میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
پہلی ریڈانڈین امریکی وزیر داخلہ

پہلی ریڈانڈین امریکی وزیر داخلہ

ویب ڈیسک
منگل, ۵ جنوری ۲۰۲۱

شیئر کریں

(مہمان کالم)

کلاڈیا لارنس

جب نومنتخب امریکی صدر جو بائیڈن نے ریاست نیو میکسیکو کی رہائشی مس ہالینڈکو امریکہ کی نئی وزیر داخلہ بناکر اپنی کابینہ میں شامل کرنے کااعلان کیا تو ا س کے چند منٹ بعد مقامی ریڈانڈین سوشل میڈیا پر ایک جشن برپا ہوگیا۔ہماری کمیونٹی کے لوگوں نے جو مس ہالینڈ سے مل چکے تھے‘ ملک بھر میں جاری مقامی ایونٹس میں ان کی تصاویر کی پوسٹس لگانا شروع کر دیں۔میری ایک دوست نے لکھا ’’ہماری آنٹی نے ایک کارنامہ کر دکھایا ‘‘۔

اس جشنِ طرب کا جواز بھی بنتا ہے کیونکہ مس ہالینڈ اس لیگونا پیبلو قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں جوان 574ریڈ انڈین قبائل میں شامل ہے جنہیں فیڈرل سسٹم نے باقاعدہ تسلیم کر رکھا ہے۔وہ پہلی مقامی امریکی خاتون ہوں گی جو امریکا کی وزیر داخلہ بنیں گی اور صدر کی کابینہ میں اپنے فرائض سر انجام دیں گی۔مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر مس ہالینڈ کی تقرری کی توثیق ہوگئی تو بھی ان کی وزارت پھولوں کی سیج نہیں ہوگی۔مقامی امریکیوں کی نمائندگی بہت اچھی بات ہے مگر کمیونٹی چاہے گی کہ وہ ان کی توقعات پر بھی پورا اتریں اور اس وقت یہ توقعات بہت بلند ہیں۔مقامی کمیونٹی کے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ مس ہالینڈ ہماری پہلی وکیل ہوں گی جو صدیوں سے ہمارے قبائل اور لوگوں کے ساتھ خاص طور پر وزارت ِداخلہ کی طرف سے ہونے والی زیادتیوں کاازالہ کریں گی کیونکہ یہی وزارت بیورو آف انڈین افیئرز کی نگرانی کرتی ہے۔

مس ہالینڈ ایک طرف مقامی امریکیوں کے حقوق اور قبائلی خودمختاری کے لیے جدوجہد کی شناخت رکھتی ہیں تودوسری جانب انہیں فیڈرل سسٹم کے مفادات کا بھی تحفظ کرنا ہوگا ‘ا س لیے ان کے لیے ان دونوں کے درمیان ایک توازن برقرار رکھنا بہت مشکل ہوگا۔مس ہالینڈ دوسری مقامی امریکی خاتون ہیں جو کانگرس کی رکن منتخب ہوئی ہیں۔ بلا شبہ وہ ہماری کمیونٹی کی دیگر خواتین کے لیے ایک مشعل راہ ہیں‘ مگر جب بھی کوئی شخصیت اس طرح کا غیر معمولی اعزاز حاصل کرتی ہے تو اسے کئی ناخوشگوار اور ناگہانی مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔مس ہالینڈ کسی صدر کی کابینہ میں منصب سنبھالنے والی پہلا ریڈ انڈین فرد نہیں ہیں ‘ ہربرٹ ہوور کے مد مقابل آنے والے چارلس کرٹیز بھی مقامی امریکی تھے جو اپنی مقامی زبان Kawبڑی روانی سے بولتے تھے کیونکہ ان کی دادی نے یہ زبان انہیں اپنے گھٹنوں پربٹھا کر سکھائی تھی۔

اگرچہ چارلس کرٹیز مقامی امریکیوں کے لیے کوئی رول ماڈل نہیں ہیں کیونکہ انہوں نے ایسی پالیسیوں کو فروغ دیا تھا جو مقامی لوگوں کے لیے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوئیں۔انہوں نے ایوان کے رکن کے طو رپر جو کرٹیز ایکٹ متعارف کر ایا تھااس نے قبائلیوں کی زمینیں تقسیم کر دیں‘قبائلی حکومتوں کو کمزور کیااور قبائلی عدالتیں ختم کر دی تھیں۔کرٹیز کے الیکشن کے تقریباًایک صدی بعد فیڈرل گورنمنٹ اور ہماری قبائلی کمیونٹیز کے درمیان پروان چڑھنے والی تلخیاں آج بھی اسی طرح موجود ہیں۔اگرچہ 1970ء کے عشرے میں ہونے والے قبضوں کی روایت اب دم توڑ چکی ہے مگر پھر بھی مقامی امریکی اسے سول نافرمانی کے لیے ایک ضروری اقدام سمجھتے ہیں جس کی وزارت داخلہ او رخاص طور پر بیورو آف انڈین افیئرز کی طرف سے مقامی قبائل کے ساتھ روا رکھی جانے والی استحصالی پالیسیوں کی مخالفت کے لیے ضرورت بھی تھی۔

آج کل شایدہمیں ایسے واقعات زیادہ نظر آرہے ہیں جن میں وفاق کی ملکیت جائیدادوں پر قابض مقامی ریڈانڈینز کے مقابلے میں نیٹو یعنی مقامی وکلا فیڈر ل کورٹس میں زیادہ مقدمات دائر کررہے ہیں۔ ا س کی ایک مثال ییلو سٹون نیشنل پارکس سے ملحق وائلڈ لائف علاقوں میں مقامی قبائل کے بائسن (جنگلی بیل کی ایک قسم )کے شکار کی اجازت حاصل کرنے کے لیے ہونے والی قانونی لڑائی ہے۔ جنگلی حیات کے غیر مقامی ناظمین اور پارکس کے محافظ ریڈ انڈین قبائل کوبائسن کے شکار کی اجازت دینے کی مخالفت کر رہے ہیں۔دوسری طرف مقامی قبائل کی طرف سے یہ مو?قف اپنایا جا رہا ہے کہ بائسن کا شکار ان کی کلچرل سرگرمیوں کے تحفظ کے لیے از حد ضروری ہے۔ دوسری جانب یہ قبائل کو گوشت کی فراہمی کا بڑ اذریعہ بھی ہے۔مس ہالینڈ کے منصبی فرائض میں یہ امر بھی شامل ہے کہ ان کی زیر نگرانی کام کرنے والی وزارت داخلہ میں نیشنل پارک سروس اور بیوروآف لینڈ مینجمنٹ کی کارکردگی کا بہت قریب سے مشاہدہ کیا جائے گا۔
کسی بھی اہم مسئلے پرمقامی امریکیوں کی رائے میں یک رنگی اور یگانگت کا عنصر مفقود ہے ‘مگر عام طور پر ان کی کمیونٹی اپنے وسائل پر قبضے ‘اقدار کے امتزاج اور مرکز پسند کمپرومائزز کی راہ میں ہمیشہ مزاحمت کی دیوار بن کرکھڑی ہوجاتی ہے۔ ہماری کمیونٹی مس ہالینڈ کے بارے میں جو تاثر قائم کئے ہوئے ہے اگر انہوں نے اس سے کچھ زیادہ انحراف کرنے کی کوشش کی تو وہ ان پر Hang Around the Fortسے ملتی جلتی چھاپ بھی لگا سکتی ہے۔مگر دوسری طرف مقامی امریکی کمیونٹی پر بھی یہ بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بھی مس ہالینڈ کے بارے میں جائز اور حقیقت پسندانہ توقعات قائم کرے۔ہمیں مس ہالینڈ کو زیادہ سے زیادہ گنجائش اور موقع فراہم کرنا چاہئے کیونکہ جب وہ جو بائیڈن کی حکومت میں اپنا نیا کردار اداکرنا شروع کریں گی تووہ ایک راستے پرگامزن ہوں گی جہاں جگہ جگہ بارودی سرنگیں بچھی ہیں۔ بلاشبہ ان کے اس سفر میں کئی ایسے مواقع آئیں گے جب وہ خود کو کمزور سمجھ کر حوصلہ ہار جائیں گی۔جب وہ ایسا کریں گی تو یقینی بات ہے کہ ہماری کمیونٹی ان کا محاسبہ کرے گی‘ مگر یہاں میرے رائے کے مطابق ہماری کمیونٹی کو بھی غیر معمولی صبر کا مظاہرہ کرنا چاہئے خاص طور پر ان کے ابتدائی دنوں میں جب وہ ابھی اپنے آفس میں قدم جمانے میں مصروف ہوں۔مجھے کامل یقین ہے کہ ہم تحمل او ربرداشت کا عملی مظاہرہ کرنے میں کامیاب رہیں گے۔ہم سب کی یہ خواہش ہوگی کہ مس ہالینڈ اپنے اس نئے کردار کو کامیابی سے ادا کر سکیں۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اگر مس ہالینڈ نے مسلسل ایسے بڑے اقدامات کیے جن سے مقامی امریکیوں کے مفادات پر زد پڑی او ران کی قبائلی خودمختاری بھی متاثر ہوئی توہماری مقامی کمیونٹی کی طرف سے شدید اور یقینی رد عمل آئے گا اور وہ بطور وفاقی وزیر داخلہ سخت تنقید کی زد میں آئیں گی۔

چارلس کرٹیز کے ورثے کے معاملے میں ہمیں بہت زیادہ احتیاط کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔مس ہالینڈ جو بائیڈن کے ماتحت زیادہ سے زیادہ آٹھ سال تک اپنے فرائض انجام دے سکتی ہیں مگر انہیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ وہ اپنی پوری زندگی ایک نیٹو یعنی مقامی امریکی ہی رہیں گی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں