سفر یاد۔۔۔ قسط40
شیئر کریں
شاہد اے خان
ڈش انٹینا اور اس کا متعلقہ سامان لائے کئی دن گزر چکے تھے۔ ہم چاروں روز سوچتے تھے کہ آج ضرور ڈش انٹینا لگالیں گے لیکن کالج سے آنے کے بعد کھانا پکانے اور کھانے کے بعد اتنا وقت ہی نہیں بچتا تھا کہ چھت پر جائیں اور ڈش انٹٰینا کی تنصیب کا کام مکمل کریں۔ پھر طے پایا کہ یہ کام جمعے کو ہی سرانجام دیا جائے۔ اگلے جمعے نماز جمعہ پڑھنے کے بعد ہم چاروں سارے سامان کے ساتھ ڈش انٹٰینا لگانے کے لیے چھت پر چڑھ گئے۔ سعودی عرب میں گھروں کی چھتوں پر اونچی چار دیواری بنی ہوتی ہے، لوگ عام طور پر چھتوں پر نہیں آتے اور کوئی کسی کام سے آئے بھی تو کسی کو نظر نہیں آتا۔ ہمارے ولا کی چھت پر بہت سارے ڈش لگے ہوئے تھے، اونچی دیواروں کے باعث ڈش چھت کے درمیان میں لگائے گئے تھے۔ ہمارے ڈش کے لیے چھت پر کوئی مناسب جگہ نہیں بن رہی تھی۔ ایک جگہ کونے میں ڈش لگ سکتا تھا لیکن وہاں سے تار نیچے لے کر جانا ذرا مشکل تھا۔ ہم نے طے کیا کہ چھت پر بنے دو کمروں کی چھت پر ڈش لگا دیا جائے۔ وہا کوئی ڈش نہیں لگا تھا اس لیے وہ پوری چھت خالی پڑی تھی۔ اس روز بھی منیب اور واجد نے اپنے عزیزوں کی طرف جانے کی کوشش کی لیکن ہم نے اور علی نے انہیں سختی کے ساتھ روک لیا۔ ویسے چھت پر ڈش کی تنصیب کے دوران ان کی موجودگی بہت ضروری تو نہیں تھی لیکن کیونکہ وہ ہمارے روم میٹ تھے اس لیے ڈش کی تنصیب کے عمل میں ان کو شامل رکھنا ضروری تھا۔ تیز دھوپ اور سخت گرمی میں ڈش لگانا خاصا صبر آزما اور مشکل ثابت ہو رہا تھا ۔ایسے میں منیب اور واجد کا ہونا اچھا ہی ثابت ہوا ،وہ ٹھنڈا پانی لانے اور ہمارا ہاتھ بٹانے میں لگے رہے۔ کئی گھنٹے کی محنت کے بعد ڈش سیٹ ہوا، ہم نے ٹی وی اوپر چھت پر رکھ کر ڈش کو سیٹ کیا، پی ٹی وی کے ساتھ صرف دو تین اور پاکستانی چینل آرہے تھے باقی سب انڈین چینلز تھے، ہماری دلچسپی پاکستانی چینلز دیکھنے میں تھی اس لیے ڈش کو ایسے رخ پر سیٹ کیا جہاں زیادہ سے زیادہ پاکستانی چینل آ سکیں لیکن یہ تعداد تین سے آگے نہ بڑھی ۔اس دور میں پاکستان کے بہت کم سیٹلائٹ چینلز آن ائر تھے۔ نیوز چینلز کی جو بھرمار آج نظر آتی ہے ان میں سے کسی کی ابتدا ابھی نہیں ہوئی تھی۔ ڈش پر چینلز سیٹ کر کے تار لگا کر ہم نیچے اترے، اب مرحلہ تھا تار کو اپنے کمرے تک پہنچانے کا۔ خیر سے یہ مرحلہ بھی انجام کو پہنچ گیا لیکن تار ہمارے کمرے کی کھڑکی تک ہی پہنچ سکا، ٹی وی کمرے کے دوسرے کونے میں تھا یعنی کم از کم پانچ میٹر تار کم پڑ گیا تھا۔ ہم نے ولا کی چھت سے تار کی پیمائش کی تھی اس لیے اپنے حساب سے تو ہم تار ٹھیک لائے تھے لیکن کیونکہ ڈش ہم نے ولا کی چھت پر بنے ہوئے کمروں کی چھت پر رکھ دی تھی اس لیے تار کم پڑنا ہی تھا۔
ڈش لگ جانے کے باوجود ہم لوگ اپنے ملک کے چینل نہیں دیکھ سکتے تھے کم از کم اس دن تو ایسا ممکن نہیں تھا، کیونکہ ہم سب ہی تھک چکے تھے اور باہر کسی دکان میں جا کر تار لانےکی ہمت کسی میں بھی نہیں تھی ،یہ بھی نہیں پتہ تھا کہ وہاں کہیں قریب میں تار ملتا بھی یا نہیں۔ اس لیے ہم چاروں ہی آرام کرنے لگے۔ ہم نے کھانے کی تیاری بھی کرنی تھی ،اس لیے کچھ دیر بعد اٹھنا ہی پڑا۔ منیب اورعلی کچن میں جا کرکھانے کی تیاری کرنے لگے جبکہ ہم واجد کے ساتھ روٹیاں اور کچھ سامان لینے نکل گئے۔ واپس آکر ہم دوبارہ چھت پر پہنچ گئے ہمارا خیال تھا کہ اتنے سارے ڈش جو لگے ہیں تو یقینا کچھ تار اضافی بھی ہوں گے جو کسی کے استعمال میں نہیں ہوں گے یا کوئی تار ضرورت سے زیادہ بڑا ہوگا جسے کاٹ کر ہم اپنے کام میں لا سکیں گے۔ ہماری تلاش رنگ لائی اور ہمیں ایسا ایک تار مل ہی گیا جس کا دوسرا سرا چھت سے نیچے لٹکا ہوا تھا ،یہ تار اتنا بڑا نہیں تھا کہ کسی کمرے میں جا سکے لیکن ہمارا کام اس سے چل سکتا تھا۔ ہم نے نیچے جاکر علی کو بتایا اور اس کو ساتھ لیکر واپس چھت پر پہنچے، ہم نے تار کا یہ ٹکڑا ڈش سے علیحدہ کیا پھر اسے چیک کیا کہ کہیں سے بریک نہ ہو ،مطمئن ہو کر ہم یہ تار اپنے کمرے میں لے آئے۔ منیب نے کھانا لگا لیا تھا۔ لیکن ہم نے کہا اب تار کو ٹی وی سے جوڑ کر ہی کھانا کھائیں گے۔ محنت رنگ لے آئی تھی ہم نے پی ٹی وی لگایا اور کھانا کھانے بیٹھ گئے۔۔۔ جاری ہے
٭٭