بلوچستان کے حالات اور حکومتوں کی تشکیل کی کاریگری
شیئر کریں
بلوچستان کے حساس قضیہ کے حل کی تدابیر کی بجائے یہاں دراصل باری باری حکومتوں کے قیام و تشکیل کا بندوبست ترجیح ہے، بلوچستان عوامی پارٹی یعنی باپ جوڑی گئی اور ایک بڑی تعداد اس میں جمع ہوئی، یوں صوبے میں اس کی حکومت قائم ہوگئی، پھر اپنی حکومت میں نزاع پیدا کرکے جام کمال خان کو ہٹاکر صوبے کا مقدر عبدالقدوس بزنجو کے سپرد کیا گیا، مزید برآں باپ حکومت کی مدت پوری ہونی ابھی باقی ہے کہ اس کے حاضر ارکان اسمبلی نے باپ ثانی ڈھونڈ لیا۔ سردست ان حضرات میں ظہور بلیدی، سلیم کھوسہ، عارف جان محمد حسنی اور چند دوسرے شامل ہوئے ہیں۔ ہمراہ تحریک انصاف کے رکن اسمبلی میر نعمت اللہ زہری بھی شمولیت اختیار کرچکے ہیں۔یہ صاحبان کراچی کے بلاول ہائوس گئے، جہاں پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین سابق صدر آصف علی زرداری نے ان کے شانوں پر پارٹی پرچم ڈال کر بپتسمہ دیا، یعنی یہ پہلا مرحلہ ہے، دوسرے مرحلے میں کئی دیگر افراد شامل ہونے جارہے ہیں، عبدالقدوس بزنجو اور صادق سنجرانی بھی بے تاب ہیں، جام کمال خان البتہ حصہ بننے کے لیے شرائط رکھتے ہیں۔قبلہ تبدیلیاں ہورہی ہیں مگر کسی کو بلوچستان کے اندر امن اور سیاسی ہم آہنگی کی فکر ہے نہ سروکار، بعض تو چاہتے ہی نہیں کہ مفاہمت پیدا ہو، پچھلے دنوں گوادر جیسے حساس سیکیورٹی زون میں ’’حق دو تحریک‘‘ کے نام سے شدید احتجاج کے باعث گوادر میں سرکاری مشینری رک گئی، چینیوں کا پورٹ سے رابطہ منقطع ہوا، شاہراہیں بند ہوئیں، عالم یہ کہ وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو محو خواب رہے، غیر سنجیدگی اور صورتحال کی حساسیت سے دانستہ آنکھیں چرائی گئیں، وزیر داخلہ ضیاء اللہ لانگو کو 24 دسمبر کو بات چیت کیلئے بھیجا گیا، خرابی کا محرک ہی دراصل قدوس بزنجو ہیں کہ جس نے پچھلے سال دسمبر میں گوادر جاکر ’’حق دو تحریک‘‘ کے مطالبات تسلیم کرکے معاہدہ کیا اور ان کا احتجاج ختم کرایا، کوئٹہ آکر معاہدے پر عملدرآمد فراموش کرگئے، اور لمبی لمبی نیندیں لینے کا مشغلہ جاری رکھا۔اس طرح گوادر میں نوبت پھر احتجاج، ریلیوں اور دھرنوں کی پیدا ہوئی، 27 اکتوبر کو دوبارہ دھرنا شروع ہوا جو برابر 50 روز سے زائد جاری رہا، مگر کسی کے کان پر جو تک نہ رینگی، نتیجتاً ’’حق دو تحریک‘‘ نے احتجاج میں شدت لاتے ہوئے ایکسپریس وے کو بند کردیا، حکومت نے 25 اور 26 دسمبر کی رات کو طاقت کا استعمال کرتے ہوئے دھرنا ختم کرایا، حق دو تحریک کے رہنماء حسین واڈیلا سمیت دھرنے پر بیٹھے متعدد افراد کو گرفتار کرلیا، مولانا ہدایت الرحمان کی گرفتاری کی کوششیں کی گئیں، نتیجتاً حالات مڈ بھیڑ پر منتج ہوئے، جلائوگھیرائو، گرفتاریوں اور زدو کوب کے مناظر دیکھے گئے۔احتجاجیوں کی گرفتاریاں ہوئیں، اس دوران خواتین کی بڑی تعداد بھی سڑکوں پر مد مقابل تھیں۔
ڈپٹی کمشنر کے گھر اور ڈی آئی جی پولیس کے دفتر کا محاصرہ کیا گیا، پولیس شیلنگ کرتی رہی اور مظاہرین پتھر پھینک کر جواب دیتے۔ آئی جی پولیس بلوچستان عبدالخالق شیخ نے مظاہرین پر پیٹرول بم کے استعمال کا الزام بھی لگایا، اس ہنگامے کے دوران ایک پولیس اہلکار جاں بحق ہوا، پولیس نے بتایا کہ اہلکار کی موت گردن میں گولی لگنے سے ہوئی، گوادر کو تربت، باقی بلوچستان اور کراچی سے ملانے والی شاہراہیں بھی کئی روز بند رہیں۔ گوادر، پسنی، اورماڑہ، جیونی اور سربندر میں چار دنوں تک کاروبار زندگی مفلوج رہا۔کشیدگی کے پیش نظر حکومت نے گوادر میں تقریباً ایک ہفتہ ٹیلی فون نیٹ ورک اور انٹرنیٹ سروس بند رکھی، بجلی کی بندش بھی رہی، حق دو تحریک کے فعال کارکنوں کی گرفتاریوں کیلئے چھاپے مارے گئے، 150 سے زائد پکڑے گئے، ڈپٹی کمشنر نے مینٹی ننسس آف پبلک آرڈر (ایم پی او) کے سیکشن تین اور سولہ کے تحت متعدد افراد کو ایک ماہ کیلئے قید کرکے تربت جیل بجھوادیا۔ نیز مولانا ہدایت الرحمان سمیت ’’حق دو تحریک‘‘ کے رہنمائوں اور کارکنوں کیخلاف پولیس اہلکار کے قتل، اقدام قتل، دھماکا خیز مواد ایکٹ، انسداد دہشتگردی ایکٹ، کار سرکار میں مداخلت، بلوے اور جلائوگھیرائوکی دفعات کے تحت متعدد مقدمات درج کئے گئے ہیں۔جماعت اسلامی نے پولیس کے کریک ڈائون کیخلاف ملک کے تقریباً تمام چھوٹے بڑے شہروں میں احتجاج کیا، گوادر کے لوگوں سے یکجہتی کا اظہار کیا، نیشنل پارٹی نے بھی گوادر میں طاقت کے استعمال پر حکومت پر کڑی تنقید کی تاہم بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) اور پارٹی کے سربراہ سردار اختر مینگل مطلق خاموش ہیں۔مولانا ہدایت الرحمان تو یہاں تک کہتے ہیں گوادر سے بی این پی کے رکن صوبائی اسمبلی حمل کلمتی کی نشاندہی پر ان کے کارکنوں کیخلاف کارروائیاں ہورہی ہیں۔ حق دو تحریک نے چند روز میں دوبارہ احتجاج کا عندیہ دے دیا ہے۔ گوادر تحریک سے بلوچ افراد اثر لئے ہوئے ہیں، وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے وسائل ہڑپ ہورہے ہیں اور گوادر کی مقامی آبادی فنا سے دو چار ہے۔ صوبے کی حکومت اور محکمہ فشریز کا سمندر میں غیر قانونی شکار کرنے والے ٹرالرز کیخلاف سطحی اقدامات کراکر عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی سعی کررہی ہے حالانکہ خود حکومت کے لوگ ٹرالر مافیا کا حصہ ہیں۔ایران سرحد پر کاروبار کے مواقع اور سہولیات نظر انداز ہیں، حالات موافق بنانے اور سدھارنے کی بجائے صوبے اور ملک کی اشرافیہ حکومتوں کی تشکیل کی بھاگ دوڑ میں ہے جبکہ خراب حالات سیکیورٹی اداروں کے لیے چھوڑے جارہے ہیں، صوبے کے اندر مصنوعی کی بجائے حقیقی نمائندے برسر اقتدار ہوں تو یقیناً حکومتی رٹ قائم ہوگی، رٹ قائم ہوگئی تو ہر محکمہ و ادارہ اپنی آئینی حدود میں رہ کر کام کرے گا۔لاپتہ افراد کا مسئلہ حقیقت رکھتا ہے، بڑی تعداد میں نوجوان لاپتہ ہیں، یہ مسئلہ حقیقت نہ ہوتا تو عدالتی اور حکومتی کمیشن قائم نہ کئے جاتے، خود آئی ایس پی آر نے کوئٹہ میں ہونیوالے 30 نومبر 2022ء کو کوئٹہ چھائونی کے بلال آڈیٹوریم میں ‘‘ نیشنل ورکشاپ بلوچستان ‘‘ (این ڈبلیو بی 10) میں پورا ایک سیشن لاپتہ افراد کے حوالے سے بحث کیلئے مخصوص رکھا، جس میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین نصر اللہ بلوچ کو بھی مدعو کیا گیا تھا، جنہوں نے پوری آزادی سے اپنی بات رکھی۔
اس سیشن میں سینئر کالم نگار و اینکر حامد میر، سینئر اینکر عبدالمالک اور تجزیہ کار بیرسٹر سعد رسول شریک ہوئے۔ حامد میر نے کمانڈر 12 کور لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور کی موجودگی میں کھل کر اپنا نقطہ نظر پیش کیا، جنرل آصف غفور ان کے تلخ اور کاٹ دار جملے تحمل اور خندہ پیشانی سے سنتے رہے۔ لاپتہ افراد کمیشن کے سربراہ جسٹس فضل الرحمان بازئی نے بھی اس موقع پر گفتگو کی۔اس مسئلے بارے مبالغہ آرائی بھی البتہ کی جاتی ہے، ایک تراشے ہوئے کردار کا ذکر حامد میر بھی کرتے رہتے ہیں اور 24 نومبر 2022 ء کو شائع ہونے والے اپنے کالم میں ایک بار پھر لکھا ہے کہ بلوچستان کے علاقے کوہلو سے تعلق رکھنے والی ایک اسکول ٹیچر زرینہ مری 2005ء سے اپنے شیر خوار بچے سمیت لاپتہ ہیں، حالانکہ یہ خلاف حقیقت ہے۔ زرینہ مری ایک افسانوی کردار ہے، گمشدگی کے خلاف آج تک کوئی فرد دعویٰ لے کر سامنے نہیں آیا ہے، اس نام کی کوئی خاتون ضلع کوہلو میں ہے اور نہ بچے سمیت لاپتہ کی گئی ہے، نہ نادرا ریکارڈ میں موجود ہے، یہاں تک کہ محکمہ داخلہ بلوچستان کی رپورٹ میں بھی اس نام کی کسی خاتون سے متعلق ضلع کے محکمہ تعلیم میں ملازمت اور گمشدگی کی اطلاعات بھی نہیں ہیں۔مذکورہ ورکشاپ میں حامد میر صاحب نے کہا کہ سپریم کورٹ کی کوئٹہ رجسٹری میں لاپتہ افراد کے حوالے سے سماعت کے موقع پر ان پر حملہ کرایا گیا اور بعد ازاں ان کی سیکیورٹی پر مامور ایس پی اور سپاہی بھی قتل ہوا، یقینی طور اشارہ اداروں کی طرف تھا، معلوم نہیں میر صاحب کو ایس پی اور سپاہی کے قتل کی خبر کس نے دی ہے جبکہ ایسا کوئی واقعہ سرے سے رونما نہیں ہوا ہے۔ حملے کی حقیقت یہ ہے کہ ان سے بلوچستان ہائیکورٹ کے احاطے میں کوئٹہ کے ایک معروف پشتون قوم پرست رہنما، سینئر وکیل خالد خان ایڈووکیٹ الجھ پڑا تھا، وہ اور ان کے ساتھی وکیل حامد میر کے ایک کالم پر مشتعل تھے جو 24 اکتوبر 2011ء کو روزنامہ جنگ میں شائع ہوا تھا۔حامد میر نے اس کالم میں ایک برطانوی صحافی ‘‘ لوسی مارگن ایڈورڈ‘‘ کی کتاب سے افغانستان کے تاجکوں کا ایک محاورہ نقل کیا تھا کہ ‘‘سانپ پر اعتبار کر لو لیکن کبھی کسی طوائف پر اعتبار نہ کرو اور طوائف پر اعتبار کرلو لیکن کبھی کسی پختون پر اعتبار نہ کرو’’۔ خالد خان ایڈووکیٹ کا دعویٰ تھا کہ حامد میر نے اپنے کالم میں پشتونوں کی توہین کی ہے، یہ ہے دراصل اس حملے کی حقیقت۔بہرحال لاپتہ افراد کا مسئلہ حل طلب ہے اور حل تب ہی ہوگا کہ جب صوبے میں مفاہمت کی فضاء پیدا ہوگی، جنگ بندی ہوگی تو گمشدگیوں کا باب ہمیشہ کیلئے بند ہوجائے گا۔ حقیقت یہ بھی ہے کہ آئے روز ریاست کے مفاد اور سیکیورٹی فورسز پر حملے ہوتے ہیں، جس کی ذمہ داری کالعدم بلوچ گروہ دھڑلے سے بغیر ندامت کے قبول کرتے ہیں، محض 25 دسمبر کو کوہلو سمیت صوبے کے مختلف علاقوں میں 9 بم دھماکے ہوئے، کوہلو میں ریموٹ کنٹرول بم سے ایف سی کی پیٹرولنگ میں مصروف اہلکاروں کی گاڑی نشانہ بنائی گئی، جس میں کیپٹن فہد سمیت 5 اہلکار شہید ہوگئے، یعنی یہ گروہ آزادی کی جنگ کا دعویٰ رکھتے ہیں تو ایسے حالات میں لاپتہ افراد کا معاملہ حل کیسے ہوسکتا ہے؟۔غرض گوادر میں لوگوں کے جائز مطالبات پر سنجیدگی سے پیشرفت ضروری ہے، کہیں حالات سنگینی کی طرف نہ جائیں، صوبے میں پارٹیاں بنانے اور حکومتیں تشکیل دینے کی کاری گری غیر یقینی حالات کا باعث ہوگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔