پاکستان کو”او ایل ایکس“بننے سے بچائیں!
شیئر کریں
ملک ریاض اور اب یہ عظمیٰ خان!! الحفیظ الامان!!
قومیں کردار سے بنتی ہیں۔پاکستان کو او ایل ایکس نہ بننے دیں، حضرت علامہ اقبالؒ نے خبردار کیا تھا، خدا کی بستی دُکاں نہیں ہے! آگے فرمایا:
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہوگا
آسان دولت نے پاکستان کی سماجی اقدار کو چاٹنا شروع کردیا۔ ہم قومی ریاست کو بتدریج ایک ایسی سطح پر لے گئے جہاں ہر چیز سیاست کی پست سطح پر نفع نقصان کے تناظر میں طے ہوتی ہے۔ صحیح و غلط اور حق وباطل کا کوئی تناظر موجود نہیں۔ البتہ باتیں بہت ہیں۔ یہ ملک ایسا نہ تھا،ہمارے خوابوں کی سرزمین وطنِ عزیز کو ایسا نہیں بننے دینا چاہئے۔ ملک ریاض اور اُن کی بیٹیوں سے جڑا اداکارہ عظمیٰ خان کا تنازع وتصفیہ بنیادی طور پر ہمارے”قومی کردار“ کا عکاس ہے۔ یہ قومی کردار اس معاشرے کا حقیقی کردار نہ تھا، یہ اس پر مسلط کیا گیا، اور اب پورا معاشرہ اس رنگ میں رنگا جاتا ہے۔ ہمارا قومی کردار کیا ہے؟ سیاست کی ارذل سطح پر سماجی اقدار کی بھینٹ دینے کا نتیجہ یہ نکلا کہ یہاں ہر چیز”برائے فروخت“ بن چکی ہے۔ یہ ریاست ایک بہت بڑی فروخت گاہ ”او ایل ایکس“ کا منظر پیش کرنے لگی ہے۔اداکارہ عظمیٰ کا معاملہ تھوڑا سا التوا ء میں ڈالتے ہیں، پہلے اس ”تعارف“کے گھناؤنے پن اور اہانت و رکاکت کو سمجھ لیتے ہیں جو ہماری قومی کردار کے ساتھ چسپاں کردیا گیا۔
ورجینیا میں واقع امریکی سی آئی اے کے ہیڈ کوارٹر کے باہر 25/ جنوری 1993ء کو ایک کار پر فائرنگ کا واقعہ پیش آیا، جس میں سی آئی اے کے دو اہلکار ہلاک اور تین زخمی ہوگئے تھے۔ امریکی اس واقعے کے الزام میں صوبہ بلوچستان کے ایک تعلیم یافتہ نوجوان ایمل کانسی کو جون 1997ء میں پاکستان سے گرفتار کرکے لے گئے، ایمل کانسی کی گرفتاری اور امریکا حوالگی کے لیے قانونی تقاضوں کو پورا نہیں کیا گیا۔ امریکا میں اس نوجوان کو 14/ نومبر 2002ء کو پھانسی دے دی گئی۔ ایمل کانسی کی گرفتاری کیسے ہوئی؟ پاکستان میں یہ حمیت اور قانون کا نہیں سیاست کا موضوع بنا۔ وزیراعظم بے نظیر بھٹو اورصدر مملکت فاروق لغاری کے درمیان جاری اختلافات میں ایمل کانسی کی گرفتاری کے حوالے سے فاروق لغاری کو موردِ الزام ٹہرانے کے لیے مخصوص حلقوں سے پروپیگنڈے کا ایک طوفان اُٹھا۔ اس معاملے میں ہمارے”قومی کردار“پر ایک انتہائی شرمناک فقرہ ورجینیا کے سرکاری وکیل نے تب کہا: پاکستانی پیسے کے لیے اپنی ماں کو بھی بیچ دیتے ہیں“۔ یہ شرمناک فقرہ ایسا تھا کہ پاکستان کو امریکا سے اپنے ہر قسم کے تعلقات پر نظرثانی کا آغاز کردینا چاہئے تھا۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ بعد کے ایام میں پاکستان امریکا کے تعلقات میں سب کچھ پیسے سے ہی چلا۔ باب وڈورڈ نے اپنی کتاب ”Obama’s Wars“میں بھی پاکستان سے امریکی تعلقات اور پیسوں کی تال میل کے حوالے سے روشنی ڈالی ہے۔ ریمنڈ ڈیوس کا قصہ ابھی تک ہمارے ذہنوں پر کچوکے لگاتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کا 19/ نومبر 2018 کاٹوئٹ بھی یاد کرلیجیے!
”ہم پاکستان کو اربوں ڈالر اس لیے نہیں دیتے کہ وہ پیسے لے لیں اور کرے کچھ نہیں۔ بن لادن اس
کی بڑی مثال ہے اور افغانستان ایک اورمثال۔ وہ ان متعدد ممالک میں سے ایک ہے جو امریکا سے لیتے
تو ہیں لیکن جواب میں دیتے کچھ نہیں۔ یہ اب ختم ہو رہا ہے“۔
ہمیں لوگ ایسا کیوں سمجھتے ہیں؟ آزاد ملک ہی اپنا قومی کردار تشکیل دے پاتے ہیں۔ ورنہ یہ ہنڈولے کی طرح ڈولتا رہتا ہے۔ فرانسیسی سیاسی نظریہ ساز اور انیسویں صدی کی مصنفہ Anne de stael نے لکھا تھا:
.Only a free nation has a national character
اب اس پر مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، ایک برائے فروخت کردار ہماری قومی شناخت سے چپک چکا ہے۔ انفرادی اور اجتماعی سطح پر ہر جگہ سب کچھ لین دین سے طے ہوتا ہے۔ یہی بدقسمتی ملک ریاض کی بیٹیوں کے اداکارہ عظمیٰ خان سے تنازع میں بھی چھائی رہی۔ اگرچہ اس کے اسباق کچھ اور بھی ہیں۔
ٓ اداکارہ عظمیٰ خان کے گھر حملہ آورملک ریاض کی بیٹیوں کی ایک ویڈیو گزشتہ دنوں سوشل میڈیا پروائرل ہوئی، پہلی بدقسمتی یہ ہے کہ سوشل میڈیاکی آب وہوا کو ہمارے معاشرتی مزاج کا متبادل سمجھ لیا گیا ہے، چنانچہ سوشل میڈیا پررائج رجحانات (ٹرینڈز)ہمارے قومی مباحث کا حوالہ بننے لگے ہیں۔ یہاں تک کہ ان رجحانات کی تشکیل پر ہماری ذہانتیں، صلاحیتیں اور وسائل جھونکے جانے لگے ہیں۔ اتنی کھوکھلی، پوپلی اور بھربھری سوچ کا چلن انسانی سماج میں شاید ہی کبھی رہا ہو۔ سوشل میڈیا پر مختلف رجحانات نے ملک ریاض کی بیٹیوں اور اداکارہ کے حوالے سے قومی مباحث اور بیانیوں کی تشکیل کی پنجہ آزمائی شروع کردی۔ سب اپنا اپنا لچ تلنے لگے۔ ایک لبرل عورت کو اس پر غصہ تھا کہ اداکارہ نے ویڈیوز میں بات کرنے سے پہلے دوپٹہ سر پر لینا کیوں ضروری سمجھا؟ اسی طرح کسی کو اس پر اعتراض تھا کہ ملک ریاض کی بھتیجی نے دوسری ویڈیو میں جب اپنے گھر کا دکھڑا رویا تو اپنے شوہر کو کیوں نہیں سنبھالا؟ پتہ نہیں ہم انسانی جسم کے کس حصے سے سوچتے ہیں؟ جب یہ ویڈیوز منظر عام پر آئیں، تو اس خاکسار نے جب سے اب تک مختلف شعبہ ہائے زندگی کے سینکڑوں لوگوں سے رابطوں پر ایک سوال پوچھا، اس سب کا نتیجہ کیا نکلے گا؟ سب کے جواب میں بلااستثنیٰ یکسانیت تھی۔”کچھ لے دے کے معاملہ ختم ہو جائے گا“۔ پورے سماج کی عمومی تشکیل کا بنیادی مزاج بس یہی ”لے دے“ والا معاملہ ہے۔ اس مزاج نے قانون، انصاف اورسماجی اقدار کو یرغمال بنالیا ہے۔ ہمارے اجتماعی تشخص میں شامل حیا، وفا، دَیااور تربیت کے تناظر کو اُٹھا کر پھینک دیا ہے۔ یوں لگتا ہے کہ یہ پورا معاشرہ ایک منڈی ہے، ہر چیز کی ایک بولی ہے۔ منڈی کے باہر ایک بڑا سا بورڈ لگا ہوا ہے، جہاں کسی اشتہار کا یہ فقرہ لکھا ہوا ہے کہ ”یہاں ہر چیز بکتی ہے“۔
سابق امریکی صدر ہربرٹ ہوور کا ایک فقرہ قومی کردار کے حوالے سے بہت مشہور ہواکہ
.National character can not be built by law
.It is the sum of the moral fiber of its individuals
ہمارے باب میں ایسا لگتا ہے کہ ہمار ے اوپر جیسے”برائے فروخت“ کا کردار انفرادی سطح پر بھی مسلط کردیا گیا ہو۔ ہر ایک اس معاشرے میں کسی نہ کسی سطح پر لین دین کے کسی نہ کسی عمل میں کہیں نہ کہیں حصہ بننے پر مجبور ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملک ریاض اور عظمیٰ خان یہ کیوں نہ کریں؟یہی تو ہمارے معاشرے کے چھوٹی بڑی سطح کے عمومی مناظر ہیں۔ یہ مناظرکتنے ہی بُرے ہوں ہمارا روزمرہ ہے۔ صحافت سے سیاست، معاشرت سے معاشیات تک ہر نہج پر یہی سوچ دخیل ہے۔ اس کی بہیمت نے ہمیں جہاں دھکیل دیا ہے،اس کا دور دور تک کہیں کوئی احساس تک نہیں۔ یہ سمجھنے کی کوشش ایک الگ موضوع ہے۔ پاکستا نی سماج کی تعمیر اُصولوں اور اقدار پر نہ کی گئی تو یہ معاشرہ ملک ریاضوں اور عظمیٰ خانوں کے رحم وکرم پر رہے گا۔ ہمارا ”اچھا بُرا“بھی اُن کے ہی کردار کے رحم وکرم پر ہوگا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔