سانحہ ڈی چوک ،اب کیا ہوگا؟
شیئر کریں
رفیق پٹیل
حکمراں جماعت کے عہدیدارمسلسل بیان دے رہے ہیںکہ سیکورٹی فورسز نے 26 نو مبر کی رات ڈی چوک اسلام آباد میں مظاہرین پر گولی نہیں چلائی، پاکستان کے عوام کی بھاری اکثریت اور دنیا بھر کا میڈیا حکومت کے اس دعوے کو حقیقت تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہے ،وجہ یہ ہے کہ ماضی کے بعض واقعات اور فروری کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کے بعد حکومت اپنی ساکھ کو خراب ہونے سے بچانے میں ناکام ہوگئی اور اپنا اعتبار کھو چکی تھی۔ اس کے اثرات سے معاشرے میں بھی جھوٹ کو فروغ حاصل ہورہا ہے، ترقّی یافتہ ممالک میں عوامی سطح پر سچ کا بول بالا ہے۔ اگر کسی شخص سے مذاق میں بھی جھوٹ بولا جائے تو وہ عام شہری اس مذاق کو بھی حقیقت تصّور کرلے گا کیوں کہ وہاں روز مرہ کی زندگی میں جھوٹ بولنے کا رواج نہیں ہے۔ البتّہ وہاں کا میڈیا تحقیق کرکے سچ تک پہنچتا ہے ۔اس لیے پاکستان کے حکمرانوں کے دعووں کوبیرون ملک کامیڈیا تسلیم کرنے کو تیا ر نہیں ہے ۔ اس واقعے کے بارے میں بار بار کی پریس کانفرنس سے حکمراں جماعت کے رہنمائوں کے لیے مزید شکوک وشبہات پیدا کردیے ہیں کہ کسی بہت بڑی بات کو چھپانے کے لیے ہی ایسی سرگرمی دکھائی جا سکتی ہے جب سے فروری کے انتخابات میں انٹرنیٹ بند کر کے اور اچانک نتائج روک کر ردّوبدل کیا گیا اور فارم 45 کے نتائج اورفارم 47 کے نتائج کا فرق سامنے آیا ،اس وقت سے تمام عالمی میڈیا نے اس انتخابات کو فراڈ قرار دے دیا اور موجودہ حکومت کی ساکھ بیرون ملک کمزور ہوگئی جس کی وجہ سے حکومت کے عہدیداروں کے دعووں پر بیرون ملک کا میڈیا اور پاکستانی برادری کی بھاری اکثریت اعتبار نہیں کرتے جس کے حکومت پر مسلسل منفی اثرات ہورہے اب بھی اگر موجودہ برسراقتدار جماعت کا خیال ہے کہ اس نے ایک سیاسی جماعت کے جلوس پر طاقت استعمال کرکے اسے بھاری نقصان پہنچایا ہے اور حکمران جماعت کو فائدہ پہنچا ہے تو اس خیال کی حقیقت کو معلوم کرنے کا آسان طریقہ کار انتخابات کا انعقاد ہے جلد ازجلد اگر منصفانہ انتخابات کرادیے جائیں تو اس بات کا نتیجہ سامنے آجائے گا کہ سانحہ ڈی چوک کا کس کو نقصان ہوا ہے حکمران سیاسی جماعتیں شایدعوام کے جذبات کا اندازہ لگانے میں غلطی کر رہی ہیں یا اس کی پرواہ نہیں کررہی ہیں وہ صرف طاقت کو ہر مسئلے کا حل سمجھتی ہیں۔
گزشتہ تین سال میں ملک کی بڑی سیاسی جماعت کے خلاف جتنے آپریشن اور گرفتاریاں کی گئی ہیں۔عوام میں اس کے لیے ہمدردی میں اضافہ ہوا ہے عوام خاموشی اور غیر محسوس طور پر اس جماعت کے ساتھ اپنے تعلق کو قائم کر رہے ہیں رائے عامہ بھی اس سیاسی جماعت کے حق میں چلی گئی ہے ۔ا مریکا ،جرمنی ،فرانس، سوئٹزر لینڈ ،برطانیہ، سوئیڈن، ڈنمارک جاپان جنوبی کوریا ،سنگاپور اور دیگر ایسے ممالک جو سیاسی اور معاشی طور پر مستحکم تصّور کیے جاتے ہیںان کی خوشحالی کاراز تلاش کیا جائے توچند حقائق سامنے آتے ہیں۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ یہ ممالک سب سے زیادہ اپنے شہریوں کے تحفظ ، خوشحالی اور ان کے بنیادی حقوق کا خاص خیال رکھتے ہیں، رائے عامہ کا احترام کیا جاتا ہے۔ منصفانہ انتخابات کے ذریعے جیت حاصل کرنے والی جماعت کوپرامن انداز میں اقتدار منتقل کر دیا جاتاہے۔ ان مما لک میں پارلیمنٹ ،عدلیہ ،اور انتظامیہ اپنے دائرہ کا ر سے تجاوز نہیں کرتی کسی بھی واقعے پر پوری تحقیق کے بغیر کوئی ردّعمل سامنے نہیں آتا ۔پاکستان کی حکمران سیاسی جماعتیںمعاشی اور سیاسی استحکام کی خواہش رکھتی ہیں لیکن اس کے بنیادی تقاضوںیعنی امن وامان ،اظہار رائے کی آزدی، اجتماع کی آزادی، نقل و حرکت کی آزادی ،منصفانہ انتخابات، عدلیہ کی آزادی،میرٹ پر مبنی باصلاحیت انتظامیہ کے لیے تیار نہیںہے۔ حکمران جماعتوں کا یہی رویہ یعنی عوام کی فلاح وبہبود کے بجائے اپنے مفادات کا تحفظ ، غیر منصفانہ طریقہ کار سے عہدوں کا حصول اور اس پر چمٹ جانے کے لیے ہر حد سے گر جاناایسا عمل ہے جو ملک کی ترقی اور سا لمیت کے لیے نقصان کا باعث بن رہا ہے، بعض لوگوں کا خیال ہے کہ سانحہ ڈی چوک کی ایک وجہ رینجرز کی کے اہلکاروں کی ایک حادثے میں ہونے والی اموات ہیں۔ تحقیق کے بعد اس گاڑی کی معلومات کے نتیجے میں مبینہ طور پر یہ بات سامنے آگئی کے اس گاڑی اور ڈرائیور کا تحریک انصاف سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں تھا وہ کسی سابق افسر کا بیٹا تھا ۔یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اس کا نفسیاتی علاج ہو رہا تھا ۔اس رپورٹ کے درست ہونے کی صورت میں یہ نتیجہ سامنے آتا ہے کہ جلد بازی میں بغیر تحقیق کے فیصلے کیے گئے۔ مظاہرین کے خلا ف کارروائی کا یہ جواز قطعی عقل و دانش سے عاری فیصلہ تھا اور اس کی تاویل مکمل غلط تھی ۔یہ بھی کہا جارہاہے اب اس کی بھی لیپا پوتی کی جارہی ہے، ورنہ حکومت دوسرے دن ہی حقائق سامنے لے آتی۔ ہسپتالوں کا ریکارڈ بھی میڈیا کو مل جاتا۔ وزیر اعظم نے بھی عجیب و غریب بیان دے کر ذمّہ داری سے بچنے کی کوشش کی اور اہم ادارے کے سربراہ کو اس معاملے میں شریک کرنے کی کوشش کی بعد میں محکمہ داخلہ کی رپورٹ میں اس کی وضاحت دی گئی۔ حکومتی عہدیداروں کی اس واقعے سے متعلق مسلسل قلابازیوں نے اس مسئلے پر بیانات کی بھر مار نے اس مسئلے کو مزید مشکوک بنادیا ۔ اس کے نتیجے میں عوامی سطح پر افواہوں کا طوفان برپا ہے۔ گلی محلّوں میں سیکڑوں ہلاکتوں کی باتیں ہورہی ہے مغربی ممالک میں اطلاعات تک رسائی کے نظام کی وجہ سے عوام حقائق سے آگاہ رہتے ہیں ۔وہاں پابندیوں کے بجائے ٹھو س شواہد سامنے لاکر نظام کو مزیدشفّاف بنایا جاتا ہے۔ اس طرح سیاسی استحکام پروان چڑھتا ہے ۔ان ممالک میںیہ تصّور بھی نہیں کیا جاسکتاکہ ملک کی سب سے بڑی جماعت کو تخریب کا ر ، انتشاری ٹولہ اور دہشت گرد کا لقب دیا جائے ۔کسی مہذب معاشرے اور ترقّی یافتہ ملک میں ایسی صورت پیدا ہوجائے تو شاید اس ملک کی سا لمیت کو خطرہ ہوجائے گا، ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ہم جھوٹ، فریب اور سازشی طریقہ کار کی غلط راہوں میں بھٹک رہے ہیں ۔یہی سلسلہ جاری رہا تو دوسرے معنوں میں درس گاہوں میں سچ کا سبق بے معنی ہوجائے گا۔ کوئی بھی معاشرہ اور ملک اس طرح کی خرابیوں کا متحمّل نہیں ہوسکتا ۔ ترقی کے لیے اخلاقی اقدار کو فروغ دینا لازم ہے۔ عوام اور اداروں میں بڑھتی ہوئی دوری بڑے خطرے کی نشاندہی کر رہی ہے۔ عوام اور اداروں میں دوری کو ختم کرکے ہی ملکی سا لمیت کو خطرات سے بچایا جاسکتا ہے۔ اس دوری کو طاقت کے استعما ل اور پابندیوں سے ختم کرنے کا رویّہ مزید دوریاں پیدا کر رہا ہے ۔اگر فروری کے نتائج تسلیم کرلیے جاتے تو آج برسرا قتدار جماعت کے رہنما اپوزشن میں بھی سرخرو ہوتے ۔موجودہ رویہ ان کی اپنی جماعت کے خاتمے کا باعث بن رہا ہے۔
مشہور انگریزی کہاوت ہے کہ جمہوریت کی خرابی کو مزید جمہوریت سے دور کیا جاسکتا ہے۔ موجودہ برسراقتدار گروہ اس کے برعکس عمل
کر رہا ہے جس کا نتیجہ تباہی کے سوا کیا ہوسکتا ہے۔ کوئی بھی باشعور شخص موجودہ طریقہ کار کی حمایت کیسے کر سکتا ہے۔ سب کو نظر آرہا ہے کہ سیاسی اور معاشی عدم استحکام بڑھتا جارہا ہے ،لوگ مہنگائی ،بیروزگاری اور غربت میں اضافے سے پریشان ہیں۔ عوامی اتحاد اور معاشی سرگرمیوں کی بھرپور تحریک کے ذریعے ہی مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ اس کے لیے عوام کی حقیقی نمائندہ حکومت کا قیام لازمی ہے۔ اس کے بغیر سارے اقدامات بے معنی اور بے نتیجہ ہوں گے۔