میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
بلوچستان ،نئے گیس ذخائر کی دریافت

بلوچستان ،نئے گیس ذخائر کی دریافت

منتظم
جمعرات, ۵ جنوری ۲۰۱۷

شیئر کریں

اخوندزادہ جلال نورزئی
قومی قیادت اور مقتدر حلقوں پر اب واضح ہو چکا ہے کہ بلوچستان کے بغیر پاکستان ادھورا ہے ۔ ملک کے رقبے اور معدنیات کے لحاظ سے یہ بڑا صوبہ عشروں سے نظر انداز تھا۔ اب جوں جوں وقت گزر رہا ہے ،صوبے کی اہمیت اور قدر میں اضافہ ہوا ہے ۔ وجہ ظاہر ہے کہ اس صوبے کا سینکڑوں کلو میٹر طویل ساحل، گیس، تیل، کوئلہ ، کاپر ،گولڈ ، لوہا اور مختلف معدنیات ہیں جو پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بن چکے ہیں۔ ”ون بیلٹ ون روڈ “ کے تصور کی تکمیل بلوچستان سے مشروط ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری دراصل گوادر ہی کا نام ہے جس سے شاندار مستقبل وابستہ ہوچکا ہے۔ سوئی گیس نے عشروں پاکستان کی معیشت کا پہیہ چالو رکھا۔ بالخصوص پنجاب کی صنعتیں اس گیس کی بدولت چلتی رہیں۔ ملک بھر کی گھریلو ضروریات سوئی گیس سے پوری ہورہی ہیں۔ ایک لمحہ ایسا آیا کہ ایک خیال کو عوام کے ذہنوں میںراسخ کیاگیا کہ سوئی گیس کے ذخائر محدود ہوگئے ہیں ۔ اس طرح گویا بلوچستان سے توجہ ہٹائی گئی مگر جلد عیاں ہوا کہ بلوچستان قدرتی گیس سے مالا مال خطہ ہے۔ پچاس کی دہائی کے آغاز میں سوئی میں گیس دریافت ہوئی۔ ما بعد پیرکوہ اور لوٹی کے ذخائر دریافت ہوئے اور ڈیرہ بگٹی ہی میں اوچ کے مقام پر ایک اوربڑا ذخیرہ دریافت ہوا۔دراصل حق اختیار کا حصول بلوچستان میں وقتاً فوقتاً رونما ہونے والی شورشوں کی بنیاد رہا ہے ۔غرض اس ذیل میں نئی اطلاع یہ ہے کہ اب ڈیرہ بگٹی سے ملحقہ ضلع کوہلو میں گیس کے بڑے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ یہ سوئی کے ذخائر سے بھی بڑے ہیں۔ ”جندران“ کا علاقہ مری قبائل کے علاقے کوہلو اور کھیتران قبائل کے علاقے بارکھان کے بیچ میں واقع ہے۔ کوہلو میں دہائیوں تک حکومتوں کو مشکلات درپیش تھیں ۔جہاں نواب خیر بخش مری اپنے قبیلے کے تعاون و حمایت سے کسی کو تیل و گیس کی تلاش کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ سبی شاہرگ ریلوے سروس بند تھی ۔ اسی طرح سبی کوہلو، ہرنائی اور بارکھان کو جانے والی شاہراہ پر مدتوں کام نہ ہوسکا۔ 2006 میں سڑک کی تعمیر کا منصوبہ بنا، یوں 2016 ءمیں 180کلو میٹر طویل اس شاہراہ کا افتتاح ہوا۔ یہ شاہراہ سبی، کوہلو سے رکھنی تک تعمیر ہوئی ،گویا اب فورسز کو ان علاقوں میں اثر و رسوخ حاصل ہوچکا ہے ۔ چنانچہ اس کے ساتھ تیل و گیس کی تلاش کا کام بھی زور و شور سے جاری ہے۔ جندران میں گیس کی دریافت سے ملک میں گیس کی قلت نہیں رہے گی تاہم اس دریافت کی باقاعدہ سرکاری طور پر تفصیلات آنی باقی ہیں۔ ان علاقوں میں ماہرین نے تیل کے بڑے ذخائر کی دریافت کی امید کا اظہار بھی کیا ہے۔ قلات کے علاقے ہربوئی میں بھی گیس کی تلاش کا کام جاری ہے ۔ ہربوئی ایک پرفضاءمقام ہے۔ یہ علاقہ صنوبر کے قدیم جنگلات پر مشتمل ہے ۔ ضلع خاران میں دریافت پر کام ہورہا ہے ۔آواران اورواشک کے علاقوں ،داراپ ،پلنتاک اور شاہو گڑی کے مقام پر پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ، گیس کے ذخائر پر کام کررہی ہے ۔ واشک کے ان علاقوں میں ماہرین کے اندازے کے مطابق پاکستان کی تاریخ کے سب سے بڑے ذخائر کی دریافت متوقع ہے۔ ایک خیال ہے کہ واشک اور اطراف میں پوشیدہ گیس کے ذخائر سعودی عرب کے تیل کے ذخائر سے بھی بڑے ہیں۔ غرضیکہ ملک کے قیام کے بعد عشروں حکومتیں غافل رہیں۔ نہ ملک کو ترقی دے سکیں نہ بلوچستان کو بلکہ بلوچستان کی صورتحال کا ادراک تک نہیں کرسکیں ۔ کئی شورشیں اُٹھیں لیکن حکمرانوں اور مقتدر حلقوں کو ان شورشوں کی وجوہات ، اسباب و محرکات کی سمجھ نہ آسکی۔ حالانکہ بات بڑی سادہ تھی یعنی ”اپنے وسائل پر اپنا اختیار“۔ اگرچہ نواب خیر بخش مری مر حوم کے طریقہ کار سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا ، تاہم ان کا مطمح نظر صوبائی خود مختاری رہی ہے ۔کسی موقع پر نواب مری مرحوم کہہ چکے تھے کہ ”انہیں تیل و گیس کی تلاش و دریافت پر ہر گز اعتراض نہیں مگر ضروری ہے کہ ہر کام ڈھنگ سے ہو ، تیل و گیس سے پاکستان ہی نہیں بلکہ خطے کے ممالک بھی مستفید ہوں،پر ان کومحروم تو نہ کیا جائے جن کی سرزمین سے یہ وسائل نکالے جاتے ہوں “ ۔ ایک معروف اصول ہے کہ جس علاقے سے معدنیات دریافت ہوں اس پر پہلا اور زیادہ حق اس علاقے اوروہاں کے باسیوں کا بنتا ہے۔ سوئی سے گیس نکلی پنجاب اور دیگر علاقوں کے کارخانے چلے، گھروں میں چولہے جلے مگر ڈیرہ بگٹی آج بھی گیس سے محروم ہے۔یہ ظلم اور نا انصافی نہیں تو اورکیا ہے ؟ یہاں تک کہ بلوچستان کے دار الخلافہ کو اسی کی دہائی میں گھریلو ضروریات کیلیے گیس فراہم کی گئی۔ نواب اکبر خان بگٹی نے اسٹینڈ لیا کہ اصول و ضوابط کی تجدید ہو،تو حاکم نے معاملات سلجھانے کی بجائے مزید اُلجھادیئے۔ بد امنی کی ایک نئی فضاءقائم ہوئی۔ بات چیت ہوئی مگر بے سود ۔ یکطرفہ مفاد و ترجیحات مقدم نہ ہوتے تو شاید بلوچستان میں نوبت یہاں تک نہ پہنچتی۔ اور اب امن و تحفظ پر سالانہ ہوشربا رقم خرچ ہورہی ہے۔یہ لمحہ فکریہ ہے کہ جہاں جہاں سے گیس دریافت ہوئی اور جہاں جہاں مزید دریافت پر کام ہورہا ہے یہ تمام علاقے پسماندگی اور محرومیوں سے دو چار ہیں ۔ ایران سے متصل علاقوں کو بجلی ایران سے دی جارہی ہے، اگر یہ بجلی دستیاب نہ ہوتی تو شاید ان علاقوں کے عوام اس جدید دور میں بھی چراغ جلانے پر مجبور ہوتے ۔ ان تمام تر محرومیوں اور کسمپرسی میں بلوچستان کی اپنی قیادت برابر شریک جرم ہے۔ کوئی اپنا اختیار جان نہ سکا۔ حقائق ریکارڈ پر موجود ہیں کہ سیندک اور ریکوڈک کے منصوبوں سے فوائد وفاق، چین اور کسی کمپنی نے ہی حاصل کئے نہ کہ بلوچستان نے۔ گوادر پینے کے صاف پانی سے محروم ہے۔ سمندر کے پانی کو میٹھا بنانے والا پلانٹ مئی سے خراب ہے۔ آنکاڑہ ڈیم خشک ہوچکا ہے ۔
”سنتسر “سے ٹیوب ویلوں اور ٹینکروں کے ذریعے گوادر کو پانی فراہم کیا جاتا ہے جس پر یومیہ ستر لاکھ سے زائد خرچ آتا ہے ۔ لیکن مستقل بندوبست کی منصوبہ بندی میں تاخیر ہورہی ہے۔شاید نیت یہ ہے کہ جب پورٹ پوری طرح فعال ہوگی، جب ایک نئی آبادی بس جائے گی تب ان کیلیے پیشگی بندوبست کردیا جائے گا۔ یعنی مقامی عوام کی کوئی وقعت و اہمیت نہیں۔ چنانچہ صوبے کی سیاسی قیادت اور بیورو کریسی کو اپنے مفاد پر کمربستہ ہونے کی ضرورت ہے ۔ زیادتی اور حق تلفی کا کوئی گوشہ نظر آئے تو اس کے خلاف ڈٹ جانا چاہیے ۔ صوبائی خود مختاری حاصل کرنے کے لیے آئینی و جمہوری جنگ ہونی چاہیے۔ گوادر بندرگاہ کے ثمرات اول اول بلوچستان کے عوام تک پہنچائے جائےں۔ماضی کی حکومتوں نے اس بندرگاہ کو پرِکاہ برابر اہمیت نہیں دی۔بلکہ یہ ساحل 1958 تک ریاست مسقط وعمان کے زیر انتظام تھا ،جسے پاکستان کے وزیراعظم فیروز خان نون کی مساعی سے پاکستان میں دوبارہ شامل کرایاگیا ۔ ریاست مسقط و عمان کے شہزادے سید سلطان بن احمد بن سعید البوالسعیدی نے گوادر میں پناہ حاصل کی تھی۔ خان آف قلات میر نصیر خان نے1783 میں اس شہزادے کی گذر بسر کیلیے یہ ساحل عنایت کیا۔ 1861ءمیں انگریزوں نے اس پر قبضہ کرلیا۔ گوادر اور پسنی کی بندرگاہیں انگریز استعمال کرتے تھے۔ گویا ریاست قلات کے والیوں کو بھی بندر گاہ کی دفاعی اور معاشی اہمیت و ضرورت کی سمجھ نہ تھی۔پندرہویں اور سولہویں صدی میں انگیریزوں، ولندیزیوں اور پرتگا لیوں نے ہند کی بندرگاہوں پر اختیار حاصل کر کے اپنی دفاعی اور معاشی پوزیشن مزید مضبوط کرلی ،بڑے بڑے بحری جہاز ان بندر گاہوں پر لنگر انداز ہو تے ۔اور ریاست قلات اپنے ساحل سے محدود پیمانے پر بھی فائدہ حاصل نہ کر سکی۔ بہر کیف جندران گیس ذخائر کی دریافت ایک بڑی خوشخبری ہے اور اللہ کا بڑا انعام ہے ۔ مقصد بیان یہ ہے کہ بلوچستان کے حاکم صوبے کی آئینی خود مختاری اور فیصلہ سازی کے حق کے حصول کی خاطر کسی بھی قسم کے سمجھوتے سے احتراز کریں ۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں