حکومت ججزکے خلاف ریفرنسز سے گریز کرے،اسلام آباد بارکونسل
شیئر کریں
اسلام آباد بارکونسل نے حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ججزکے خلاف ریفرنسز بھیجنے سے گریز کرے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف موجودہ صدارتی ریفرنس کو فی الفور واپس لے۔اسلام آباد بارکونسل نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ 8 اور 9 جون کوپاکستان بار کونسل کی سرپرستی میں پاکستان بھر کی تمام صوبائی بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشنز کے نمائندہ اجلاس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف موجودہ ریفرنس پر مربوط اور منظم لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔عملی اقدامات اور فیصلے کیے جائیں تاکہ آئندہ کوئی بھی ادارہ عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری پر اثرانداز ہونے کی کوشش نہ کرے۔اسلام آباد بارکونسل نے قرار دیا کہ وکلاء برادری کے تمام آئینی اور دستوری ادارے مضبوطی کیساتھ عدلیہ کے معزز جج صاحبان پر اثر انداز ہونے والے اقدامات کی روک تھام کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔اسلام آباد بارکونسل کا اجلاس زیر صدارت ہارون رشید وائس چیئرمین منعقد ہوا تاکہ صدر پاکستان کی طرف سے سپریم کورٹ کے معزز جج جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف دائر کیے گئے ریفرنس پر غور وخوض کیا جا سکے اجلاس میں قاضی رفیع الدین بابر،چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی، جاوید سلیم شورش، چیئرمین انٹرا پروانشل بار کونسلز ریلیشنگ کمیٹی،سجاد افضل چیمہ چیئرمین،ڈسپلینری کمیٹی،راجہ انعام امین منہاس، صدر اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، عمیر بلوچ، سیکرٹری اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوی ایشن خانزادہ خان،صدر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن یاسر شکیل راجہ، سیکرٹری ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن اور راجہ طاہر محمود نائب صدر ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن شریک ہوئے اجلاس میں جسٹس قاضی فائز عیسی کے خلاف صدارتی ریفرنس پر تفصیلی بحث کے بعد معزز شرکاء نے متفقہ طور پر قرار دیا کہ ملک میں آئین اور قانون کی بالا دستی، قومی اداروں کے احترام اور عدلیہ جیسے معزز ادارے کی آزادی،خود مختاری اور بالا دستی کاتحفظ آئین پاکستان کا عین منشا قانون ہے ہم محسوس کرتے ہیں کہ کچھ عرصہ پہلے وکلاء برادری اور معزز جج صاحبان کے درمیان اختلاف پیدا کرنے کی مذموم کوشش کی گئی اور اب جسٹس قاضی فائز عیسی اور سندھ ہائی کورٹ کے ایک معزز جج کے خلاف سرکاری طور پر سپریم جوڈیشل کمیشن میں ریفرنس دائر کیا گیا ہے جس پر ہم گہری تشویش اور دکھ کا اظہار کرتے ہیں اور اس سے قبل بھی معزز جج کے خلاف ایک نام نہاد آئینی پٹیشن دائر کی گئی جو کہ بد نیتی پر مبنی ہونے کی بناء پر عدالت عظمیٰ نے خارج کر دی تھی ہم محسوس کرتے ہیں کہ معزز جج صاحبان کو دانستہ طور پر ریفرنسز کے ذریعے اور دیگر طریقوں سے دباؤ میں لانے، ان کی آزادی فکر اور آئینی سوچ کو دبانے کی خاطر سرکاری سرپرستی میں ریفرنسز دائر کیے جا رہے ہیں تاکہ عدلیہ کے اندر معزز جج صاحبان کی آزادی فکر اور جرات مندانہ آرا اور فیصلوں پر قدغن لگائی جا سکے۔عدلیہ کی آزادی کو مفقود کرنے اور محلاتی سازشوں سے معزز جج صاحبان کو دباؤ میں لانے کی مذموم کوشش عدلیہ کی آزادی پر کاری ضرب لگانے کے مترادف ہے جس کی وکلاء برادری کبھی اجازت نہیں دے گی اور سپریم کورٹ جوڈیشل کونسل سے مطالبہ کرتے ہیں کہ موجودہ ریفرنس کا جائزہ لیتے ہوئے پس پردہ سازشوں اور محرکات کو مد نظر رکھتے ہوئے کسی بھی ایسے فیصلے سے گریز کرے جو آئین، عدلیہ کی آزادی اور ملک میں انتشار پھیلانے اور آئینی اداروں کا گلا گھونٹنے کے مترادف ہو۔ وکلاء برادری اس طرح کے تمام اقدامات کو کبھی قبول نہیں کرے گی۔ اجلاس میں حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ اس طرح کے ریفرنسز بھیجنے سے گریز کرے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف موجودہ صدارتی ریفرنس کو فی الفور واپس لے۔ اجلاس میں جس عزم کا اظہار کیا گیا کہ مورخہ 08 اور 09 جون 2019 ء کوپاکستان بار کونسل کی سرپرستی میں پاکستان بھر کی تمام صوبائی بار کونسلز اور بار ایسوسی ایشنز کے نمائندے اجلاس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف موجودہ ریفرنس پر مربوط اور منظم لائحہ عمل طے کرتے ہوئے عملی اقدامات اور فیصلے کئے جائیں تاکہ آئندہ کوئی بھی ادارہ عدلیہ کی آزادی اور خود مختاری پر اثرانداز ہونے کی کوشش نہ کرے۔ اجلاس میں متفقہ قرار دیا گیا کہ وکلاء برادری کے تمام آئینی اور دستوری ادارے مضبوطی کیساتھ عدلیہ کے معزز جج صاحبان پر اثر انداز ہونے والے اقدامات کی روک تھام کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔