عمران کے لیے عوامی تمغۂ امتیاز
شیئر کریں
رفیق پٹیل
تما م مقدمات میں عمران خان کی سزا 500سال بھی ہوسکتی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے بانی سابق وزیراعظم ، ورلڈ کپ جیتنے والے پاکستان کرکٹ ٹیم کے واحد سابق کپتان ،شوکت خانم کے بیٹے اور مختلف خیراتی اداروں ،ہسپتالوں، مفت تعلیم دینے والی اعلیٰ معیار کی ایک سے زائد یونیورسٹی کے بانی عمران خان کو اب تک دو علیحدہ علیحدہ مقدمات سائفر اور توشہ خانہ میں مجموعی طور پر 24 سال اور ان کی با پردہ اہلیہ بشریٰ بی بی کوتوشہ خانہ مقدمے میں 14 سال ان کی جماعت میں ان کے نائب اور سابق و زیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو سائفر مقدمہ میں 10سال کی سزا ہوگئی ہے ۔ان پر قائم بقیہ 198مقدمات میں بھی ممکنہ طور پر سزا ہوئی تو یہ سزا 200 سے 500 سال تک بھی جا سکتی ہے۔
حالات کا یہی رخ رہاتو اس طرح ایک اور ریکارڈ بھی عمران خان کے نام پر ہوگا۔ بد قسمتی سے ہمارا عدالتی نظام انصاف کی فراہمی کے معیار کے پیمانے پر 130درجے پر ہے اور بدترین درجے کے معیار پر 12ویںنمبر پر ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے وکلاء نے الزام عائد کیا ہے کہ انہیں صفائی کا موقع نہیں دیا گیا بلکہ حکومت کی جانب سے ہمارے لیے سرکاری وکیل مقرر کردیے گئے جو خود اس مقدمے میں سرکار کی پیروی کرتے ہوئے سز دلوانے کے حامی تھے ۔ یعنی ان کے مخالف سرکاری وکلاء کو ہی ان کا وکیل نامزد کردیا اور صفائی کا موقع بھی چھین لیا گیا۔ اس فیصلے کو عوامی پزیرائی ملنے کا دور دور تک امکان نہیں ہے ۔عمران خان کو بظاہر سرکاری سزا ہوئی ہے لیکن عوامی سطح پر انہیں تمغہ امتیازوشجاعت ملا ہے۔ ایسالگتاہے کہ یہ سزا عمران اور ان کے ساتھیوں کو نہیں ملی بلکہ سز اعمران خان نے دی ہے۔ بظاہر وہ قید میں ہے لیکن وہ خود آزاد ہے ا س نے ان سب کو سزادی ہے ۔یہ سزا ان کے لیے ہے جن کی وجہ سے ملک میں گزشتہ پونے دو سال سے انسانی حقوق کی پامالی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ عدلیہ،میڈیا، انتظامیہ دیگر سرکاری ادارے زوال پزیر ہیں یعنی ان کی ساکھ ختم ہوگئی ۔ان کے تمام کرتا دھرتا مزید بدنام ہوگئے۔ یہ سزا ان کوبھی ملی ہے جنہوں نے اعلانیہ آزاد حیثیت میں کامیاب ہونے والے امیدواروں کو ساتھ ملانے دیگر معنوں میں سودے بازی اور ہارس ٹریڈنگ کا ابھی سے اعلان کرکے ملک میں سیاسی نظام کو مزیدخراب کرکے اس میں جو کچھ معمولی شفافیت باقی بچی تھی اس کو بھی ختم کردیا ہے۔ اب جب تنقید ہوئی تو شرمندگی میں بیان بدل کر اسے نیا رنگ دے رہے ہیں۔ عمران خان نے یہ سزا ان کو بھی دی ہے جو گزشتہ پونے دوسال سے ملک کو مسلسل سیاسی و معاشی عدم استحکا م اور زوال کی طرف لے جارہے ہیں۔ جنہوں نے عوام کی جیب میں موجود دس لاکھ روپے کا صحت کارڈ ان سے چھین لیا ،جو پیٹرول کی قیمت میں انتہائی کم مدت میں چالیس فیصد اضافہ کرنے کے ذمہ دار ہیں جنہوں نے بجلی کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کیا جو ملک کو مسلسل غربت اور بدحالی کی جانب گامزن کرنے کے ذمہ دار ہیں جو ملک کے عوام کو بے اختیار بنانے ان کے جمہوری حقوق ختم کرنے کی نت نئی ترکیبیں تلاش کررہے ہیں جنہوں نے ملک کی عدلیہ کی رہی سہی ساکھ بھی ختم کردی جو ملک سے علمی اور تحقیقی مباحثے پر بندش عائد کر رہے ہیں جو ملک کے نوجوانو ں ،یونیورسٹی اور کالجوں کی بھاری اکثر یت کو ان کے سیاسی خیالات کی وجہ سے گالی سے پکارتے ہیں اور انہیں یوتھیا کہا جا تا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر مرحوم ستّار ایدھی بھی کو ئی سماجی اصلاحات کی تحریک چلاتے تو انہیں بھی پچاس سال کی سزا دے دی جاتی کیونکہ ان کے خیالات بہت انقلابی تھے اور ملک کی اشرافیہ کے وہ سخت مخالف تھے ۔اچھا ہوا کہ انہوں نے خودکو ایدھی ٹرسٹ تک محفوط رکھا۔ عمران خان اور ان کے ہمنوائوں کو صر ف اس صورت میں شکست دی جا سکتی ہے عمران خان سزائوںکے معاملات سے آگے جا چکا ہے ۔اس کا رتبہ وزیر اعظم یا ملک کے کسی بھی اعلیٰ عہدے سے بالا تر ہے اور یہ رتبہ اس کو سزائیں دینے کی وجہ سے ملا ہے۔ اس کا رتبہ وزیر اعظم کی حیثیت سے یہ نہیں تھا جو آج ہے وہ اتنے مقبول نہیں تھے لیکن اقتدار سے باہر کرکے انتخابات نہ کرانے کی وجہ سے وہ مقبول سے مقبول تر ہوتے گئے ۔اس کی معمولی سی مثال دی اکنامسٹ میں تحریر کیا
گیا ایک مضمون ہے۔ اس مضمون نے ایسی دھو م مچائی کہ لوگ حیران ہوگئے ہیں ۔دنیا میں اس طرح کی پزیرائی کسی کو بھی نہیں ملتی ہے۔
دنیا کی معیشت پر اثر اند از ہونے والے عالمی جریدے بلوم برگ نے تیس جنوری کو ایک رپورٹ شائع کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستان کے بڑے سرمایہ داروں کی رائے یہ ہے کہ ملک کی معیشت کو عمران خان مستحکم کرسکتا ہے۔ دنیا کے معتبر ترین اخبارات نہ صر ف ان سزائوں کا مذا ق اڑا رہے ہیں ، ان سزائو ں کے بخیے ادھیڑ دیے گئے ہیں بلکہ ہمارے اداروں کی ساکھ ان رپورٹوں سے متاثر ہورہی ہے۔ دی گارڈین نے 31جنوری کی اشاعت میںتحریر کیا کہ عمران خان کو دی جانے والی سزا میں عدالتی طریقہ کار اور انصاف کی نفی کی گئی۔ کارروائی عدالت کے بجائے جیل میں کی گئی اور عمران خان کے وکلاء کو جرح کی اجازت نہیں دی گئی۔ عمران خان کی سیاسی جماعت پی ٹی آئی کے خلاف کئی ماہ سے کریک ڈائون جاری ہے۔ انہیں جلسے جلوس ، کارنر میٹنگ یا ریلی نکالنے کی اجازت نہیں ہے۔ ٹی وی کے تمام چینل پران کے بیانات پر پابندی ہے۔ ان تمام باتوں کے باوجود انہیں زبر دست مقبولیت حاصل ہے۔ اس ساری کارروائی کے نتیجے میں پہلے سے کمزور جمہوریت بہت پیچھے چلی جا ئے گی اور انتخابی عمل کی ساکھ بری طرح متاثر ہوگی ۔اس عمل سے عوام اور ووٹرز بڑی تعداد میں غم وغصے میں پائے جاتے ہیں۔عالمی سطح پر اس رپورٹ کا بڑے پیمانے پر ہونے والے اثرا ت کی ملکی سطح پر کسی کو پرواہ نہیں۔ دھاندلی کے نتیجے میں آنے والی حکومت فالج زدہ ہوگی۔ حقائق سے کتنی ہی چشم پوشی کی جائے یہ سب کو نظر آرہا ہے کہ گزشتہ پونے دو سال کی کارروئیوں کے نتیجے میں ملک بہت پیچھے چلاگیا ہے ۔دھاندلی زدہ انتخابات جس میں ملک کی سب سے بڑی جماعت کو اس کے انتخابی نشان سے محروم کر کے عملی طور پر اس پارٹی کو تحلیل کردیا ہے جس کی جڑیں ملک بھر کے عوام میں کونے کونے میں پھیلی ہوئی ہیں جس سے قومی اتحاد کو فرغ دیا جا سکتاہے۔ اس عمل کو روک دیا گیا ہے ا س طرح کے اقدامات سے قومی اتحاد کو بھی شدید ڈھچکا لگتاہے۔ ملک کو متحد کرنے کے بجائے یہ عمل تقسیم پیدا کررہا ہے۔ ملکوں کے ترقی کرنے کا مسلمہ طریقہ کار عوام کی خوشحالی،تحفظ،ان کی امنگوںکی ترجمانی اور موثر ،ایماندا ر اور قانون کی حکمرنی پر عمل پیرا انتظامیہ ہے۔ گزشتہ پونے دو سال سے اس مسلمہ طریقہ کار کے برعکس کام کرکے استحکام کی لا حاصل کوشش کی جارہی ہے۔ پاکستانی عوام یکھ رہے ہیں کہ ایک مرتبہ پھر ایسے خاندان ملک پر مسلط ہونے کی کوشش کررہے ہیں جن کے بڑے بڑے محلاّت دنیا کے امیر ممالک میں ہیں اور وہ بار با ر کسی نہ کسی طریقے سے ملکی وسائل اور اقتدار کو اپنی دولت میں اضافے کے لیے استعمال کریں گے۔ عوام اس مرتبہ اپنے بچوں کا مستقبل تباہ کرنے کو تیار نہیں ہیں۔وہ ووٹ کے لیے نکلیں گے۔ اپنے حقوق کے حصول کی جدوجہدسے دستبردار نہیں ہونگے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔