میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اسرائیل کی عالمی دجالی بالادستی

اسرائیل کی عالمی دجالی بالادستی

ویب ڈیسک
پیر, ۵ جون ۲۰۱۷

شیئر کریں

موجودہ صورتحال میں دنیا جن سنگین حالات سے دوچار ہونے جارہی ہے اس میں تین خطے سب سے زیادہ اہمیت اختیار کرچکے ہیں، ان میں سب سے پہلے مشرق وسطیٰ یا جزیرة العرب ہے، اس کے بعد وسطی ایشیا کا جنوبی حصہ یعنی افغانستان اورجنوبی ایشیا جن میں پاکستان اور بھارت واقع ہیں۔ اس بات کو اب سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں کہ آنے والے وقت میں دنیا بھر میں امن وسلامتی ، سیاسیات ، معاشی اور معاشرتی حالات کا دارومدار ان تین خطوں کے حالات پر منحصر ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ مشرق اور مغرب کی عالمی پنجہ آزمائی ان تین اہم ترین خطوں میں ہورہی ہے۔
ان تین اہم ترین خطوں میں کشمکش کے نتائج مشرق وسطیٰ میں ظاہر ہونا ہیں اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ وہاں حالات کو موجودہ نہج پر پہنچانے کے لیے انتہائی منصوبہ بندی سے کام کیا گیا ہے۔ ستر کی دہائی سے حالات کا تسلسل دیکھیں تو معاملات ایک خاص لڑی میں پروئے ہوئے نظر آئیں گے۔ صحیح مسلم میں ہے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے قریب دریائے فرات میں سے سونے کا پہاڑ کانمودار ہوگا۔جس پر لوگوں میں قتال ہوگا اور ہر سو میں سے ننانوے افراد اس کے حصول کی کوشش میں ہلاک ہوں گے، پس جو اس وقت موجود ہو وہ اس میں سے کچھ مت لے۔ قرآن کریم اور احادیث شریفہ میں آنے والے واقعات کی نشاندہی علامتی ناموں یا انداز سے کی جاتی ہے۔ دریائے فرات سے سونے کے پہاڑ کا ظہور درحقیقت ستر کی دہائی میںعرب میں تیل کا نکلنا ہے ۔اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ کاغذ کی کرنسی کے رائج ہونے کے بعد جو دجالی مانیٹری سسٹم متعارف کرایا گیا تھا اس کے تحت سونے کے اصل زر کو کاغذ کی کرنسی کی پشت پر ہونا ضروری تھا لیکن جس وقت عالمی صہیونی ساہوکاروں نے یورپ کی طرح امریکا کے قومی خزانے سے بھی سونے پر ہاتھ صاف کرلیاتو 73ءکی عرب اسرائیل جنگ کے بعد سابق امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے انتہائی کمال سے عربوں کواس بات پر قائل کرلیا کہ تیل کی قیمت کو امریکی ڈالر سے منسلک کردیا جائے اس طرح پہلی مرتبہ سونے کی جگہ عربوں کاتیل اصل زر کی شکل میں امریکی ڈالر کی پشت پر آن کھڑا ہوااور اس نے سونے کے انداز میں کام شروع کردیا۔اسی بنیاد پر ”اوپیک“ نامی تنظیم تشکیل دے کر تیل پیدا کرنے والے تمام عرب ملکوں اور ایران کو اس میں جکڑ لیا گیا۔اب یقیناً دریائے فرات میں سونے کے پہاڑ کے ظہور کا مطلب سمجھ آجانا چاہیے جس کا پس منظر ہم اپنے ایک سابقہ مضمون میں تفصیلاً بیان کرچکے ہیں۔
مشرق وسطیٰ کے تیل کو سونے کی جگہ ڈالر کی پشت پر کھڑا کرنے کے بعد اسی ستر کی دہائی میں جو دوسرا بڑا کام کیا گیا وہ سابق سوویت یونین کو افغانستان میں پھانسنے کا تھاکیونکہ واشنگٹن سے یروشلم کی جانب ”عالمی انتقال اقتدار“ کے لیے ضروری تھا کہ پہلے دنیا کی دوسری سپر پاور سوویت یونین کو دنیا کے نقشے سے محو کیا جائے۔ اس کام کی ابتدا 1979ءمیں ہوئی اور 1990ءمیں جاکر سوویت یونین کی تحلیل کی شکل میں نتائج حاصل کیے گئے۔ان بیس برسوں کے دوران افغانستان میں جو جنگ لڑی گئی وہ بھی اسی ”فرات کے سونے“ کی بنیاد پر تھی جو عربوں کے پیٹرو ڈالر کی شکل میں خرچ کی جارہی تھی جس کی وجہ سے افغانستان کے میدان جنگ میںلاکھوں انسان لقمہ اجل بنے اور سوویت یونین سکڑ کر رشین فیڈریشن کی شکل اختیار کرگیا۔یوں ایک طرف دنیا کی دوسری سپر پاور تحلیل ہوئی تو مشرق وسطیٰ سے روسی اثررسوخ کا بوریا بستر بھی لپیٹ دیا گیا ۔وہ ماسکو جوجنوبی یمن اور شام کے بعد شمالی افریقہ سے ہوتا ہوا امریکا کے پہلو کیوبا تک پوری طاقت سے رسائی رکھتا تھا اب کریملن کی دیواروں کے اندر سے دنیا کے بدلتے حالات دیکھنے پر مجبور تھا۔1979ءمیں شروع ہونے والے اس کھیل کا پہلا حصہ 1990ءمیں ختم ہوا تو اس کے ساتھ ہی عالمی دجالی صہیونیت نے اسی کھیل کے دوسرے حصے کا آغاز کردیا۔یہ کھیل ان جہادی تحریکوں اور ان سے وابستہ نامور شخصیات کو ہدف بنانے کے لیے تھا جنہوں نے سابق سوویت یونین کے خلاف افغانستان کی جنگ میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔ دوسری جانب افغانستان میں مختلف جہادی گروپوں کے درمیان خانہ جنگی کروا کر کابل میں پائیدار حکومت کے قیام کے امکانات معدوم کردیے گئے کیونکہ افغانستان کی جیوپولیٹیکل صورتحال اس قسم کی ہے کہ وہاں ہونے والی خانہ جنگی کے اثرات صرف افغانستان کی سرحدوں کے اندر تک محدود نہیں رہ سکتے بلکہ آس پاس کا تمام خطہ اس سے متاثر ہوتا ہے اور بعد کے حالات نے یہ ثابت بھی کردیا۔ کھیل کے اس دوسرے حصے میں دوسرا بڑا فیز مشرق وسطیٰ میں پیدا کیا گیا، جب عراق کی صدام حکومت اور کویت کے درمیان تیل کی پیداوار پر تنازعہ پیدا کردیا گیا جس پر امریکی خاموشی کی شکل میں شہہ پاکر صدام حسین نے تاریخ کی بھیانک ترین غلطی کرکے امریکا کو خطے میں باقاعدہ پنجے گاڑنے کے مواقع فراہم کردیے ،صدام کا جرم صرف یہی نہیں تھا بلکہ اس نے اعلان کیا تھا کہ عراقی تیل کی فروخت ڈالر کی بجائے یورو میں کی جائے گی۔ یہ اس سے بھی بڑا جرم تھا جو کویت پر قبضے کی شکل میں کیا گیا تھا کیونکہ ”فرات کا سونا“ امریکی ڈالر سے وابستہ کیا گیاتھا یورپین یونین سے نہیں، اس لیے اس کی سزا بھی کڑی تھی۔ یہ اس فیز کا سب سے خطرناک مرحلہ تھا جس میں امریکا نے پہلی پیش قدمی کرکے کویت کی آزادی کے نام پر مشرق وسطیٰ میں اپنا پہلا پڑاﺅ ڈالنا تھا۔ یہ ساری جنگ بھی ”فرات کے سونے“ کی بنیاد پر لڑی گئی یعنی صدام کے خطرے سے نمٹنے کے نام پر عربوں کے کئی ٹریلین ڈالر عالمی دجالی صہیونیت کی جیب میں چلے گئے اور نوے کی دہائی میںامریکا اور یورپ کی ڈوبتی ہوئی معیشت اچانک منافع بخش سطح پر آگئی۔
مشرق وسطیٰ میں قدم جمانے کے بعد اب اگلا مرحلہ عالمی صہیونی دجالیت کا امریکا اورنیٹو کی شکل میں دوسرا پڑاﺅ تھا جسے افغانستان میں انجام پذیر ہونا تھا اس مقصد کے لیے جس طرح نوے کی دہائی میں کویت پر صدام کے حملے کو استعمال کیا گیا اسی طرح نئی صدی کے آغاز میں نائن الیون کا ڈرامہ رچایا گیا۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی تباہی اور اس میں پانچ ہزار سے زائد امریکیوں کی ہلاکت درحقیقت افغانستان میں امریکی داخلے کا لائسنس تھا۔ اس ڈرامے میں عالمی دجالیت نے پہلی مرتبہ ”ہالوگرام ٹیکنالوجی“ کا استعمال کیا۔یہ ٹیکنالوجی لیزر بیم کی شکل میں استعمال کی جاتی ہے جس کے ذریعے زمین پر یا فضا میں کسی بھی جاندار یا بے جان چیز کو حقیقت کی شکل میں متحرک دکھایا جاسکتا ہے درحقیقت امریکا میں ہونے والی آزادانہ ذرائع کی تحقیق نے ثابت کردیا ہے کہ نائن الیون کے واقعے میں قطعاً حقیقی طیارے ٹریڈ سینٹر کی عمارت سے نہیں ٹکرائے تھے بلکہ اصل دھماکے عمارتوں کے اندر پہلے سے نصب شدہ دھماکہ خیز موادکی مدد سے کیے گئے تھے جبکہ طیاروں کو فضا میں عمارت سے ٹکرانے کا منظر محض نظر کا دھوکہ تھا یہ کارنامہ ”ہولوگرام ٹیکنالوجی“ کے ذریعے انجام دیا گیا تھاجسے دور بیٹھ کر کنٹرول کیا جاتا ہے اس زمانے میں عام دنیا اس ٹیکنالوجی سے بے خبر تھی۔اس سارے کھیل میں صحیح ٹائمنگ سب سے اہم ہوتی ہے جیسے ہی طیاروں کا عکس حقیقی طیارے کی شکل میں عمارات سے ٹکراتا فوراً پہلے سے نصب شدہ دھماکہ خیز مواد کو خودکار بٹن سے اڑا دیا جاتا جس سے دیکھنے والے کو یہ محسوس ہوتا کہ یہ دھماکے طیارے ٹکرانے سے ہوئے ہیں۔امریکا کی بش انتظامیہ نے دجالیت کے اس سرکس میں یہ پہلا کمال کا کھیل پیش کیا تھا جس میں پانچ ہزار سے زائد امریکیوں نے اپنی جانیں دے کر امریکا کو افغانستان میں اپنا دوسرا پڑاﺅ ڈالنے کا ایندھن مہیا کردیاتھا۔
(جاری ہے)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں