پاکستان کا پائیڈ پائپر
شیئر کریں
راؤ محمد شاہد اقبال
اگر آپ نے ہیملن کے پائیڈ پائپر کی لوک کہانی کبھی نہیں سُنی تو پھر آپ شاید سمجھ ہی نہ سکیں کہ عمران خان نے 9 مئی کو وطن عزیز کے معصوم نوجوانوں کو کس گہری کھائی میں دھکیلنے کی کوسازش کی تھی ۔یا د رہے Pied Piper انگریزی زبان کا لفظ ہے ،جسے ہم اُردو زبان میں بانسری بجانے والا بنجارہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔کہا جاتاہے کہ ایک زمانے میں ہیملن نامی قصبے میں اناج کی فراوانی اور وہاں رہنے والے لوگوں کی لوگوں کی تن آسانی کے باعث پورے قصبے میں چوہوں کی بہتات ہوگئی تھی۔ سڑکیں چوہوں سے بھر گئیں اور ہر جگہ ، گھروں میں ،گلیوں بازاروں میں ، یہاں تک کھانے کی دُکانوں میں بھی چوہے ہی چوہے گھومتے نظر آتے تھے ۔ قصبے کے لوگوں نے پریشان کن چوہوں سے چھٹکارا حاصل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ، لیکن کوئی بھی ترکیب کارگر ثابت نہ ہوسکی اور ہر گزرتے دن کے ساتھ چوہوں کی تعداد میں کمی ہونے کے بجائے اُن کی افزائش میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔ ایک دن قصبے میںایک پراسرار آدمی نمودار ہوا۔وہ رنگ برنگے لباس میں ملبوس تھا اور اس کے ہاتھ میں چاندی کی بہت خوب صورت بانسری تھی ۔ اُس نے قصبے والوںسے اپنا تعارف پائیڈ پائپر کے طور پر کروایا اور دعویٰ کیا کہ اگر قصبے کے مقتدر لوگ اُسے مناسب تعداد میں سونے کے سکے دیں تو وہ ہیملن کو بالکل ایک نیا ہیملن بنادے گا اور قصبے کو قیمتی اناج کھانے والے تمام چوہوں سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نجات دلادے گا۔
ہیملن ک لوگ جو چوہوں سے پہلے ہی بہت زیادہ تنگ تھے انہوں نے اِس شرط پر پائیڈ پائپر کو سونے کے چند سکے ادا کرنے پر اتفاق کرلیاکہ وہ قصبے کو موذی چوہوں سے چھٹکارا دلائے گا۔پائیڈ پائپر نے چاندی کی خوب صورت بانسری اپنے لبوں سے لگاکر بجانا شروع کردی ۔ بانسری سے نکلنے والی مدھر دُھن سُن کر چوہے پائیڈ پائپر کے پیچھے آنے لگے ۔وہ چوہوں کو قصبے سے باہر بہنے والے دریا تک لے گیا اور یوںسب چوہے دریا میں ڈوب گئے۔ قصبے کے لوگ یہ دیکھ کر بہت خوش ہوئے کہ آخر کار اُنہیں چوہوں سے نجات مل گئی اور انہوں نے پائیڈ پائپر کو بطور مسیحا کے اپنے قصبے میں خوش آمدید کہا ۔ مگر لوگوں کی زبردست پزیرائی نے پائیڈ پائپر کو خبط عظمت میںمبتلا کردیا اور اُس نے قصبے والوں سے طے شدہ سونے کے سکوں کے علاوہ بھی بہت کچھ دینے کا مطالبہ کر دیا۔ جب ہیملن کے لوگوں نے پائیڈ پائپر کی فرمائش پوری کرنے سے انکار کردیا تو اُس نے ہیملن کے باسیوں کو سبق سکھانے کے لیے بانسری اپنے لبوں سے لگاکر ایک خوف ناک دُھن بجائی ،جس نے قصبے کے تمام بچوں کو مسحور کر کے رکھ دیا اور وہ پائیڈ پائپر کے پیچھے پیچھے چلنے لگے ۔قصبے والوں نے بچوں کو بہت سمجھایا ، آوازیں بھی دیں مگر بچے پائیڈ پائپر کے پیچھے چلتے گئے ۔یہاں تک وہ انہیں ہیلمن سے باہر ،کھیتوں اور ندیوں کے بھی پار لے کر غائب ہوگیا۔
اگر تھوڑا سا غور کریں تو آپ کو پائیڈ پائپر کی کہانی اور عمران خان کی سیاست کئی نازک مقامات پر بالکل ہوبہواور یکساں دکھائی دے گی ۔مثال کے طور پر ہیملن کی طرح پاکستان بھی طویل مدت سے بدعنوانی سے چھٹکارا پانے کے لیے کسی مسیحا کی تلاش میں تھا۔ پھر ایک دن واقعی دیارِ مغرب کی گلیوں میں کھیل کھیلنے والا ایک چالاک کھلاڑی ملک کو بدعنوان عناصر سے پاک کرنے کا نعرہ لے کر نمودار ہوا۔ جسے پاکستانیوں نے ہاتھوں ہاتھ لیا اورخوشی خوشی اِسے اپنے ملک کی زمامِ اقتدار بھی تھمادی ۔ مگر حکومت ملنے کے بعد اپنے ساڑھے تین سالہ دورِ اقتدار میں عمران خان نے صرف ایک کام کیا اور وہ یہ کہ اپنی ساری قوت پوری تندہی کے ساتھ ملک کے نوجوانوں کے نوخیز اذہان میں تہذیبی روایات اور سماجی اخلاقیات کے خلاف نفرت اور بغاوت کے بیچ بونے میں صرف کردی۔ نوجوانوں کے ذہنوں کو آلودہ اور پراگندہ کرنے کے لیے بیرونِ ملک سے شہباز گل اور شہزاد اکبر جیسے گوہرِنایاب بھاری معاوضہ پر درآمد کیے گئے ۔ حد تو یہ ہے کہ عمران خان کو مقامِ پرستش پرمتمکن کرنے اور اُنہیں ایک الوہی اور لافانی اوتار بنانے کے لیے بعض مذہبی اصطلاحات کے سہارا لے کر مذہبی تقدیس میں لپٹا ہوا بیانیہ بھی خاص طو ر پر تراشا گیا اور مذکورہ بیانیے کو چہار دانگ عالم میں پھیلانے کے لیئے حکومتِ پاکستان کے سرکاری خرچ پر ہزاروں سوشل میڈیا انفلونسرز بھرتی کرکے قومی خزانے کو بے دردی سے مال مفت ،دلِ بے رحم کی مانند لوٹا گیا۔المیہ ملاحظہ ہو کہ یہ سب کچھ فقط اِس لیئے کیا گیا کہ وطن عزیز پاکستان کا اقتدار ِ اعلیٰ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے عمران خان کی جھولی میں آگرے۔
ہم بڑے فخریہ انداز میں کہتے ہیں کہ پاکستان دنیا میں نوجوانوں پر مشتمل سب سے بڑی افرادی قوت رکھنے والا ملک ہے ۔یقینا یہ بات ایک حد تک بالکل درست بھی ہے کہ پاکستان کی 64 فیصد آبادی کی عمر 30 برس سے کم ہے۔لیکن ہم ایک بہت ہی اہم بات بھول جاتے ہیں کہ نوجوانوں کو سماج کے لیے کارآمد کُل پرزہ بنانے کے لیئے مناسب تعلیم و تربیت ،موافق مکالمہ کی فضا اورتہذیبی اقتدار سے روشناس کروانے کی بھی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ تب کہیں جاکر یہ نوجوان ملک کے قیمتی اثاثے میں ڈھل پاتے ہیں۔ مگر ہم نے کیا کیا کہ اپنے قیمتی نوخیز نوجوانوں کے ذہنوں کو پہلے انتہاپسند مذہبی جنونیوں کے حوالے کردیا اور بعدازاں انہیں ایک ایسے 70 سالہ کھلاڑی کو دان کردیا ،جس کی اپنی ساری زندگی خانگی سانحات اور زبوں حالی کی وجہ سے افراط و تفریط کا شکار تھی۔ اقتدار کی ہوس میں مبتلا ایک پریشان خیال ،مایوس شخص اپنا اقتدار چھن جانے کے بعد جذبہ انتقام کا اسیر ہوکرغصے میں جوکرسکتاتھا ، عین وہی سب کچھ اُس نے کیا ۔یعنی ہیملن کے پائیڈ پائپر کی طرح وطن عزیز کے نوجوانوں کو اپنے کذب بیانیہ کا اسیر بنا کر 9 مئی کو ریاست پر حملہ آور ہونے کا حکم دے دیا۔
وہ تو پاکستان کی خوش قسمتی اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کا خاص فضل و کرم تھا کہ ملک دشمن عناصر کے تمام معاندانہ عزائم کو ریاستی اداروں نے بروقت حرکت میں آکر ناکامی سے دوچار کردیااور ہمارے نوجوانوں کو حقیقی آزادی کے جھوٹے جھانسہ میں پھنسنے سے بچا کر اُن کے مستقبل کو تباہ و برباد ہونے سے بچالیا۔ گو کہ ابھی بھی بہت سے عاقبت نا اندیش نوجوان” عمرانی انقلاب ”کی سحربیانی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں اور ان کے شعور پر چھایا ہوا جھوٹا عمرانی طلسم توڑنے کے لیے ازحد ضروری ہے کہ ریاستی ادارے 9 مئی کے حقیقی ماسٹر مائنڈ کو اپنی گرفت میں لے کر واشگاف الفاظ میں واضح پیغام دیں کہ پاکستانی پائیڈ پائپر کی سازشی بانسری کو مکمل طور پر نیست و نابود کیا جاچکا ہے ۔ فقط یہ خوش خبری ہی ہمارے ،بیمار نوجوانانِ پاکستان کی ذہنی صحت کی بحالی کا باعث بن سکتی ہے۔
٭٭٭