میری تقریر میں رنگ اور کسی کا تو نہیں
شیئر کریں
مقام شعبہ سماجیات جامعہ کراچی
بتاریخ :2 مارچ
موضوع: بے خانماں بچے
کراچی یونیورسٹی کے شعبہ¿ سماجیات کے سیمناروں میں شمولیت کر کے مجھے وہی بے پایاں خوشی ہوتی ہے جو پاکستان کی کرکٹ ٹیم کو دبئی میں کرکٹ میچ کھیل کر ہوتی ہے۔ یہاں بھی وہی بے جان مردہ وکٹیں، وہی اپنی زبانیں،وہی دیسی بدمزہ کھانے، وہی میلے بدنما شلوار قمیض، وہی آنکھوں پر اندھیرا طاری کردینے والے عبائے۔
دبئی کے عبایوں اور یہاں والے عبایوں میں ایک بڑا نمایاں فرق ہے۔آپ خوش قسمتی سے اگر دبئی والے عبائے کے قریب سے گزریں تو لگتا ہے کہ جولائی کی تپتی ہوئی دوپہر میں آپ پر قیمتی فرنچ پرفیوم کا بادل برس گیا ہے۔اس عبائے سے عنقریب ایک دست حنائی برآمد ہوگا اور یہ گیت گنگناتے ہوئے آپ کے ہاتھ میں ایک قطری خط تھما دے گا کہ تھوڑے نادان ہو تم ،تھوڑے بدمعاش ہو تم،ہاں مگر سچ یہ ہے کہ میری جان ہو تم
آپ کے شعبے کی سربراہ پروفیسر کوثر خاصی بے رحم ہیں۔مجھے اتنا Taken for Granted لیتی ہیں کہ اس طرح کے پروگرام کے لیے بس واٹس اپ کے ایک میسج پر اکتفا کرتی ہیں ۔اب کی دفعہ کا میسج کچھ یوں تھا کہ” کل ہمارا شو ہے۔تجھے آنا ہوگا“ میں نے مدھم تیور سروں میں احتجاج کیا کہ ایک زمانے تک میں سرکار کا بڑا افسر تھا،اب یہ آپ کے سیمنارز مجھے کچھ کم کم سے لگتے ہیں۔وہ ہنس کر کہنے لگیں ”ارے تو میمن گجراتی ہوکر بھی ماں کی وہ نصیحت بھول گیا کہ کوئی دھندہ چھوٹا نہیں ہوتا اور دھندے سے بڑا کوئی دھرم نہیں ہوتا۔سو میں ان کے پروگرام میں بالکل ویسے ہی پہنچ جاتا ہوں جیسے سپریم کورٹ کو سجھاو¿نی دینے نون لیگ کا حسن سوگوار مریم اورنگ زیب اور پی پی کے مولا بخش چانڈیو چوہدری نثار کو کھدیڑنے ٹی وی کے ٹاک شوز میں آپہنچتے ہیں۔
شعبہ¿ سماجیات کے پروفیسرز اور طلبا مجھے بہت شریف لگتے ہیں۔شریف ویسے بھی مجھے بہت اچھے لگتے ہیں:چاہے وہ حاکم وقت نواز شریف ہوں، چاہے کبھی ہاں کبھی ناں کرکے جانے والے جنرل راحیل شریف، ہنسنے ہنسانے والے عمر شریف اور وہ حسن طلب کے شیرے میں لتھڑی ہوئی مشاءشریف کہ جس کے مطالبے ظالما کوکا کولا پلادے پر ہم نے کئی دفعہ کوک کی ڈیڑھ لیٹر کی بوتل خرید کر چوراہے کی فقیرنیوں میں جرعہ جرعہ بانٹ دی۔
ہمارا این جی او کے بارے میں ہمیشہ سے ایک تصور تھا کہ وہ گوری اور لمبی ہوتی ہے اور انگریزی بولتی ہے مگر یہاں جو ہمارے پہلو میں کوچوان بنے بیٹھے جرمن این جی او کے ملکی سربراہ بیٹھے ہیں ان سے مل کر بہت مایوسی ہوئی۔یہ داغ داغ اجالا ہمارے این جی او کے تصور سے صریحاً بغاوت کا کھلا اعلان ہے۔
ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ بچے ہوں یا بڑے ،ان کے اپنے گھراور آبائی بستیاں جبری طور پر چھوڑنے کی دو وجوہات تو انسان کی تشکیل کردہ ہوتی ہیں اور ایک کا معاملہ آفات ارضی و بحری سے ہوتا ہے۔انسان کے جبر سے لوگ بے گھر اس وقت ہوتے ہیں جب وہاں یا تو جنگ مسلط کی جائے جیسے عراق اور شام یا ان کا علاقہ حربی تنازعات میں گھر جائے جیسے افغانستان اور کشمیر،روہنگیا مسلمان یا بوسنیا کے مسلمان۔ انسان کی تشکیل کردہ ایک صورت بے خانمائی کسی عظیم منصوبے جیسے ڈیم یا بڑی فیکٹری کی تعمیر ہوتی ہے۔ایسے لوگ اگر میرپور چھوڑ کر بریڈ فورڈ، مانچسٹر یا برمنگھم بھی جابسیں تو افریقہ کی وہ کہاوت ان کا پیچھا نہیں چھوڑتی کہ آپ ایک گاﺅ ں سے آدمی کو شہر میں لاکر آباد کرسکتے ہیں مگر اس انسان میں سے گاﺅں کو کھینچ کر باہر نکال نہیں سکتے۔یہ بات آپ ریٹائرڈ فوجی افسران کے بارے میں بھی سوچ سکتے ہیں۔جن کا تفاخر اور تقدس،جن کا احساس تحفظ اور حالات سے کم آگہی کا ادراک آپ کو انہیں ٹی وی ٹاک شوز میںبودے دلائل دیتے ہوئے دیکھ کر ہوتا ہے۔
رہ گئی انجلینا جولی اور ایسے اور حسین برانڈ ایمبیسڈرز جو افغان بچوں کے درمیان میں تصاویر کھنچواکر دنیا کے ضمیر کو جھنجوڑنا چاہتے ہیں تو جان لیجئے کہ یواین او اور اس کی چھتر چھاﺅں میں چلنے والے ادارے Reactionaryتو کہے جاسکتے ہیں مگر اسباب بے خانمائی پر ان کا کوئی اختیار نہیں ، نہ وہ جارج بش سے عراق کی جنگ کا پوچھ سکتے ہیں نہ وہ بشار الاسد کا ہاتھ شام کی تباہ کاریوں سے روک سکتے ہیں۔ان کا سالانہ وجود کچھ متاثرین میں ہزار خیمے، خوارک اور دواﺅں کے چند ٹرکوں کی تقسیم اور اس پر میڈیا کا شور و غوغا تو ہے۔جنگ کو روکنا ان کے مقاصد اعلیٰ میں شامل نہیں۔
٭٭