میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
طاقت کے بجائے مذاکرات کی راہ اپنائی جائے!

طاقت کے بجائے مذاکرات کی راہ اپنائی جائے!

جرات ڈیسک
بدھ, ۴ دسمبر ۲۰۲۴

شیئر کریں

اگرچہ حکومتی حلقے تحریک انصاف پر پابندی اور خیبر پختونخوا میں گورنر راج لگانے کی قیاس آرائیوں کی سختی سے تردید کی ہے لیکن حکومت پاکستان کے ترجمان وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ اور دیگر اہم غیرسرکاری ترجمان کھل کر کہہ رہے ہیں کہ اب تحریک انصاف پر پابندی لگائی جائے گی، یعنی اسے اب پاکستان میں سیاست کرنے کا حق نہیں رہے گا ،جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری اور جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم نے خیبر پختونخوا میں گورنر راج اور پی ٹی آئی پر پابندی کی حمایت نہ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔تینوں جماعتوں کے سربراہوں نے الگ الگ بیانات میں پی ٹی آئی کے طرز سیاست میں اصلاح اور اسے سیاسی دائرے میں رکھنے پر زور بھی دیا ،جبکہ بلاول زرداری نے تحریک انصاف پر پابندی کی حمایت نہ کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی یہ دھمکی بھی دی ہے کہااگر مذاکرات سے کام نہ بنا تو لاٹھی سے سیاسی استحکام لانا پڑے گا۔بلاول کی اس دھمکی سے ظاہر ہوتاہے کہ وہ ہر قیمت پر تحریک انصاف کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا چاہتے ہیں ،بلاول کے اس بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ایک بڑی پارٹی کے سربراہ بنائے جانے کے باوجود ابھی تک ذہنی طورپر نابالغ ہیں کیونکہ کوئی بھی سیاسی رہنما کسی بھی سیاسی پارٹی کو لاٹھی کے زور پر گھٹنے ٹیکنے کی دھمکی نہیں دے سکتا۔ جہاں تک تحریک انصاف پر پابندی کے حوالے سے عطااللہ تارڑ اور دیگر سرکاری عہدیداروں کے بیانات یا مطالبات کا تعلق ہے تو اگر بلاول زرداری نے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا سرسری سابھی مطالعہ کیاہوتا تو انھیں یہ معلوم ہوتا کہ پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر پابندی کا کھیل پاکستان کے قیام کے صرف 4 سال بعد شروع ہو گیا تھا، جب 1951ء میں کمیونسٹ پارٹی کی قیادت اور پاک فوج کے جنرل اکبر خان کو لیاقت علی خان کی حکومت کا تختہ اُلٹنے کی سازش کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ میجر جنرل اکبر خان، ان کی اہلیہ، کمیونسٹ پارٹی کے سیکریٹری جنرل سید سجاد ظہیر، پاکستان کے بے مثل اور لازوال شاعر فیض احمد فیض و دیگر کو اس بغاوت کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ کمیونسٹ پارٹی پر وہ پابندی تو نہ رہی، لیکن انہیں پاکستان میں سیاست کرنے کی آزادی نہ مل سکی۔ جب بھی انہوں نے سیاست میں حصہ لینے کی کوشش کی توانھیں سختیاں برداشت کرنا پڑیں۔ بائیں بازو کے رہنما کہلانے والے ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں بھی کمیونسٹ پارٹی زیرعتاب ہی رہی اور پھر بھٹو کی بیٹی بے نظیر کے دور میں اس پارٹی کو سانس لینے کی اجازت مل ہی گئی۔ کمیونسٹ پارٹی کے بعد جس اہم جماعت پر سیاست میں حصہ لینے پر پابندی لگائی گئی وہ جماعت اسلامی تھی 1963ء میں ایوب خان کے دور میں جماعت اسلامی پر ریاست مخالف سرگرمیوں اور غیر ملکی فنڈنگ کے الزام میں پابندی لگائی گئی۔مشرقی پاکستان ہائیکورٹ نے اس پابندی کو مسترد کر دیا جبکہ مغربی پاکستان ہائیکورٹ نے حسب ِ توقع پابندی برقرار رکھی اور پھر سپریم کورٹ سے جماعت اسلامی کو ریلیف ملا اور دوبارہ سیاست کرنے کی اجازت مل گئی۔ایوب خان کے بعد آنے والے حکمران جنرل یحییٰ خان نے ایک نہیں 2 بڑی پارٹیوں پر یہ پابندی عائد کی۔انہوں نے مشرقی پاکستان میں بے مثال کامیابی حاصل کرنے والے شیخ مجیب الرحمن کی جماعت عوامی لیگ پر پابندی عائد کی، جس پر الزام تھا کہ متوازی حکومت قائم کی، ملک میں بدامنی، عدم استحکام، تشدد اور قومی پرچم کی بے حرمتی کے الزامات بھی عائد کئے گئے۔ عوامی لیگ کے علاوہ نیشنل عوامی پارٹی جو آج عوامی نیشنل پارٹی کہلاتی ہے، پر بھی یحییٰ خان نے پابندی عائد کی اس وقت پارٹی کے سربراہ موجودہ سربراہ ایمل ولی خان کے دادا عبدالولی خان تھے۔ عوامی نیشنل پارٹی یا نیشنل عوامی پارٹی کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ انہیں 2 مرتبہ اس پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ دوسری مرتبہ طاقتور سیاسی مخالف وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اس جماعت پر پابندی لگا دی اور ان کے نتیجے میں صوبہ سرحد یعنی خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں جمعیت علما اسلام اور اے این پی کی حکومتیں ختم ہو گئیں۔ بہرحال نیشنل عوامی پارٹی پہلے نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی اور اب عوامی نیشنل پارٹی کے نام سے زندہ ہے اور آج بھی سیاست میں بھرپور کردار ادا کر رہی ہے۔عوامی نیشنل پارٹی پر پابندی لگانے والے ذوالفقار علی بھٹو کی اپنی پارٹی کو جنرل ضیا الحق نے ان کے ساتھی کے ذریعے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا،مگر وہ اس پارٹی کا کچھ بھی نہ بگاڑ سکے۔ پارٹی آج بھی زندہ ہے البتہ بے نظیر بھٹو کی راولپنڈی کے لیاقت باغ ا سٹیڈیم کے باہر شہادت کے بعد سے پارٹی سکڑتی جارہی ہے اور اب مکمل طور پہ ایک صوبے کی پارٹی بن چکی ہے یا یوسف رضا گیلانی اور ان کے بیٹوں کی سیٹوں کی بدولت ملتان پر اس کا مکمل کنٹرول ہے۔ مسلم لیگ(ن) کے سربراہ نوازشریف کی حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار میں آنے والے جنرل پرویز مشرف کے دور میں ڈھیروں مذہبی سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی گئی۔ 2001 سے 2015ء تک 60 سے زائد مذہبی اور سیاسی جماعتوں پر پابندی لگی، سپاہ صحابہ، سپاہ محمد، لشکر جھنگوی، تحریک نفاذ فقہ جعفریہ، تحریک اسلامی، لشکر طیبہ، جیش محمد، جماعت الدعوہ اور دیگر جماعتوں اور گروہوں پر پابندی لگتی رہی،مگر کسی بھی جماعت کو پاکستان کی سیاست چاہے مذہبی ہو یا سیاسی میں کام کرنے سے روکا نہیں جا سکا اور آج بھی یہ تمام جماعتیں کسی نہ کسی نام سے اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔سابق وزیراعظم عمران خان کے دور میں ایک اور طاقتور مذہبی جماعت بن کر ابھرنے والی تحریک لبیک پر پابندی لگائی گئی، جس پر پاکستان میں پرتشدد مظاہرے کرنے اور پولیس اہلکاروں پر تشدد کرکے ہلاک کرنے جیسے الزامات تھے، لیکن یہ پابندی بھی صرف 7ماہ ہی چل سکی۔ ان حالات میں یہ بات سمجھ سے باہر ہے کہ تحریک انصاف جیسی طاقتور سیاسی جماعت کو کس طریقے سے پابند ِ سلاسل یا راہ عدم کی سزا سنائی جا سکے گی ،بعض حلقے یہ بھی باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ خیبرپختونخوا میں تحریک انصاف کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی حکومت کا خاتمہ کر دیا جائے گا اور یہ خاتمہ چونکہ جمہوری طریقے یعنی تحریک عدم اعتماد سے نہیں ہو سکتا، لہٰذا صوبے میں گورنر راج لگایا جائے گا۔ اگر ایسا ہو گیا تو ایک شارٹ کٹ سے اقتدارپیپلز پارٹی کو مل جائے گا، کیونکہ صوبہ خیبرپختونخوا کے گورنر فیصل کریم کنڈی پیپلز پارٹی کے سینئر لیڈر ہیں۔فیصل کریم کنڈی کا تعلق وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان سے ہے اور وہ 2018ء اور 2024ء میں علی امین گنڈاپور کے ہاتھوں شکست کھا چکے ہیں، لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ وزیراعلیٰ سے شکست کھانے والا گورنر خیبرپختونخوا اقتدار کی اس کرسی کو سنبھالے گا جس کے لئے اس کے ووٹرز نے اسے انتخابات میں اہل نہیں سمجھا تھا۔ تحریک انصاف پاکستان کی دوسری طاقتور ترین سیاسی پارٹی ہو گی جس سے سیاست کا حق چھینا جائے گا۔ ویسے تو پاکستان میں گزشتہ 77 برسوں میں 70 کے قریب مذہبی و سیاسی جماعتوں کو اپنا سیاسی و مذہبی کردار ادا کرنے سے روکا جا چکا ہے، لیکن تحریک انصاف سے پہلے جس بڑی جماعت پر یہ پابندی عائد کی گئی تھی وہ مشرقی پاکستان کی مقبول ترین جماعت عوامی لیگ تھی جسے جنرل یحییٰ خان نے مارچ 1971میں سیاست سے باہر کر دیا تھا اور نتیجہ وہاں کے عوام نے بھارت کے تعاون سے ہمیں’’ مشرقی پاکستان سے باہر کر دیا تھا۔ ویسے تو جنرل ضیاء الحق نے بھی اپنے ‘‘گرفتار حریف سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی جماعت کو سیاست سے باہر کر کے ان کی جماعت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا تھا، لیکن ختم نہ کر سکے اور بھٹو کی بیٹی، داماد اور اب نواسہ اقتدار کے کھیل میں صرف شریک ہی نہیں،بلکہ حصے دار’’ ہیں۔
جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمان، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول زرداری اور جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم نے خیبر پختونخوا میں گورنر راج اور پی ٹی آئی پر پابندی کی حمایت نہ کرنے کا عندیہ دیا ہے ،اس سے ظاہرہوتاہے کہ پاکستان کی کوئی بھی سیاسی جماعت تحریک انصاف کو اس طرح سیاست سے باہر کرنے کے عمل کی نہ صرف حمایت نہیں کرے گی بلکہ عین ممکن ہے کہ وہ اس کی مخالفت میں تحریک انصاف کے ساتھ ہاتھ ملالیں ۔قومی رہنماوں کے یہ بیانات اس وقت سامنے آئے ہیں جب اسلام آباد کے ڈی چوک میں پی ٹی آئی کے مظاہرین کو منتشر کرنے کے طریقہ کار پر سوشل میڈیا پر غیر مصدقہ معلومات سے تشویش موجود ہے۔ سیاسی کشیدگی کسی ریاست کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہے،پاکستان سیاسی جماعتوں کے درمیان مکالمہ نہ ہونے اور احتجاج کی پر تشدد صورتوں کی وجہ سے جمہوری و انتظامی مشکلات کا شکار رہتا ہے۔حالیہ واقعات میں حکومت اور پی ٹی آئی دو انتہاوں پر نظر آتی ہیں،اس صورت حال میں مولانا فضل الرحمان، بلاول زرداری اور حافظ نعیم کی رائے کو عمومی سطح پر حمایت کی ضرورت ہے کیونکہ پاکستان کو پالیسی کے بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔
پارلیمنٹ اور حکومت میں اکثریتی مینڈیٹ کی غیر مستحکم صورتحال، سیاسی بدامنی اور دہشت گرد حملے، خاص طور پر تحریک طالبان پاکستان کے ذریعے دہشت کے واقعات کا بڑھنا تشویش کا باعث ہے۔ ملک کو طویل معاشی اور مالیاتی بحران، حکومتی قرضوں کی بلند سطح، مہنگائی کی بلند شرح، خوراک اور توانائی کے بحران، موسمیاتی تبدیلی کے اثرات اور وسیع پیمانے پر غربت کا سامنا ہے۔ ملک کے پاس ضروری درآمدات کی ادائیگی کے لیے درکار زرمبادلہ کی کمی ہے۔ پاکستان کئی بار ڈیفالٹ کے دہانے پر پہنچ چکا ہے۔یہ مسائل ایک حقیقت ہیں لیکن پارلیمنٹ،حکومت اور سڑکوں پر رہنے کو بضد اپوزیشن کی بات سنجیدگی سے سننے اور اپوزیشن کی جائز شکایات دور کرنے کو تیار نہیں ،غالباً اس کی واضح وجہ وہ خوف ہے جو بیساکھیوں پر قائم اس حکومت کے ہر شخص کے دل میں بیٹھاہواہے کہ اپوزیشن کے مطالبات مان لئے گئے توان میں سے بیشتر کوپارلیمنٹ اور وزارتین چھوڑ کر سڑک پر آنا پڑے گا ۔فروری 2024 میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں فارم 47 کے ذریعہ مبینہ طورپر پاکستان تحریک انصاف کا راستہ روکا گیا اور بقول ان کے اس کو اس کی توقع کے مطابق نشستیں نہیں دی گئیں، فروری کے عام انتخابات کے نتائج کا جس طرح اعلان کیا گیا اس کی وجہ سے اسی وقت تمام سیاسی حلقوں پی ٹی آئی کی جانب سے لگائے گئے دھاندلی کے الزام کی تائید کی تھی لیکن پاکستان مسلم لیگ (ن) نے ان اعتراضات کو نظر انداز کرتے ہوئے پیپلز ز پارٹی کی حمایت سے جو بوجودہ اپوزیشن میں بیٹھنا نہیں چاہتی تھی اور بلاول کو وزیراعظم یا کوئی اہم وزارت دلوانے کی خواہاں تھی حکومت بنائی اس طرح الیکشن کے بعد سے شہباز شریف وزیر اعظم کے طور پر کام کرتے آرہے ہیں۔ ان کی مخلوط حکومت کے اہم مقاصد میں سے ایک اقتصادی اور مالیاتی بحران پر قابو
پانا ہے۔انہوں نے آئی ایم ایف سے 7 ارب ڈالر کے قرض پیکج کے ساتھ دوست ممالک کے ساتھ سرمایہ کاری کے متعدد ایم او یو پر دستخط کئے ہیں اور اس کو اپنی حکومت کی کامیابی بناکر زور شور سے اس کاپروپیگنڈا کراتے ہیں لیکن ملک کی نوجوان آبادی موجودہ سیاسی نظام سے مطمئن نہیں ہے۔نوجوان سمجھتے ہیں کہ حکومت کے پاس معاشی مواقع نہیں ہیں نوجوان ملک کی خاندانی سیاسی جماعتوں اور طاقتور اشرافیہ سے ناراض ہیں اور انھوں نے جیل میں بند سابق وزیر اعظم عمران خان کی پارٹی پاکستان تحریک انصاف سے امیدیں وابستہ کررکھی ہیں اور ان کیلئے جانیں قربان کرنے کوبھی تیار ہیں حکومت اور ان کے اتحادی اس کا عملی مظاہرہ دیکھ چکے ہیں اس لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت نوشتہ دیوار پڑھنے کی کوشش کرے اور معاملات کو ڈنڈے کے زور پر یعنی طاقت کے ذریعے ٹھیک کرنے کا مشورہ دینے والے نام نہاد دانشوروں کے مشورے سننے کے بجائے سنجیدگی سے مذاکرات شروع کرنے پر توجہ دیں اور مذاکرات کیلئے مناسب ماحوال تیار کرنے کیلئے خیرسگالی کے طورپر عمران خان اور ان کی پارٹی کے تمام اسیر رہنماؤں اور کارکنوں پر راتوں رات قائم کئے گئے درجنوں بلکہ سیکڑوں مقدمات واپس لے کر ان سب کو باعزت طورپر رہاکیاجائے تاکہ ملک میں مفاہمانہ ماحول پیدا ہوسکے اور ملکی خوشخالی کے ایک نئے دور کا آغاز ہوسکے۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں