد تک درست ہیں لیکن عمران خان جیسا حکمران اور مقبول ترین لیڈر کون بننا پسند کرے گا ؟فی الوقت عمران خان اور ان کی جماعت پی ٹی آئی پر کڑا وقت ہے۔ 9مئی اور26نومبر2024ء کے سانحات نے پی ٹی آئی کے کارکنوں کا سخت امتحان لیا ہے ۔آج کچھ لوگ عمران خان کو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ محاذ آرائی کی بجائے مذاکرات کا مشورہ دے رہے ہیں تاکہ مفاہمت سے مسائل حل کئے جاسکیں۔ ویسے قارئین آپ کا کیا خیال ہے ؟ عمران خان کو ان حالات میں کیاکرنا چاہیے ؟ یہ فلسفہ کسی کی سمجھ میں آجائے تو وہ ضرور بتادے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔