پاکستان کے چین سے غیر محتاط تعلقات
شیئر کریں
حمیداللہ بھٹی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستان کا چین پر انحصار بڑھ رہا ہے یہ دوستی صر ف دونوں ممالک کی حکومتوں تک ہی محدود نہیں بلکہ دونوں طرف کی عوام میں بھی ایک دوسرے کے لیے خیر سگالی کا جذبہ ہے لیکن پاکستان کو محض کمائی کا ذریعہ بنانے کی وجہ سے اہلِ نظربے چین ہیں اور پاکستان کو چین سے تعلقات میں احتیاط کا مشورہ دیتے ہیں۔ اِس میں شبہ نہیں کہ پا کستان کااِس حد تک جھکائو چین کی طرف ہے کہ وہ اِس کے لیے کسی حد تک بھی جانے کو تیار ہے۔جس کی مثال ابھی حال ہی میں دعوت کے باجود امریکہ میں جمہوریت کے حوالے سے منعقد ہونے والی کانفرنس میں شرکت کرنے سے انکارہے۔ چین و امریکہ تعلقات میں سرد مہری کسی سے ڈھکی چُھپی نہیں۔ اپنے دوست ملک کی ناراضگی سے بچنے کے لیے پاکستان عالمی کانفرنس میں شرکت سے اجتناب کررہاہے مگر کیا چین کی طرف سے پاکستان پر نوازشات ہورہی ہیں؟افسوس کہ اِس سوال کے جواب میں ہاں کہنا غلط ہوگا بلکہ گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان چینی مال کی منڈی بنتا جارہا ہے۔ یوں چین تو ہر حوالے سے فائدے میں ہے لیکن پاکستان کی صنعتی وزرعی حالت مزید پتلی ہوتی جارہی ہے مگر حکومت اور عوام دونوں ہی خطرناک صورتحال کا ادراک نہیں کررہے بلکہ چین پر صدقے واری ہورہے ہیں جس کی بناپر خدشہ ہے کہ پاکستان بھی سری لنکا جیسے حالات سے دوچار ہو سکتا ہے۔ سری لنکا کو دیوالیہ بنانے میں مہنگے چینی قرضوں کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔
رواں ہفتے دونوں ممالک نے تین اپریل سے درہ خنجراب کے راستے چاربرس سے معطل تجارتی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیاہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری فریم ورک کے تحت نومبر2016 سے یہ شاہراہ ہربرس یکم اپریل سے تیس نومبر تک تجارتی سرگرمیوں کے لیے کھولی جاتی رہی مگراِس راستے سے تجارتی سرگرمیاں 2019 میں کرونا وبا پھوٹنے کے باعث بند کردی گئیں تھیں لیکن سفری سہولتوں کی بندش کے باوجود ٹرالرز کے ذریعے سامان آتا اور جاتا رہا۔ اب دونوں ممالک میں اِس گزرگاہ کے ذریعے ایک بار پھر آمدورفت شروع ہونے والی ہے جن کے بارے قیاس ہے کہ رمضان کی بناپر باقاعدہ شروع ہونے والی سرگرمیاں عید کے بعد زور پکڑیں گی لیکن انتظامی اور سیکورٹی سمیت دیگر متعلقہ امور مکمل کرنے کا کام دونوں طرف زورو شور سے جاری ہے۔ اور تجارت کی بحالی کے فیصلے کے ساتھ ہی تاجروں نے سرحد پارآنے اورجانے کی عرضیاں جمع کرانا شروع کر دی ہیں۔ گلگت بلتستان کے تمام اضلاع کے بزنس چیمبرز نے تاجروں کو تجارت سے متعلق ضروری کاغذات جمع کرانے کی ہدایات جاری کر دی ہیں۔ سرحدی آمدورفت کے ذریعے تجارتی سرگرمیوں میں گلگت بلتستان کے تین لاکھ سے زائد خاندان حصہ لیتے ہیں جومقامی آبادی ستر فیصدکے قریب ہے چین سے سستاسامان لاکریہ پاکستان میں فروخت کرتے ہیں مگر یہاں سے بہت کم سامان چین لے جایا جاتا ہے۔ چین سے لائے جانے والے سامان میں ایسی اشیا بھی عام ہوتی ہیں جو پاکستان میں بھی تیار ہوتی ہیں لیکن قدرے مہنگی ہونے کی وجہ سے عام آدمی چینی مصنوعات خریدنے کو ترجیح دیتا ہے۔ گلگت
بلتستان کے علاقے چینی سامان کی منڈی بن چکے ہیں جس سے تجارتی توازن مکمل طورپر چین کے حق میں ہے لیکن پاکستان دوستی سے مجبور ہوکر کسی قسم کی قدغن لگانے یا اپنے مفاد کا تحفظ کرنے سے قاصر ہے جو طریقہ کارپاکستان کی صنعتوں کو تباہ کرنے کا موجب بنتاجارہاہے۔ کیونکہ یہاں کے تیار مال کے مقامی طور پر بھی خریدار وں میں بھی مسلسل کمی دیکھنے میں آرہی ہے جس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے اگر کارخانے بند ہوں گے تو برآمدی سامان بھی تیار نہیں ہوگا۔ اب بھی پیداواری عمل تشویشناک حد تک کم ہونے سے برآمدات سکڑ رہی ہیں ۔
پاکستان کے لیے خطے میں چین کا طرفدار ہونا ضروری ہے لیکن دوستی میںپورا ملک ہی ٹھیکے پر دینے جیسی دنیا میں اور کہیں کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ سی پیک جیسے تجارتی اور دفاعی منصوبے کے عنوان سے چین نے پاکستان میںا ربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری شروع کررکھی ہے جس کا بظاہرمقصد شاہراہوں ،ریل،بندرگاہوں کی بہتری کے ساتھ صنعت و زراعت کو ترقی دینا ہے۔ توانائی جیسے اہم منصوبوں پر بھی سرمایہ لگایا جا رہا ہے جس پر پاکستان کے حکمران اور عوام دونوں بہت خوش ہیں اور سی پیک کو چین کی فیاضی تصورکرتے ہیں لیکن کیاعملی طورپر واقعی ایسا ہے؟ ایسا سوچنا یا کہنابالکل غلط ہے۔ یہ درست ہے کہ پاکستان میں ریل سمیت شاہراہوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے۔ نیز گوادر بندرگاہ کو فعال بنانا اور توانائی کی قلت دور کرنابھی ضروری ہے مگر یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ریل اور شاہراہوں کے ذریعے سامان کی نقل و حرکت کو بہتر بنانا چین کی اپنی مجبوری ہے گوادربندرگاہ بھی اُس کی ضرورت ہے مگر تعلقات میں گرمجوشی رکھنے کے لیے پاکستان اِتنا غیر محتاط ہے کہ چینی ضرروت کوبھی قرضوں کی صورت میں اپنے لیے بوجھ بڑھا رہا ہے ۔حالانکہ اگر چین نے سامانِ تجارت بھجوانا ہے تو محصولات کی مد میں کچھ ادائیگی کی طرف لانا چاہیے قبل ازیں امریکا کو اڈے اور فضائی حدودمفت فراہم کرنے کی غلطی کی جاچکی جبکہ وسط ایشیائی ریاستوں نے اس کے عوض نہ صرف مراعات لیں بلکہ محصولات کی مدمیں اربوں ڈالربھی وصول کیے۔ اب پاکستان دوبارہ وہی غلطی دُہرارہا ہے۔ گوادر بندرگاہ، ریل اور شاہراہوں کی بحالی سمیت توانائی کے منصوبوں میں ہونے والی سرمایہ کاری کوانتہائی مہنگے داموں قرضوں کی صورت میں تسلیم کرتاجارہا ہے۔ اب تو چین نے قرضوں پر گارنٹی کی مد میں بھی سود وصول کر نا شروع کر دیا ہے جس سے خدشہ ہے کہ صنعت و زراعت بہتر بنانے جیسے منصوبوں سے تو شاید ہی ملک و قوم کا بھلا ہو، البتہ پاکستان پر نہ صرف قرض کا پہاڑ مزیدبلندہو گا بلکہ پاکستان صرف چینی سامان کی منڈی بن کررہ جائے گا ۔ایسا ہی ہاتھ چین نے سری لنکا کے ساتھ بھی کیا جس کا انجام دیوالیہ کی صورت میں سامنے آیا، اب میانمار پر بھی ایسی ہی نوازشات جاری ہیں۔ صرف نیپال اور بنگلہ دیش نے قرض لیتے ہوئے احتیاط کی ہے جس کی وجہ سے وہاں کچھ بہتری کے آثارہیں ۔
ہماری معیشت اور قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت روزبروز کمزور ہورہی ہے۔ یہ حقیقت قرض دینے والے عالمی ممالک سے ڈھکی چھپی نہیں رہی لیکن ہمارے حکمران بے دریغ مزید قرض لینے میں مصروف ہیں، اِس وقت پاکستان 51131ارب کا مقروض ہے جس میں مقامی قرضوں کا حجم اکتیس ہزار چار سوارب ہے جبکہ بیرونی قرضوں کا بوجھ چھیاسی ار ب اکیاون کروڑڈالر ہے مگر ملک کی مالیاتی پالیسوں پر طائرانہ نگاہ ڈالیں تو وہ اب بھی بوجھ کم کرنے کے لیے تسلی بخش نہیں لگتیں۔ اسی لیے مزیدقرض بڑھنے کا امکان رَد نہیں کیا جا سکتا۔ اب بھی موجودہ قرض میں سے ہر شہری کے حصے میں دولاکھ سولہ ہزار آتے ہیں اور ایسے مقروض شہری پیداہورہے ہیں جن کے بزرگوں یا انھوں نے
خود قرض کا ایک روپیہ بھی استعمال نہیں کیا۔ مزید تشویشناک پہلو یہ ہے کہ امریکہ ،فرانس ،برطانیہ ،کینیڈا،سعودی عرب اور یواے ای سمیت دیگر امیر ممالک سے بھی چین تقریباََ ڈیڑھ یا دوگنا مہنگاقرض دے رہا ہے۔ نائن الیون کے بعدامریکی ایماپر پاکستان کے قرض کا کچھ حصہ معاف کیا گیا اور کچھ ری شیڈول ہوا مگرہمارے حکمرانوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ مزید ایسا ہونے کا دوردورتک کوئی امکان نہیں جس کی وجہ یہ ہے کہ اب امریکہ کو پاکستان کی ایک تو ضرورت نہیں رہی۔ دوم پاکستان کا چین پر انحصار بڑھنے سے وہ خفاہے ۔ جس سے امکان ہے کہ اب امریکہ ہماری معاشی مشکلات میں تعاون کرنے اور حل میں معاونت کرنے کی بجائے بڑھانے میں دلچسپی لے سکتاہے ۔ لہٰذا ضرورت اِس امر کی ہے کہ درآمدات کے لیے بھی قرض لینے کی بجائے پاکستان خودانحصاری کی پالیسی اپنائے۔ اِس حوالے سے رومانیہ ، چیک سلواکیہ اورہنگری جیسے ممالک کی پالیسیاں اپنائی جاسکتی ہیں مگر اِس سے پہلے ضروری ہے کہ چین کے حوالے سے پاکستان اپنی غیرمحتاط تعلقات کی پالیسی کا ازسر نو جائزہ لیکر نظرثانی کرے اور اُسے قومی مفاد کے ہم آہنگ بناکرمشترکہ ترقی و خوشحالی کاہدف حاصل کیا جائے ۔نیز مال کے بدلے مال یا پھر مقامی کرنسی میں تجارت ہونیز ملک میں نئے پیداواری منصوبے لگانے کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ تب ہی باہمی روابط کا پاکستان کوبھی فائدہ ہوسکتا ہے ۔
٭٭٭