سیپا میں کروڑوں کا گھپلا چھپانے کا انوکھا طریقہ، سینکڑوں لائسنس منسوخ
شیئر کریں
محکمہ ماحولیات سندھ کے ماتحت سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) میں نیا اسکینڈل سامنے آگیا، کروڑوں روپے کا گھپلا چھپانے کا انوکھا طریقہ، سیپا سے جاری کئے گئے سینکڑوں لائسنس منسوخ کردیئے گئے۔ جرأت کی خصوصی رپورٹ کے مطابق محکمہ ماحولیات سندھ کے ماتحت سندھ انوائرمنٹل پروٹیکشن ایجنسی (سیپا) نے خطرناک ٹھوس صنعتی فضلہ فیکٹریوں سے اٹھانے اور اسے محفوظ طریقوں سے تلف کرنے کی خدمات فراہم کرنے والی تمام ایسی کمپنیوں کے لائسنس منسوخ کردئیے ہیں جو سیپا نے ہی ماضی میں ان گنت کمپنیوں کو بھاری رشوت کے عوض جاری کیے تھے،سیپا نے قومی و مقامی اخبارات میں اشتہار جاری کرکے ایک ہی جھٹکے میں تمام ایسی کمپنیوں کے لائسنس منسوخ کردئیے ہیں جن کے اجراء کے لیے کئی سال سے ایک کمیٹی مقرر تھی جس کے زیادہ تر ممبران کا مذکورہ شعبے سے کوئی تعلق نہیں تھا اور محض انہیں ہڈی ڈالنے کے مقصد سے کمیٹی میں شامل کیا گیا تھا،ماہرین کا کہنا ہے کہ ہر شعبے میں اچھے برے لوگ ہوتے ہیں تو ایسا کیا ہوا کہ تمام کی تمام کمپنیوں کے لائسنس ایک ہی حکم کے تحت منسوخ کردئیے گئے،دلچسپ امر یہ ہے کہ مذکورہ کام کے لیے جو کمیٹی کام کررہی تھی اس میں سے اکثریتی ارکان کا خطرناک مواد کے شعبے سے کوئی واسطہ ہی نہیں تھا مگر محض رشوت لینے کا موقع فراہم کرنے کے لیے ایسے افسران کو بھی کمیٹی ممبر بنایا گیا جنہیں کسی اور ذریعے سے رشوت نہیں مل رہی تھی۔سیپاذرائع کے مطابق مذکورہ کمیٹی نے بھاری رشوت کے عوض ایسی جعلی کمپنیوں کو بھی خطرناک صنعتی فضلہ تلف کرنے کا لائسنس جاری کردیا تھا جن میں سے ایک کمپنی کا بنیادی کام تو گاڑیاں رنگنے کا تھا مگر سیپا کے ایک انسپکٹر کے ماموں کی کمپنی تھی۔ ماہرین کے مطابق سندھ کے قانون برائے تحفظ ماحول سندھ میں کہیں یہ درج نہیں کہ ڈی جی سیپا یکمشت اپنے ہی جاری کیے ہوئے تمام کے تمام لائسنس منسوخ کرسکتا ہو۔ ایسا کرنے کے لیے اسے ایک ایک کمپنی کا علیحدہ علیحدہ ماحولیاتی آڈٹ کر کے اس کی منسوخی یا تسلسل کا فیصلہ کرنا چاہئے،ذرائع کے مطابق اگر ایسا کیا جاتا تو لائسنس جاری کرنے والی کمیٹی پکڑے جانے کے خوف سے ان تمام بڑے افسران کی بھی پول کھول سکتی تھیں جو ہر لائسنس کے اجراء میں اپنا حصہ لیتے تھے۔سیپا کے ایک افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ مذکورہ کمیٹی نے جن کمپنیوں کو مذکورہ لائسنس جاری کیے ہیں ان میں سے محض چند ریکارڈ پر رکھے گئے ہیں جبکہ باقی تمام کا سرے سے کوئی ریکارڈ ہی نہیں اور نہ وہ کمپنیاں مطلوبہ تقاضے پوری کرتی تھیں لہذہ کوئی بڑا سکینڈل نہ بن جائے اس خوف سے ڈی جی سیپا نے ایک ہی جھٹکے میں تمام لائسنس منسوخ کردئیے۔ اورمنسوخی کا اشتہار بھی چھپودیا تاکہ جن کمپنیوں کا ریکارڈ نہیں ہے ان تک بھی اطلاع پہنچا دی جائے،خطرناک فضلہ صنعتی پیداواری سرگرمی سے نکلنے والا ایسا خطرناک کیمیائی مواد ہوتا ہے جس کے ساتھ ذرا سی بے احتیاطی کرنے پر انسانی جان کے ضیاع سمیت سنگین نقصان ہوسکتا ہے،مذکورہ اشتہار میں کہا گیا ہے کہ تمام صنعتیں اپنا خطرناک فضلہ آئندہ اپنی ذمہ داری پر محفوظ طریقوں انسنریٹر میں تلف کرائیں گی۔