نیب کسی کے کنٹرول میں نہیں اسے لگام دینا ہوگی ،ڈپٹی چیئرمین سینیٹ
شیئر کریں
ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ایوان کی انسانی حقوق کمیٹی کے سپرد کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ نیب کی حراست میں لوگ مر رہے ہیں، نیب کسی کے کنٹرول میں نہیں، اسے لگام دینا ہوگی، کیا نیب افسران کا احتساب نہیں ہونا چاہیے؟ کیا نیب افسران خاص لوگ ہیں، کیا ان کو استثنیٰ حاصل ہے؟ نیب افسران کے اثاثے، ڈگریاں، ڈومیسائل چیک کیے جائیں، نیب افسران کی بھرتیاں کیسے ہوئیں، چیک کیا جائے جبکہ وزیراعظم کے معاون خصوصی شہزاد اکبر نے اپوزیشن کو جواب دیتے ہوئے کہا ہے کہ نیب قانون ہم نے نہیں بنایا ، پہلے موجود ہے ،نیب کے قوانین کو مزید موثر کرنے کی ضرورت ہے ،نیب کی تحویل میں صرف دو اموات ہوئی ہیں،نیب قوانین میں ترمیم بہتری کیلئے تو کر سکتے ہیں، اپنے مقصد کے لیے ختم نہیں کرسکتے،آمدن سے زائد اثاثوں پر پاکستان میں دس سال نااہلی کی سزا ہے،رجنٹینا میں ساری عمر کی نااہلی کا قانون موجود ہے، کچھ ممالک میں عمر قید کی سزا کا قانون ہے۔ پیر کو سینیٹ کا اجلاس چیئرمین سینیٹ محمد صادق سنجرانی کی زیر صدارت ہوا جس میں سینیٹر شیری رحمان نے بلوچستان مچھ میں دس افراد کے شہادت پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ہزارہ کمیونٹی کے خلاف مستقل مظالم ہورہے ہیں ،وزیراعلیٰ بلوچستان مظلوم فیملی کے ہاں جائے، کان کن مظلوم طبقہ وزیراعظم جا ئیں اْن پر مرہم رکھیں۔وزیراعظم کے مشیر ڈاکٹر بابر اعوان نے کہاکہ طالب علم کے قتل میں پولیس اہلکار گرفتار ہو چکے ہیں ،میں اْسامہ ندیم ستی کے گھر گیا اور اْن کے والدین سے ملا۔ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈوی والا نے قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو ایوان کی انسانی حقوق کمیٹی کے سپرد کرنے کا مطالبہ کردیا۔انہوںنے کہاکہ پہلی مرتبہ نیب کا معاملہ سینیٹ ایجنڈا پر آیا ہے، نیب نے سینیٹرز کو پریشان کر رکھا ہے۔انہوں نے کہا کہ نیب کو خط لکھا تھا کہ کسی سینیٹر کو گرفتار کرنے سے قبل یا انہیں بلانے سے قبل سینیٹ کو اطلاع دی جائے، چیئرمین نیب نے کہا تھا کہ اس حوالے سے سینیٹ کو اطلاع دیا کریں گے اور اس پر عمل جاری بھی تھا، لیکن روبینہ خالد دو سال سے احتساب عدالت میں در بدر ہو رہی ہیں اور نہ ان کا کیس چلتا ہے، محسن عزیز روس میں تھے جب انہیں فون آیا کہ نیب نے مالم جبہ کیس میں آپ کے خلاف انکوائری شروع کر دی ہے۔انہوںنے کہاکہ شیری رحمن کے سابقہ شوہر سے جبراً 164 کا بیان لکھوایا گیا، وہ انتہائی شریف آدمی ہیں، میرے پاس اب تک ان افراد کی 100 درخواستیں آچکی ہیں جو جیل میں ہیں یا نیب عدالتوں میں رْل رہے ہیں، ان کے ساتھ نیب کی جانب سے زیادتی ہو رہی ہے۔سلیم مانڈوی والا نے کہا کہ مجھے کہا گیا کہ ہم آپ کے چیئرمین سینیٹ کو بھی دیکھ لیں گے، کس ادارے میں اتنی جرات ہے کہ وہ کہے کہ چیئرمین سینیٹ کو دیکھ لیں گے۔انہوں نے کہا کہ کیس چلانے سے پہلے میڈیا میں عزت کو اچھالا جاتا ہے، میں نے کہا کہ مجھ سے ہونے والی تحقیقات کو میڈیا میں چلائیں، نوٹس کو تو بہت میڈیا پر چلاتے ہیں، مجھ سے پوچھا گیا کہ اپ منگلا کور کے ساتھ کاروبار کرتے ہیں، کہا گیا کہ آپ بے نامی ٹرانزیکشنز کرتے ہیں، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے منگلا کور کے ساتھ بے نامی ٹرانزیکشن کی؟ پورا ملک اس پر ہنس رہا ہے، اس ایوان کے ذریعے مطالبہ کیا جائے کہ کسی کی میڈیا میں پگڑی نہیں اچھالی جائے گی۔ان کا کہنا تھا کہ مجھے ایک وفاقی وزیر کا فون آیا کہ آپ ہمارے دل کی آواز ہیں، ہم نیب کے ساتھ کام نہیں کر سکتے، یہ کام کیوں نہیں کر پارہے؟ کیا حکومت کو یہ علم نہیں ہے۔ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ کوئی ایوان میں سے کہے کہ سلیم مانڈوی والا نے کرپشن کی ہے، نیب کی حراست میں لوگ مر رہے ہیں، خرم ہمایوں کے ساتھ 10 سال سے کام کر رہا تھا اس نے خودکشی کر لی، نیب کسی کے کنٹرول میں نہیں، اسے لگام دینا ہوگی، نیب کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو انسانی حقوق کمیٹی کے سپرد کریں۔انہوں نے کہا کہ کیا نیب افسران کا احتساب نہیں ہونا چاہیے؟ کیا نیب افسران خاص لوگ ہیں، کیا انہیں استثنیٰ حاصل ہے؟ نیب افسران کے اثاثے، ڈگریاں، ڈومیسائل چیک کیے جائیں، نیب افسران کی بھرتیاں کیسے ہوئیں، چیک کیا جائے۔