جلد بازی کی ضرورت بھی نہیں
شیئر کریں
امریکی صدر ٹرمپ کی طرف سے دھمکیوں کے بعد گزشتہ منگل کو پاک فوج کے سربراہ جنرل باجوہ کی صدارت میں کور کمانڈرز کانفرنس ہوئی جس میں ملکی سلامتی کی صورتحال اور بیرونی خطرات کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ دریں اثنا وزیراعظم کی سربراہی میں بھی ایک اجلاس ہوا جس میں تینوں مسلح افواج کے سربراہوں اور وفاقی وزرا نے بھی شرکت کی۔ امریکا میں تعینات پاکستانی سفیر اعزاز چودھری کو بھی ہنگامی طور پر بلایا گیا تھا تاکہ ان کو پاکستان کے موقف سے آگاہ رکھا جائے۔ ان اجلاسوں کا لب لباب یہ ہے کہ پاکستان اپنے رد عمل میں جلد بازی کا مظاہرہ نہیں کرے گا۔ جلد بازی کسی بھی معاملے میں اچھی نہیں لیکن مذکورہ موقف کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ فی الحال پاکستان کان دباکر بیٹھ رہے گا اور انتظار کرے گا کہ امریکا کیا کرتا ہے۔ ممکن ہے کہ کچھ عناصر اسے بزدلی سے تعبیر کریں لیکن یہ حقیقت مد نظر رہنی چاہیے کہ پاکستان اس وقت ہر طرف سے خطرات میں گھرا ہوا ہے۔ بھارت مسلسل اشتعال انگیزی کررہاہے اور ٹرمپ کے اعلان سے اسے مزید شہ مل گئی ہے۔ وہ اسے اپنی کامیابی قرار دے رہا ہے۔ پڑوسی مسلم ملک افغانستان کے حکمرانوں کا رویہ بھی دوستانہ نہیں بلکہ طویل عرصے سے دشمنی پر مبنی ہے اور اس کا جھکاؤ بھی بھارت کی طرف ہے۔
سوویت یونین کے افغانستان پر قبضے کے بعد افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی ایک عرصے تک پاکستان میں پناہ گزین رہے لیکن وہ بھی ٹرمپ کی دھمکی پر بغلیں بجارہے ہیں اور پاکستان کے خلاف اتحاد بنانے کی بات کررہے ہیں۔ ایک اور پڑوسی ملک ایران اس وقت خود بحران میں پھنسا ہوا ہے اور وہاں بھی امریکی شرارت رنگ لارہی ہے جس میں کچھ عرب ممالک بھی اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔ اس وقت صرف چین کی طرف سے ٹھنڈی ہوائیں آرہی ہیں۔ دوسری طرف پاکستان میں سیاسی بحران بڑھ رہا ہے۔ اس وقت ضرورت تو اس بات کی تھی کہ تمام رہنما مل بیٹھ کر امریکی دھمکیوں کے خلاف یکجہتی کا مظاہرہ کرتے اور اپنے اختلافات وقتی طور پر بھاری پتھر کے نیچے دبادیتے لیکن ہر ایک امریکا کے خلاف بیان تو دے رہا ہے مگر اتحاد کہیں نظرنہیں آتا۔
پاکستان کی سول اور ملٹری قیادت کی طرف سے اس پر اصرار ہے کہ امریکا پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرے جس نے دہشت گردی کے خلاف بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ لیکن امریکا یہ کیوں تسلیم کرنے لگا۔ اس نے تو ہمیشہ یہ تاثر دیا کہ پاک فوج ایک کرائے کی فوج ہے جو پیسے لے کر اس کے لیے لڑتی ہے۔ خود پاکستان کی سول اور فوجی قیادت ایک عرصے تک یہ دعویٰ کرتی رہی کہ افغانستان میں جنگ امریکا کی نہیں اس کی اپنی ہے۔ چنانچہ اس جنگ کو گود لے کر خود پاکستان کے قبائلی علاقوں میں بھی جنگ کی گئی۔ بہر حال اب یہ موقف بدل گیا ہے اور ’ڈومور‘ کے مطالبے پر ’نومور‘ کہا جارہا ہے۔ نائن الیون کے سانحہ میں کسی افغان کا کوئی کردار نہیں تھا لیکن امریکا افغانستان پر چڑھ دوڑا اور پاکستان نے اس کا قبضہ مستحکم کرنے میں جی جان سے ساتھ دیا جس کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت کو 123 ارب ڈالر کا نقصان پہنچ چکا ہے اور 80 ہزار افراد اپنی جانوں سے گئے۔ لیکن پاکستان کے حکمرانوں نے امریکا سے اتحاد کے خاتمے یا ’نومور‘ کہنے کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ اب امریکی صدر الٹا احسان دھر رہا ہے کہ پاکستان نے نہ ہونے کے برابر مدد کی اور ہم سے 33 ارب ڈالر کی رقم اینٹھ لی۔ اس پر پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف کیلکولیٹر لے کر بیٹھ گئے کہ ہم سے پائی پائی کا حساب لے لو۔ ان کو اب تک سمجھ میں نہیں آیا کہ بات حساب کتاب کی نہیں امریکا کی نیت خراب ہے اس سے حساب برابر کرنا چاہیے۔
پاکستان نے پھر عذر بے گناہی پیش کیا ہے کہ ناکامیوں کے صرف ہم ذمے دار نہیں، امریکی بیان پر مایوسی ہوئی ہے، اتحادیوں پر الزام لگاکر افغانستان میں امن قائم نہیں کیا جاسکتا لیکن امریکا یہ کب چاہتا ہے، وہ امن کے لیے نہیں مستقل قبضے کے لیے افغانستان میں بیٹھا ہے اب بھی امریکا نے کہاہے کہ پاکستان کو فوجی امداد دہشت گردوں کے خلاف کارروا ئی سے مشروط ہے۔ امریکا کو ’نومور‘ کہنے والے کیوں نہیں کہتے کہ امریکا اپنی جنگ خود لڑے۔ (تجزیہ )