صدر نے نیب، الیکشن ترمیمی بل بغیر منظوری کے واپس بھجوا دیے
شیئر کریں
صدر ڈاکٹر عارف علوی نے 26 مئی کو قومی اسمبلی اور 27 مئی کو سینیٹ سے منظور ہونے والے نیب ترمیمی بل اور الیکشن اصلاحات بل نظر ثانی کے لیے حکومت کو واپس بجھوا دیے ہیں۔خیال رہے کہ گزشتہ دنوں پارلیمنٹ نے الیکشن ترمیمی بل2022 کے تحت ای وی ایم اور اوورسیز ووٹنگ کو ختم کیا تھا جبکہ نیب ترمیمی بل کے ذریعے نیب کے اختیارت کم کیے تھے۔ایوان صدر کی جانب سے جاری بیان کے مطابق صدر مملکت نے بلز واپس بھیجتے ہوئے کہا ہے کہ صدر مملکت کو قانون سازی کی تجاویز سے متعلق اطلاع نہ دے کر آئین کے آرٹیکل 46 کی خلاف ورزی کی گئی اور دونوں بل جلد بازی میں منظور کیے گئے۔ ان بلز سے معاشرے پر پڑنے والے اثرات کے لیے قانونی ماہرین اور سول سوسائٹی سے مشاورت کرنی چاہیے۔الیکشن ترمیمی بل سے متعلق صدر مملکت نے کہا کہ سمندر پار پاکستانی محنت سے کمائی ہوئی دولت کے ذریعے ملکی ترقی و خوشحالی میں اپنا کردار کرتے ہیں۔ سپریم کورٹ نے بھی 2014 اور 2018 میں سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ کے حق کی توثیق کی، ٹیکنالوجی میں بہتری لا کر بیرون ملک سے پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ عدالت کی جانب سے کیے گئے فیصلے میں آئی ووٹنگ کو تھرڈ پارٹی کی جانب سے محفوظ اور قابل بھروسہ قرار دیا جا چکا ہے اور آئین کے آرٹیکل 17 میں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو ووٹ کا حق بھی دیا گیا ہے۔ پاکستان کی ووٹنگ مشین میں پیپر ٹریل کا پورا نظام موجود ہے اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین پیپر سے گنتی میں مدد دیتی ہے۔انہوں نے کہا کہ نئی ترامیم ایک قدم آگے جانے اور گھبرا کر دو قدم واپس پلٹ جانے کے مترادف ہیں اور یہ ترامیم الیکشن میں شفافیت اور بہتری لانے کے تکنیکی عمل میں غیر ضروری تاخیر کرنے کے مترادف ہیں۔ پارلیمنٹ ان بلز میں مزید بہتری لا کر نفاذ یقینی بنائے۔نیب ترمیمی بل سے متعلق صدر عارف نے کہا ہے کہ نیب قوانین میں ترمیم سے بارِ ثبوت استغاثہ پر ڈال کر اسے 1898 کے فوجداری قوانین جیسا بنا دیا گیا ہے، نیب قانون میں ترامیم سے استغاثہ کے لیے کرپشن اور سرکاری اختیارات کے غلط استعمال کے الزامات ثابت کرنا ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ نیب قانون میں ترامیم سے پاکستان میں احتساب کا عمل دفن ہو جائے گا اور یہ ترامیم اسلامی فقہ کی روح کے بھی خلاف ہیں۔ ان سے غیر قانونی اثاثوں کی منی ٹریل حاصل کرنا ناممکن ہو جائے گا اور یہ ترامیم منظور کرنے سے عدالتوں میں بڑے کرپشن کے کیسز بے معنی ہو جائیں گے۔ کرپشن کے خاتمے کیلئے احتساب کے عمل کو مزید مضبوط ہونا چاہیے تھا۔