کے پی کے اور پنجاب کا سنگم :میانوالی۔۔۔جہاں کئی تہذیبیں دفن ہیں!!
شیئر کریں
ضلع میانوالی میںصحابہ کرام کے مزارات اور سرکٹے سات بھائیوں کا مرقد ،دلچسپی کا تحقیق طلب موضوع
تحصیل عیسیٰ خیل میں مٹھا خٹک کے ایک بلند وبالا پہاڑ کے پہلو میں پچاس پچاس گز لمبی قبریں موجود ہیں
”یہ علاقہ بلوچستان اور سندھ سے بھی پہلے مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوا “مورخین دعویٰ
انوار حسین حقی
خیبر پختونخوااور پنجاب کے سنگم پر آباد ضلع میانوالی قدیم علاقوں پر مشتمل ہے ۔ ان علاقوں کا تعلق کسی خاص زمانے یا تہذیب تک محدود نہیں ہے بلکہ ان پہاڑوں اور بیابانوں میں کئی زمانے اور تہذیبیں دفن ہیں ۔
تاریخی اور جغرافیائی طور پر یہ وادیِ سندھ کا حصہ ہے ۔ ہندو مت ، گندھارا ، بدھ مت ، سمیت قدیم ترین ادوار کے آثار یہاں موجود ہیں ۔ یہ علاقہ تاریخ کی دسترس میں کب آیا اس بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔ مستند تاریخی کتب میں اس خطے کا ذکر موجود ہے ۔ گریسر اپنی شہرہ آفاق کتاب لنگوئےسٹک سروے آف پاکستان (Linguistic Survey of Pakistan ) میں وادی سندھ کی زبانوں کو دوحصوں میں تقسیم کرتا ہے ۔ ایک سندھی اور دوسری لہندی یا مغربی ( یعنی سورج کے اُترنے کا علاقہ یا سمت ) اُس کا کہنا ہے کہ ” مغربی زبان ( میانوالی سمیت ) بولنے والے علاقوں نے ہندوو¿ں کی مقدس کتابوں رامائن اور مہا بھارت کے دو کرداروں کو جنم دیا ہے۔ رامائن کے بارے میں کہا جا تا ہے کہ یہ مہا بھارت کی نسبت زیادی قدیم داستان ہے ۔ اکثریت کی رائے ہے کہ ہندو بھی ان مقدس کتابوں کے زمانے کا تعین نہیں کر سکے ۔ان علاقوں میں مسلمانوں کی آمد کا سلسلہ قرونِ اولی سے ہی شروع ہو چُکا تھا ۔ مورخین اس کے لیے جو مضبوط حوالے پیش کرتے ہیں ان میں سے ایک معتبر شہادت یہ دی جاتی ہے کہ اس علاقے میں قدیم دور کی قبریں موجود ہیں ۔
ضلع میانوالی کی تحصیل عیسیٰ خیل کے پرانے مزارات اور قبروں کے مطالعاتی دوروں کے دوران دلچسپ تاریخی واقعات سے آگاہی اور مقامات کے مشاہدے کا موقع ملا ہے ۔ ان کے بارے میں کوئی حتمی رائے قائم کرنے کی بجائے دستیاب معلومات ، حالات و واقعات کو قارئین کی خدمت میں پیش کرنا زیادہ مناسب خیال کیا جا رہا ہے شاید یہ سب کچھ اس علاقے کی تاریخ کے مزید کھوج اور تحقیق کے لیے مہمیز کا کام دے سکے ۔
میانوالی کی تحصیل عیسیٰ خیل میں مٹھا خٹک کے ایک بلند وبالا پہاڑ کے پہلو میں پچاس پچاس گز لمبی قبریں موجود ہیں ۔ ان مزارات کی تاریخ کے حوالے سے کوئی مستند معلومات موجود نہیں ہیں ۔ تاہم مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ مزارات صدیوں پرانے ہیں ۔ علاقے کے زیادہ تر لوگ اس پر متفق ہیں کہ یہ صحابہ کرام کے مزارات ہیں ۔
ان قبروں تک جانے والے راستے پر ” مزارات صحابہ کرام “ کا بورڈ بھی لگا ہوا ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ان قبروں کی غیر معمولی لمبائی کے بارے میں مختلف روایتےں پائی جاتی ہیں ۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ ماضی میں یہاں کے لوگ برگزیدہ لوگوں کی قبریں لمبی بنایا کرتے تھے ۔ پہلے یہ قبریں کچی تھیں اب پختہ کر دی گئی ہیں ۔ کچھ یہ کہتے سُنے گئے ہیں کہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کی لمبائی میں خود بخود اضافہ ہوتا چلا گیا جب ان کو پختہ کیا گیا تو خود بخود ان کی لمبائی میں اضافہ ہونا بند ہو گیا ۔
ان غیر معمولی لمبی قبروں کی تعداد تین ہے جن میں سے دو قبروں کی لمبائی پچاس پچاس گز ہے جبکہ ایک قبر 25 گز لمبی ہے یہ چھوٹی قبر بچے کی بتائی جاتی ہے ۔دور دراز سے لوگوں کی بڑی تعداد یہاں آتی ہے ۔ مختلف چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں اور منتیں مانگی جاتی ہیں ۔ یہاں زائرین کی رہائش کے لیے کمرے بھی بنے ہوئے ہیں، لیکن پینے کا شفاف پانی اکیسویں صدی کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی دستیاب نہیں ہے۔ بارش کا پانی جمع کرنے کے لیے ایک چورس حوض بنایا گیا ہے بارشیں نہ ہونے کی صورت میں ٹینکر کے ذریعے پانی لاکر اس حوض میں جمع کیا جاتا ہے ۔
اس سلسلے میں تحقیقی کام کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے ۔ تاہم علاقے کی تاریخ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ صحابہ کرام اس علاقے میں اسلامی لشکر کے ہمراہ تشریف لائے تھے۔
سلطان خیل کے گرد ونواح کا یہ پہاڑی علاقہ تاریخی حوالوں سے بھرا پڑاہے، اس خطے میں سرہنگوں ، نیازیوں اور مروتوں کی لڑائیاں بھی تاریخ کاحصہ ہیں ۔ یہ وہی خطہ ہے جس کے بارے میں مورخین دعویٰ کرتے ہیں کہ ”یہ علاقہ بلوچستان اور سندھ سے بھی پہلے مسلمانوں کے ہاتھوں فتح ہوا “ ۔پروفیسر سلیم احسن جنہوں نے میانوالی کی تاریخ پر خاصا کام کیا ہے وہ بھی اس علاقے میں اسلامی لشکر کی آمد کا ذکر کرتے ہیں ۔ اسی تاریخی پس منظر میں محمد منصور آفاق بھی اس علاقے کو ”باب الاسلا م “ کہتے ہیں ۔
پروفیسر ملک محمد اسلم گھنجیرہ ( مرحوم ) کی تحقیق کے مطابق بلوچستان کا علاقہ سندھ سے بھی پہلے فتح ہو کر مسلمانوں کی سلطنت میں شامل ہوچُکا تھا ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ حجاج بن یوسف نے راجہ داہر کے خلاف محمد بن قاسم کو یلغار کرنے کے لیے بھیجنے سے پہلے بلوچستان کے نائب گورنر علافی کو سندھ پر حملہ کرنے کے لیے بھیجا تھا ۔ مگر اس کے باوجود بلوچستان کو ہند کا باب الاسلام اس لیے نہیں کہ سکتے کہ بلوچستان جغرافیائی اعتبار سے باقی ہندوستان سے الگ تھلگ تھا ۔ اس علاقے کا ایران کی ساسان سلطنت کا جزو ہونے کی وجہ سے اس کا ہند سے سیاسی اور ثقافتی رابطہ برائے نام تھا نیز یہ کہ بلوچستان نے باقی ہندوستان کی عسکری یا فکری تسخیر میں کوئی قابلِ ذکر کردار ادا نہیں کیا ۔
سندھ 711-712 عیسویں ( 90-91 ہجری ) میں فتح ہو کر اسلامی سلطنت کا حصہ بنا اور صدیوں تک اسلامی سلطنت کا حصہ رہنے والے اس علاقے سے ہندوستان کے دوسرے حصوں کو فتح کرنے کی کوشش کی گئی, اس علاقے نے فوجی اور سیاسی کامرانیوں سے زیادہ نظریاتی اور تہذیبی فتح کے در وا کیے اسی لیے سندھ کو باب الاسلام کہا جاتا ہے ۔ یہ لافانی اعزاز خطہ مہران سے کسی طرح بھی چھینا نہیں جا سکتا ۔
مورخین کا کہنا ہے کہ سندھ اور بلوچستان کے علاوہ عربوں کا پاک وہند میں داخل ہونے کا ایک اور راستہ بنوں اور میانوالی کا علاقہ ہے یہ علاقہ سندھ اور بلوچستان کی فتح سے بہت پہلے مسلمانوں کے قبضہ میں آیا ۔ پروفیسر محمد اسلم ملک گھنجیرہ( جو اس علاقے کی تاریخ کے حوالے سے اتھارٹی سمجھے جاتے ہیں) لکھتے ہیں ” یہ علاقہ دیر تک اسلامی سلطنت کے ماتحت نہیں رہا ۔ کیوں کہ جب زابلستان ( کابل اور اس کے ملحق علاقوں ) میں بغاوت ہوئی تو یہ علاقہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے نکل گیا ۔ اور پھر دوبارہ فتح نہیں کیا جا سکا ۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس علاقے کی تسخیر سے ہندوستان کی مزید تسخیر کا باب وا نہیں ہوا ۔ لیکن اس علاقے کا اسلامی فتوحات کے آغاز میں ہی فتح ہوجانا کئی لحاظ سے اہم تھا .خاص کر اس لیے کہ بلوچستان کے برعکس یہ علاقہ ایرانی سلطنت میں شامل نہ تھا ۔ اس لیے یہ ہندِ اصل ( India Proper ) میں شمار ہوتا تھا ۔ یہ علاقہ ابتدائی اسلامی فتوحات یعنی 44 ہجری ، یا 665-666 عیسوی میں فتح ہوا ۔اس لیے کہا جاسکتا ہے کئی صحابہ کرام نے بھی اس میں شرکت فرمائی ہوگی، اس علاقے پر مسلمانوں کے اس حملے کا احوال بلاذری نے فتوح البدان میں یوں لکھا ہے کہ 44 ہجری بمطابق 665-66 عیسوی میں مہلب بن صفرہ نے بتہ اور الاھواز پر حملہ کرکے کفار کے ساتھ جنگ کی ۔ طبری اور ابن الاثر نے اس کی کچھ مزید تفصیل اس طرح دی ہے کہ ©©” اس وقت خراسان کے جنرل آفیسر کمانڈٹ عبد الرحمان ابنِ سمرہ تھے اور مہلب ابن ابی صفرہ ان کے زیر کمان آفیسر تھے اور تسخیر کابل کے بعد ہندوستان کی طرف پیش قدمی کرتے ہوئے اس لشکر نے بتہ اور الاھواز پر حملہ کیا ۔
اس علاقے میں دریائے سندھ کے مغربی پہاڑ پر چشمہ بیراج کے قریب واقع قلعہ کافر کوٹ کو کنگھم نے آرکیالوجیکل سروے کی جلدXIV میں شامل کرتے ہوئے اسے ( Kafir kot of Till Raja ) کہا ۔ اس قلعے پر عر ب حملہ آوروں کے نشانات چند قبور اور ایک بے ترتیب سی مسجد کی صورت میں موجود ہیں ۔ اس سے مورخین کے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ مہلب نے بنوں کا علاقہ فتح کرنے کے بعد اس قلعے پر حملہ کرکے اسے فتح کیا ہوگا ۔ اس قلعے میں جو قبریں بنائی گئی ہیں وہ قلعے کے بھاری بھرکم پتھروں سے بنائی گئی ہیں ۔ ان کے ساتھ ایک مسجد بھی ہے جس کی چوڑائی زیادہ نہیں ہے ۔ قبلہ کی سمت مصلیٰ بنا ہوا ہے ۔ اس مسجد کی اُونچائی قلعے کی زمین سے تین سے چار فٹ اُونچی ہے یہ بھی قلعے کے اُکھڑے ہوئے پتھروں سے بنائی گئی ہے ۔ یہاں مسجد کی موجودگی اس خیال کو تقویت پہنچا تی ہے کہ حملہ آور مسلمان تھے ۔ پروفیسر ڈاکٹر اسلم ملک کہتے ہیں کہ ” یہاں عرب حملہ آوروں کی ہی قبریں ہیں اور یہ مہلب کے لشکر کے ہی مجاہدین تھے ۔ چونکہ مہلب کا حملہ 44 ہجری میں ہوا تھا ۔اس وقت سینکڑوں کی تعداد میں صحابہ بقیدِ حیات تھے ۔ اس لیے بعید نہیں کہ مذکورہ قبروں میں واقعی صحابیانِ رسول ﷺ محو استراحت ہوں اور اس طرح میانوالی کی سرزمین کو یہ فخر و امتیاز حاصل ہے کہ اُس نے ہندوستان میں سب سے پہلے صحابیانِ رسول کی قدم بوسی کا شرف حاصل کیا ۔ اور لشکرِ اسلام کو خوش آمدید کہا ۔
قلعہ کافر کوٹ کی مغربی جانب ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں کڑی خیسور کے قریب بھی اصحابِ رسول کے مزارات ہیں ۔
اسی علاقے میں سلاگر پہاڑ کی ڈھلوان اور دریائے سندھ کے کنارے آباد سینکڑوں سال پرانے شہر کالاباغ کے پرانے بازار کے آخر میں چند پرانی قبریں موجود ہیں ۔ان کے بارے میں کہا جاتاہے کہ یہ صحابہ کرام کے مزارات ہیں ۔ ان میں دوقبریں مستورات کی ہیں جن پر لکڑی کی جالیوں کا پردہ بنایا گیا ہے۔ یہاں ایک چھوٹے بچے کی قبر بھی ہے ۔ مقامی لوگوں کی اکثریت اس روایت پر متفق ہے کہ زمانہ قدیم میں شہر کے کئی لوگ بیک وقت کئی دنوں تک ایک ہی خواب دیکھتے رہے ۔ خواب میں ان لوگوں کو بتایا گیا تھا کہ ” آنے والے دنوں میں دریا کے پانی میں کچھ میتیں تیرتی ہوئی اس علاقے میں داخل ہوں گی، ان میتوں کی تدفین کی جائے کیوںکہ ان میں جو بڑی میتیں ہیں وہ اصحابِ رسول کی ہیں ۔ خواب نظر آنے کے بعد دریا کی نگرانی شروع کر دی گئی تھی ،خواب کے عین مطابق چند دنوں بعد کفن میں لپٹی نعشیں پانی میں تیرتی ہوئی شہر کی حدود میں داخل ہوئیں جنہیں مقامی لوگوں نے دریا سے نکال کر عزت و تکریم کے ساتھ دفن کر دیا ۔ شہر کی آبادی کے وسط میں یہ قبریں مرجع خلائق بنی ہوئی ہیں ۔ مقامی لوگوں نے اب اس مزار کے احاطے کی تعمیر نو کر کے اسے پختہ کر دیا ہے ۔
ضلع بھر میں جہاں اولیائے کرام کے مزارات کی کثرت ہے، وہاں ڈھک اور موسیٰ خیل کی پہاڑی کے ساتھ ساتھ خوبصورتی سے تراشے ہوئے پتھروں کی قبریں بھی موجود ہیں ۔ یہ سطح زمین سے اونچائی پر ہیں اور ایک لمبے چوڑے مربع چبوترے پر بنائی گئی ہیں ۔ ایک بڑے پتھر کے اندر دیا ( چراغ ) رکھنے کی جگہ بھی انتہائی نفاست سے بنی ہوئی ہے ۔ ان میں سے کئی قبروں پر جھنڈے لگے ہوئے ہیں اور ان صاحبانِِ مزار کے لیے علاقے میں خاصا احترام پایا جاتا ہے۔ صدارتی ایوارڈ یافتہ ا سکالر پروفیسر سلیم احسن کا کہنا ہے کہ ” ان قبروں کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ سات بھائی تھے جن کے سر دشمن نے کاٹ لیے مگر پھر بھی وہ سر کے بغیر چلتے ہوئے اس مقام پر پہنچے تھے ۔ اس علاقے میں راجہ رسالو اور کوکلا رانی کا قصہ بھی مشہور ہے ۔ وادی سندھ مختلف اقوام اور عہد کے زیر نگیں رہا جن میں ایرانی ، یونانی ، موریا، یونانی باختری ، ساکا ، پارتھین ، کشانم گپتا ، ہندو، اور بدھ قابلِ ذکر ہیں ۔ ان علاقوں کے تاریخی اور تہذیبی کھوج کی طرف توجہ دینے کی زیادہ ضرورت محسوس نہیں کی گئی جس کی وجہ سے قدم قدم پر تشنگی محسوس ہو تی ہے لیکن اس کے باوجود واقعات اور مقامات کی اہمیت کسی طرح سے بھی کم نہیں ہوتی ۔