میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
نواز شریف نوشتہ دیوار پڑھنے کی کوشش کریں !

نواز شریف نوشتہ دیوار پڑھنے کی کوشش کریں !

ویب ڈیسک
پیر, ۴ دسمبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

سپریم کورٹ سے نااہل قرار دیے گئے وزیراعظم اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف نے گزشتہ روز کوئٹہ میں اپنی اتحادی پارٹی پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے میپ) کے بانی عبدالصمد خان اچکزئی کی 44ویں برسی کے موقع پر ایوب اسٹیڈیم میں جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے ایک دفعہ پھر ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ کے ججوں کوتنقید کانشانا بناتے ہوئے ان کی تذلیل کرنے کی کوشش کی، جلسۂ عام سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے یہ منطق پیش کی کہ جن لوگوں نے پی سی او کے تحت حلف اٹھائے وہ کہہ رہے ہیں کہ نواز شریف اہل نہیں ہیں،اس موقع پر انھوں نے اپنے دور حکومت میں ججوں کوخریدنے کی کوششوں اور من پسند فیصلہ نہ آنے کی صورت میں سپریم کورٹ پر حملہ کرانے کاکوئی ذکر نہیں کیا اور عوام کو یہ نہیں بتایا کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدلیہ پر حملہ کراکے انھوں نے کن جمہوری اقدار کی پاسداری کی تھی اور ان کے اس عمل سے ملک میں عدلیہ اورجمہوریت کس حد تک مضبوط ہوئی تھی ۔ نواز شریف نے کہا کہ ان کی جماعت اور پی کے میپ کا نظریہ ایک ہے اور دونوں جماعتوں کا رشتہ بہت مضبوط ہے،انھوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ مجھے نظریہ ہمیشہ عزیز رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے عوام پاکستان کے اصل رکھوالے ہیں اورانہوں نے ہمیشہ ملک میں آمریت کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ آج بلوچستان میں جو ترقی ہوری ہے اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی، پورے صوبے میں سڑکیں بن رہی ہیں اور ایسے ترقیاتی کام ان کی حکومت سے قبل کبھی دیکھنے میں نہیں آئے۔انہوں نے کہا کہ بانی پی کے میپ عبدالصمد خان اچکزئی نے ایک مرتبہ افغانستان کا دورہ کیا تھا اور وہاں پر شاہراہوں کو دیکھ کر خواہش کا اظہار کیا تھا کہ پاکستان بالخصوص بلوچستان میں بھی ایسی سڑکیں ہونی چاہئیں، تاہم مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے ان کا خواب سچ کر دکھایا۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان بھر میں سڑکوں کے مزید جال بچھائے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے بلوچستان صوبہ سمیت ہر صوبہ چین کے صوبے شنکیانگ سے مل رہا ہے،لیکن اس موقع پر بھی انھوںنے یہ نہیں بتایا کہ اس ملک پر گزشتہ 30سال تک کسی نہ کسی طرح حکمرانی کے دوران ان کے دل میں بلوچستان کے لوگوں کادرد کیوں پیدا نہیں ہوا اور اپنے سابقہ دور میں انھوں نے بلوچستان کو نظر انداز کیوں رکھا اوربلوچستان کی ترقی کے لیے مختص کیے گئے فنڈز کے منصفانہ استعمال کو یقینی بناکر اس پسماندہ صوبے کو ترقی سے ہمکنار کیوں نہیں کیا؟انھوں نے یہ بھی نہیں بتایا کہ اپنے سابقہ دور حکومت میں انھوں نے بلوچستان کے حکمرانوں کو اس صوبے میں تعمیر وترقی کے لیے دیے جانے والے فنڈز کا غیرجانبدارانہ آڈٹ کیوں نہیں کرایا اور یہ فنڈز براہ راست اپنے بعض اتحادیوں کے اکائونٹس میں منتقلی کانوٹس کیوں نہیں لیا۔نواز شریف نے دعویٰ کیا کہ ان کی حکومت سے قبل ملک میں ہر جگہ دھرنے تھے اور بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ کی جاتی تھیم کیا کبھی گزشتہ حکومتوں سے اس حوالے سے سوال کیے؟ نواز شریف کو عوام سے یہ سوال کرنے اور انھیں دوسروں سے یہ سوال کرنے کی تلقین کرنے سے قبل خود اس بات کاجواب دینا چاہئے کہ ان کے سابقہ دور میں لوڈ شیڈنگ کے خاتمے اور عوام کو بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے لیے اقدامات کیوں نہیں کئے گئے ؟
نواز شریف کے سابقہ حکومتی ادوار میں ملک میں تعمیر وترقی کے کاموں سے مکمل چشم پوشی سے مخالفین کے اس الزام کو تقویت ملتی ہے کہ نواز شریف نے اپنے سابقہ ادوار میںاپنی تمام تر توجہ مبینہ طورپر اپنے بیٹوں کے نام آف شور کمپنیاں قائم کرنے اور اس مقصد کے لیے پاکستان سے بھاری رقوم منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک منتقل کرنے پر مرکوز رکھی اورظاہر ہے کہ ملک کے محدود وسائل بیرون ملک منتقل کیے جارہے ہوں توتعمیروترقی کے منصوبوں پر عملدرآمد کے لیے رقم کہاں سے دستیاب ہوسکتی ہے ۔
پاناما پیپرز کیس میں سپریم کورٹ کے حتمی فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے انھوں نے ایک مرتبہ پھر یہ کہا کہ میرے خلاف مائنس ون فارمولا لایا گیا اورالزام لگایا کہ مجھ سے احتساب کے نام پر انتقام لیا جا رہا ہے۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے ایک پیسے کی کرپشن نہیں کی لیکن بھر بھی انہیں کرپشن کے نام پر نکال دیا گیا۔انہوں نے دعویٰ کیا کہ انہیں اپنے بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نہ لینے پر سپریم کورٹ نے نااہل قرار دیا ۔نواز شریف نے یہ چیلنج بھی دیا کہ کوئی ثابت کرے کہ نوازشریف نے سرکاری خزانے کا ایک پیسہ کھایا،لیکن یہ نہیں بتایا کہ اگر انھوں نے سرکاری خزانے کے فنڈز نہیں کھائے اور انھیں بیدردی سے اپنے اور اپنے خاندان پر استعمال کرنے کے ساتھ ہی بیرون ملک منتقل کرکے آف شور کمپنیاں قائم نہیں کیں تو یہ آف شور کمپنیاں کیسے وجود میں آگئیں ؟ سپریم کورٹ نے توان سے ان کمپنیوں میں لگائے جانے والے سرمائے کاہی منی ٹریل مانگا تھا جو عدالت کی جانب سے مسلسل مہلت دیے جانے کے باوجود وہ نہیں دے سکے،اگر وہ سچے اور ایماندار اور امین تھے تو انھیں تو ایک ایک پائی کاحساب عدالت کے سامنے پیش کردینا چاہئے تھا ، اس حوالے سے وہ یہ عذر پیش کرتے ہیں کہ یہ ریکارڈ بہت پرانا ہے جس کی وجہ سے یہ ریکارڈ پیش کرنا ممکن نہیں ،اس طرح کے مضحکہ خیز عذر اگر وہ 17ویں 18ویں صدی میں پیش کرتے تو شاید ان کو درست تسلیم کرلیاجاتا لیکن کمپیوٹر کے اس دور میں جب ایک انگلی کے اشارے پر صدیوں کاریکارڈ سامنے آجاتاہے اس طرح کے عذر پیش کرکے وہ کس کو بیوقوف بنانا چاہتے ہیں ۔
نواز شریف نے اپنی تقریر کے دوران ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کاسہرا بھی اپنے سر پر سجانے کی کوشش کی اور ایسا کرتے ہوئے وہ یہ بھول گئے کہ وہی تھے جس نے اچھے اور برے طالبان کی اصطلاح استعمال کی تھی اور وہ اورا ن کے ٹیلنٹڈ بھائی مبینہ طورپر بعض طالبان رہنمائوں کی باقاعدگی سے میزبانی کرتے رہے تھے۔ اگر پاک فوج کے سربراہ تمام دہشت گردوں کے خلاف بلاتخصیص کارروائی کا فیصلہ نہ کرتے تو شاید آج پاکستان کی حالت عراق اور شام سے بھی زیادہ خراب ہوچکی ہوتی اورملک کے وسیع علاقے پر دہشت گرد گروپوں کاقبضہ ہوتا۔ اس حقیقت سے انکار نہیں کیاجاسکتاکہ کراچی سمیت پورے ملک میں دہشت گردی کا خاتمہ کرنے کاسہرا پاک فوج کے سر جاتاہے ،پاک فوج کے جوانوں نے اپنے سر ہتھیلی پر رکھ اس ملک کو دہشت گردوں کے چنگل سے نجات دلائی ہے اورپوری دنیا اس حوالے سے پاک فوج کی صلاحیتوں اور کوششوں کی ہی تعریف کرتی ہے۔ آج تک دنیا کے کسی بھی ملک کے سربراہ نے یہ بات نہیں کہی کہ نواز شریف نے پاکستان کو دہشت گردی سے نجات دلانے میں کوئی کردار ادا کیاہے۔تاہم نواز شریف کی اس بات کی اہمیت سے انکار نہیں کیاجاسکتا کہ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کے ووٹ سے حکومتیں آئیں اور ان ہی کے ووٹ سے جائیں،لیکن ووٹ کاتقدس برقرار رکھنا بھی حکومت کی ہی ذمہ داری ہے،اور اس وقت بھی مرکز اور پنجاب کے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں خود ان ہی کی حکومت قائم ہے، نواز شریف کو عوام کی رائے کاکتنا احترام ہے اور وہ آزادانہ ومنصفانہ انتخاب پر کس حد تک یقین رکھتے ہیں اس کی ایک جھلک ان کی خالی کردہ نشست پر ہونے والے ضمنی انتخاب کے دوران پوری دنیا نے دیکھ لی ہے جہاں اس نشست پرکامیابی حاصل کرنے کے لیے مبینہ طورپر وفاقی اور صوبائی حکومت کے تمام وسائل جھونک دیے گئے تھے اور مخالفین تو یہ الزام بھی عائد کرتے ہیں کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے کمشنروں، ڈپٹی کمشنروں ، پٹواریوں اور دیگر تمام سرکاری عہدیداروں کومسلم لیگ ن کے جلسوں میں شرکت کویقینی بنانے اور مسلم لیگ کے لیے ووٹ ڈلوانے کی اضافی ذمہ داری سونپ دی گئی تھی۔اگر نواز شریف کے نزدیک یہی جمہوریت ہے اور ان کے نزدیک عوام کی رائے کی یہی اہمیت ہے تو پھر اس حوالے سے کوئی بات کرنا ہی عبث ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ بلوچستان سمیت پاکستان کے کسی بھی علاقے کے لوگ اتنے بیوقوف نہیں ہیں کہ محض روتی صورت بناکر بھرائی ہوئی آواز میں اپنی مظلومیت کاڈھونگ رچانے پر عوام ایک دفعہ پھر ان کو ووٹ دے کر اقتدارکے سنگھاسن تک پہنچادیں۔وقت کاتقاضا ہے کہ نواز شریف نوشتۂ دیوار پڑھنے کی کوشش کریں اوراپنے سابقہ جرائم کاکھلے دل سے اعتراف کرتے ہوئے سیاست سے مکمل طورپر دستبرداری کااعلان کریں اور اپنی پارٹی کو آزادانہ طورپر اپنا نیا لیڈر منتخب کرکے جمہوری عمل کو آگے بڑھانے کاموقع دیں ،صرف یہی ایک طریقہ ہے جس کے ذریعہ اب وہ مسلم لیگ کے اپنے نام سے منسوب دھڑے کو مکمل معدومی سے بچاسکتے ہیں ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں