میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی طرز پر ہندوبستیاں

مقبوضہ کشمیر میں اسرائیلی طرز پر ہندوبستیاں

ویب ڈیسک
جمعه, ۵ اپریل ۲۰۲۴

شیئر کریں

ریاض احمدچودھری

مقبوضہ کشمیر میں پہلے ہی حریت پسندوں کی جائیداد ضبطی کا عمل جاری ہے۔کیونکہ بھارتی حکومت اسرائیلی طرز پر مقبوضہ کشمیر میں ہندوؤں کیلئے علیحدہ بستیاں بنانا چاہتی ہے تاکہ یہاں کی مسلم اکثریت اقلیت میں بدل جائے۔ اسی لئے سب سے پہلے وادی کی 9600 کنال سے زیادہ اراضی پر قبضہ کیا گیا جس پر37 نئی صنعتی اسٹیٹس قائم کرنے کا ارادہ ظاہر کیا گیا ہے۔جموں و کشمیر رائٹ ٹو انفارمیشن(آر ٹی آئی) موومنٹ کے چیئرمین ، ڈاکٹر راجہ مظفر بٹ کا کہنا ہے کہ 9600 کنال پر قبضہ زراعت پر مبنی کشمیر کی معیشت کے لئے تباہ کن ثابت ہوگا۔ فیکٹریاں لگانے کے بجائے 9600 کنال اراضی پر 100 زرعی فارموں کے قیام عمل میں لایا جاسکتا ہے۔
2016 کی دسویں زراعت مردم شماری کے مطابق جموں و کشمیر میں زرعی اراضی محض 0.59 ہیکٹر تھی جبکہ 2011 میں 0.62 ہیکٹر رقبہ زرعی اراضی پر مشتمل تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں تعینات بھارتی فوج کو زمین کے حصول کے لیے تمام رکاوٹیں ختم ہو گئی ہیں۔ بھارتی فوج دفاعی مقاصد کے نام پر جموں وکشمیر میں کہیں بھی زمین حاصل کر سکتی ہے۔ اس عمل کے لیے فوج کو کسی این او سی کی ضرورت نہیں ہو گی۔بھارتی اخبار انڈیا ٹوڈے کے مطابق بھارتی فوج ، بی ایس ایف ، سی آر پی ایف وغیرہ کو کسی این او سی کے بغیر جموں وکشمیر میں زمین حاصل کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔ اس سلسلے میںجموں و کشمیر انتظامیہ نے 1971 سرکلر واپس لے لیا ہے۔ پہلے جموں و کشمیر میں زمین کے حصول ، بحالی اور آبادکاری کے ایکٹ ، کے تحت سرکلر1971 کے تحت بھارتی فوج ، بی ایس ایف ، سی آر پی ایف وغیرہ کو اراضی کے حصول کے لئے محکمہ داخلہ سے عدم اعتراض سرٹیفکیٹ(این او سی) کی ضرورت ہوتی تھی۔ 1971 سرکلر اس وقت واپس لے لیا گیا جب زمین کے حصول سے متعلق بھارتی قانون کو جموں و کشمیر تک بڑھا دیا گیا۔گزشتہ برس بھی مودی سرکار نے 3 لاکھ غیرمقامی افراد کومقبوضہ کشمیر کے ڈومیسائل جاری کردیے ہیں۔ ڈومیسائل حاصل کرنے والوں میں ایک بھی مسلمان شامل نہیں ہے۔ آنیوالے دنوں میں مزید 14 لاکھ افراد ڈومیسائل کے حامل ہوسکتے ہیں۔مودی سرکار کے فیصلے پرمقبوضہ کشمیرمیں شدید بے چینی پائی جاتی ہے۔کشمیری عوام کا کہنا ہے کہ بھارتی حکومت کی جانب سے مقبوضہ کشمیرمیں تعینات 8 لاکھ بھارتی فوجیوں اور 6 لاکھ دیگر غیرمقامی افراد کو بھی شہریت دے سکتی ہے۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں پوسٹر چسپاں کئے گئے ہیں جن میں عوام سے اپیل کی گئی کہ وہ ہوشیار رہیںاور اپنی آنے والی نسلوں کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے اپنی زمینیں اور جائیدادیں غیر کشمیریوں کو فروخت کرنے سے گریز کریں اور بھارتی عزائم کو ناکام بنائیں۔پوسٹرسرینگر اور بارہمولہ میں بھارت کی سفاکانہ اور کشمیر دشمن پالیسیوں کے خلاف بطوراحتجاج چسپاں کئے گئے ہیںجن کا مقصد عالمی برادری کو علاقے کی اصل صورتحال کے بارے میں گمراہ کرنا ہے۔
مقبوضہ جموںوکشمیر کی سابق وزیر اعلی و پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی نے خبردار کیا ہے کہ بی جے پی کی بھارتی حکومت مقبوضہ علاقے کو جابرانہ اقدامات کی ایک تجربہ گاہ کے طور پر استعمال کر رہی ہے جبکہ مقبوضہ کشمیرمیں نیشنل کانفرنس کے ایڈیشنل جنرل سکریٹری اجے سدھوترا نے بی جے پی حکومت پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ بھارتی جمہوریت کی بنیادوں کو شدید خطرات لاحق ہیں اور تمام ادارے حملے کی زد میں ہیں۔ بی جے پی نے آمرانہ رویہ اختیارکرکے جمہوریت کو داغدار کیا ہے جو ملک کے شہریوں کے لیے انتہائی تشویش کا باعث ہے۔ پوسٹروں میں کہاگیا کہ بھارتی حکومت مقبوضہ جموں وکشمیر میں اسرائیلی طرز کی پالیسیوں پر عمل پیر اہے اوروہ کشمیریوں کو اپنی سرزمین سے بے دخل کرنا چاہتی ہے اور نام نہاد ڈومیسائل سرٹیفکیٹ کا استعمال کرتے ہوئے یہاں غیر کشمیریوں کو آباد کرناچاہتی ہے تاکہ علاقے میں آبادی کے تناسب کو تبدیل کیا جائے۔ ہمیںبھارت کے ان مذموم عزائم سے ہوشیار رہنے اوران کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔پوسٹروں میں آر ایس ایس/بی جے پی کی طرف سے جموں کے علاقے میں ڈوگرہ اراضی پر قبضے کو اجاگرکیاگیا جس کا استعمال غیر کشمیری افراد کو آباد کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے اورانہیں ملازمتیں اور ٹھیکے دیے جا رہے ہیں۔ پوسٹروں میں کشمیریوں پر زور دیا گیاہے کہ وہ متحد ہو کر اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت کا مطالبہ کریں۔
پاکستان کے ممتاز عالم دین مفتی منیب الرحمن نے فتویٰ دیا ہے کہ کشمیریوں کیلئے اپنی جائیداد بھارتی ہندوؤں کو فروخت کرنا یا انھیں کرایہ پر دینا شرعاً ناجائز ہے۔ ان سے پوچھا گیا تھا کہ کیا ایسی صورتحال میں کشمیری اپنی جائیدادیں بھارتی ہندوؤں کو فروخت کر سکتے ہیں جب ظالم وجابر بھارتی حکمرانوں نے کشمیرکے مسلم اکثریتی تشخص کو ختم کرنے کیلئے جموں وکشمیر کی خصوصی حیثیت منسوخ کر دی ہے۔مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ وہاں بھارت سے ہندوؤں کو لا کر بسایا جائے اور یوں کشمیر کی آبادی میں مسلم اکثریت کو ختم کیا جائے۔ غیر کشمیری ہندوؤں کو کشمیر میں بسانے کیلئے زمین کی ضرورت تھی جو کہ 370 آرٹیکل کے تحت ممکن نہ تھا کیونکہ اس آرٹیکل کے تحت کوئی بھی غیر کشمیر ، مقبوضہ وادی میں جائیداد یا زمین نہیں خرید سکتا تھا۔ اسی لئے آرٹیکل کو ختم کر کے فلسطین میں یہودیوں کی بستیوں کی طرف یہاں ہندوؤں کی بستیاں بسائی جانے لگیں۔
بستیاں بسانے کیلئے زمین کی ضرورت ہے جس کیلئے جموں و کشمیر پر بھارتی قبضے کے دوران بھارتی انتظامیہ جھوٹے مقدموں کے ذریعے کشمیریوں کی جائیداد ہتھیانے لگی ہے۔ قابض بھارتی فوج اور انتظامیہ” اسرائیلی ماڈل” پر عمل درآمد کرتے ہوئے کشمیریوں کی جائیدادوں پر انتہاپسند ہندوؤں کو آباد کیا جاسکے اور نسل کشی کے ذریعے مقبوضہ کشمیر میں مسلمان اکثریت کو اقلیت میں بدلا جائے۔بھارتی وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ نے مقبوضہ کشمیر میں ”اسرائیلی ماڈل”پر کام کرنے کا منصوبہ بنایا تھا جس کا اعلان بھارتی وزیراعظم کی جانب سے سوشل میڈیا کے ذریعے سامنے آیا تھا۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں