جوشِ خطابت
شیئر کریں
زرّیں اختر
‘اسپورٹس مین اسپرٹ ‘کرکٹ کے شائقین کی ٹی وی اسکرین کے سامنے سانسیں بند ہوجاتی ہیں ،میدان میں موجود تماشائیوں پر خاموشی چھا جاتی ہے اگر آخری گیند فیصلہ کن ہو۔ اس وقت سب سے بھاری ذمہ داری بائولر اور بلّے باز پر، سب کی نظریں ان پر اور وہ لمحے جب بائولر بھاگنا شروع کرتاہے ۔ اسپورٹس مین اسپرٹ کا مظاہر ہ یہ کہ آخری گیند پر جو بھی ہو بعد میں ہارنے والی ٹیم جیتنے والی ٹیم کو مبار ک باد دیتی ہے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان مصباح الحق اور بھارتی کرکٹ ٹیم کے کپتان مہندرا سنگھ دھونی بڑے ٹھندے مزاج کے کپتان مشہور ہیں ۔ کھیل جس میں بھاگ دوڑ ہو ،پسینہ بہہ رہاہو، آخری بال پر میچ کا فیصلہ ہونا ہو اور اگر وہ میچ بھی ورلڈ کپ کا ہوتو۔۔۔وہ مہم جویانہ قسم کے جذبات اور ان پر قابو ‘اسپورٹس میں اسپرٹ’کا عملی مظاہرہ ہے، جذبات پر دماغ کا کنٹرول۔
زندگی میں کئی ایسے مواقع آتے ہیں جب بوکھلاہٹ سوار ہو جاتی ہے اور اس پر قابو پانے کی کوشش کرنی پڑتی ہے۔ مثلاََ اگر موقع یہ ہو کہ لڑکے والے لڑکی دیکھنے آئے ہیں اور لڑکی پر بوکھلاہٹ سوار ہے تو اس سے چائے کاپرچ میں چھلک جانا عام سی بات ہے،یا لڑکا بوکھلاہٹ کا شکار ہے تو اس سے بھی کوئی بے ضرر سی حماقت سرزد ہوسکتی ہے جو نہ جانے کیوں شرمندگی کا باعث بنتی ہیں ،ایسی چھوٹی چھوٹی کسی کا کچھ نہ بگاڑنے والی گھبراہٹیں۔ غرض بوکھلاہٹ و گھبراہٹ عام سی انسانی ذہنی کیفیات ہیں ۔ لہٰذااگر نو منتخب وزیرِاعظم خود کو اپوزیشن لیڈر کہہ گئے تو کون سی بڑی یا بری بات ہوگئی۔ امریکی صدر بھی اکثر لڑکھڑاتے رہتے ہیں اور ان کی خبریں بھی اخبار کی زینت بنتی رہتی ہیں ۔ لیکن نہ یہ کھیل کا میدان تھا نہ بر دکھوے کا موقع۔جذبات پر دماغ کے مکمل قابو کے نتیجے میں ہی زبان کو پھسلنے سے روکا جاسکتاہے۔ بسا اوقات زبان کا پھسلنا اتنا اہم نہیں ہوتا لیکن کس کی زبان پھسلی اور پھسل کر کون سے الفاظ ادا ہوئے یہ سب اس پھسلن کو اہم بنا دیتاہے جیسے شہاز شریف کی زبان پھسل گئی اور انہوں نے خود کو ‘قائد ِ حزب ِ اختلاف ‘ کے چنائو پر اتحادی جماعتوںکا شکریہ ادا کردیا۔ یہ لاشعور بھی ناکیسے کیسے گل کھلاتاہے۔
٭٭٭٭٭
لو دسو ،کر لو گل
مریم اورنگ زیب آج کل افسوس میں ہیں۔انہیں افسوس اس بات کاہے کہ سڑکوں کی بد تمیزی پارلیمان تک پہنچ گئی ہے۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ ڈیفنس کلفٹن لالو کھیت گولیمار سے متاثر ہے یا یہ اعتراف ہے کہ سڑک چھاپ پارلیمان تک پہنچ گئے ہیں۔ زبان تو عوام نے سب ہی کی سنی ہے ۔ سب ایک سے بڑھ کر ایک ہیںبلکہ یہی وہ مقام ہے جس پر اقبا ل کا یہ شعر صادق آتاہے کہ :
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اورنہ کوئی بندہ نواز
زبان کی حد تک ہی نہیں یہ ہمارا قومی مزاج بن چکا ہے کہ مخالفت میں سب اصول اور اخلاقیات بالائے طاق رکھ دی جاتی ہیںاور ایوان حمام بن جاتاہے۔ کتنی نسلیں داغ داغ اجالا دیکھیں گی۔ ہم نے اپنے اُستاد محترم سے سوال کیا تھا کہ کشمیر کے مسئلے پر اتنا لکھا جا چکا ہے، اب مزید گنجائش کہاں ہے؟ استاد محترم نے جواب میں فرمایا کی جب تک کوئی مسئلہ حل نہیں ہوجاتا اس پر لکھاجاتا رہے گا۔ تو بس لکھا جاتارہے گا۔ آج کے اخبار دیکھ لیں اور پچاس برس پہلے کے پاکستان سے شائع ہونے والے اردو اخبارات اٹھاکر دیکھ لیں ،وہی سیاست دانوں کی زبان اور دعوے اور وہی سماجی مسائل۔ اس میں ایک پہلو جذباتیت کا ہے جو روز اوّل سے اردو اخبارات کا خاصا ہے ۔ اس کو ماہرین برصغیر کی گرم و مرطوب آب وہوا سے بھی تعبیر کرتے ہیں کہ لوگوں کے مزاجوں پہ موسموں کے اثرات ہوتے ہیں ۔ایک اور تجز یے کے مطابق اس وقت کے مخصوس سیاسی و سماجی ماحول کہ اردو صحافت ردعمل کی صحافت تھی اس لیے اس میں جذباتی و جارحانہ زبان ہونا ناگزیر تھا۔تاریخ کا وہ تسلسل اسی طرح جاری رہا ،وقت کے ساتھ بہتری نہ ہونا ایک وقت جمود اور پھر زوال ہے کیوں کہ وقت گزر رہاہے ۔
پاکستان میں نوجوان آبادی کا بڑا حصہ ہیں۔ کسی کو لگتا ہو کہ یہ خوش آئند ہے خاص طورپر کرونا کے دور میں کیوں کہ زیادہ ہلاکتوں کا خدشہ بچوں اور عمر رسیدہ افراد کوتھا۔ یہ کرونا میں خواہ بہتر ثابت ہوا لیکن یہ اشاریہ ہے پاکستان میں اوسط عمر میں کمی کا۔ وہ نوجوان طبقہ جس کا انتخاب پاکستان ہے اسی نوجوان طبقے کا انتخاب پاکستان تحریکِ انصاف ہے اور اس کی وجہ پچھلی حکومتوں سے عوام کی مایوسی ،یہ حکومتیں عوامی مفادات کی نمائندہ ہوتیں تو اسٹیبلشمنٹ کے سامنے گھٹنے نہ ٹیکتیں۔ سب کی یہی تاریخ ہے۔سیاست محلاتی سازشوں کا نام بن کر رہ گئی ہے۔ بڑے تجربے ہوئے ،ملک دولخت ہوگیالیکن ہمارا سفراسی دائرے اسی طرح جاری ہے۔
٭٭٭
لندن کے میئر پاکستانی نژاد صادق خان کاکہنا ہے کہ انہیں اپنی شناخت مسلمان اور پاکستانی ہونے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے ۔ برطانوی قدامت پسندوں کی نمائندہ جماعت ٹوری پارٹی کے سرکردہ رہنما لی اینڈرسن نے لیبر پارٹی سے تعلق رکھنے والے مسلمان میئر صادق خان پر الزام لگایا کہ وہ اسلام پسندوں کے قابو میں رہتے ہوئے کام کرتے ہیں۔ اس صورت ِ حال کا جو خوش آئند پہلو ہے وہ یہ لی اینڈرسن کو اسلاموفوبیو ا ور نسل پرستانہ بیان کے بعد ان کی ٹوری پارٹی سے رکنیت معطل کردی گئی لیکن لی اینڈرسن نے اپنے بیان پر معذرت کرنے سے انکارکردیا۔
٭٭٭
جو بھی کچھ ہے محبت کا پھیلائو ہے
ڈاکٹر امجد پرویزکی یاد میں کہ پاکستان ٹیلی وژن سے ستر کی دہائی میں نشر ہونے والا ان کا یہ پہلا گانا،شاعر امجد اسلام امجد ، پروڈیوسرسید زاہد عزیر؛شاید اب بھی لوگوں کے حافظے میں ہو کہ مغل بادشاہ جہانگیر کے مقبرے کے سامنے سیڑھیوں پر امجد پرویز بادامی یا ہلکے کتھئی رنگ کی شلوار قمیص زیب تن کیے یہ نظم گا رہے ہیں:
جوبھی کچھ ہے محبت کا پھیلائو ہے
تیرے میرے ابد کا کنارا ہے یہ
استعارہ ہے یہ
٭٭٭٭٭