میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
قاتل ۔قانون

قاتل ۔قانون

منتظم
اتوار, ۴ دسمبر ۲۰۱۶

شیئر کریں

ishtiaq-ahmed-khan

اشتیاق احمد خان
جرائم کی دنیا اتنی بھیانک ہے نہیں جتنی نظر آتی ہے لیکن یہ ایسی دلدل ہے کہ جو ایک بار اس میں گر گیا نا صرف اس کا باہر نکلنا آسان نہیں ہوتا بلکہ اس کی آنے والی نسلوں کو بھی اس دلدل سے نکلنے کے لیے وہ پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں کہ اکثر کم ہمت بیچ ہی میں سے واپس جرائم کی دنیا میںلوٹ جاتے ہیں ۔
دنیا کا کوئی ملک اور معاشرہ ایسا نہیں جہاں جرائم نہ ہوتے ہوں کہیں شرح کم ہے تو کہیں آسمان کی بلندیوں سے باتیں کرتی ۔دنیا پر نظر ڈالی جائے تو جس قدر جرائم دنیا کے تھانیدار اور اس کے حولدار کے دیس میں ہوتے ہیں باقی دنیا کی جرائم کا مجموعہ بھی ان کے جرائم سے کم ہے یہ دنیا کا تھانیدار اور اس کا حولدار کو ن ہے یہ سب جانتے ہیں بتانے کی ضرورت نہیں ۔
پاکستان میں کراچی نہ صرف آبادی کے اعتبار سے بلکہ جرائم کے حوالے سے بھی سر فہرست رہا ہے جاری آپریشن نے جرائم کے سمندر کو کچھ پرسکون تو کیا ہے تلاطم میں بھی کمی آئی ہے لیکن سمندر کے سکون اور تلاطم کی کمی کا اصل فیصلہ تو اس وقت ہو گا جب امن وامان کی کھلی ذمہ داری پولیس کے حوالے ہو گی ابھی فوج اور رینجرز کی موجودگی میں نظر آنے والی سکنیت عارضی بھی ہو سکتی ہے کراچی نہ صرف پاکستان کا معاشی مرکز ہے بلکہ دنیا بھر میں شناخت بھی دارالحکومت اگرچہ اسلام آباد میں ہے لیکن اصل اور مستقل سیاسی فیصلے کراچی ہی کرتا ہے یوں اس پر دشمنوں کی گدہوں والی نظر ہے ۔
حیدرآباد کسی دور میں پاکستان کے چھ بڑے شہروں میں شمار ہوتا تھا اور یہ اس وقت کی بات ہے جب ڈھاکہ اور چٹاگانگ (چاٹ گام) پر بھی سبز ہلالی پرچم لہراتا تھا حیدرآباد مغربی پاکستان کے چار بڑے شہروں میں سے ایک تھا اور فیصل آباد (لائل پور)اور ملتان کا نمبر اس کے بعد آتا تھا ۔
حیدرآباد کے حالات ومعاملات کراچی سے جڑے ہوئے ہیں کہ ان دونوں میں بسنے والوں کی اکثریت ہندوستان سے ہجرت کر کے آنے والوں اور ان کی اولادوں پر مشتمل ہے، یہ طبقہ لکھا پڑھا باشعور اور مہذب ہے لیکن اسٹریٹ کرائم میں نمبر ون کیوں ہے اور حیدرآباد فہرست کے ابتدائی نمبروں میں کیوں شامل ہے ۔
یہ حقیقت ہے کہ ماں کے پیٹ سے جنم لینے والا ہر بچہ ہر معنی میں معصوم ہوتا ہے وہ دین فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر خاندان قبیلہ اسے ہندو،مسلم، سکھ ،عیسائی بنا دیتا ہے، ماں باپ کو جس مذہب پر چلتا دیکھتا ہے اسی کو اپنا لیتا ہے غور وفکر کرنے والے دینی فطرت کی طرف لوٹ آتے ہیں اور روایات کے پابند اس سعادت سے محروم رہ جاتے ہیں کہ ان کی اکثریت تسلیم کرتی ہے کہ وہ جو کچھ کر رہے ہیں وہ فطرت کے خلاف ہے لیکن خاندانی روایات قبیلہ اور معاشرے کے تعلقات حقیقت تسلیم کرنے میں آڑ بن جاتے ہیں ۔
کراچی میں جہاں جاری آپریشن کے نتیجہ میں خوف کی فضا میں بہتری آئی ہے، اسٹریٹ کرائم کا گراف گر ا ہے جہاں موبائل اور گاڑی چھنے کے خطرات کم ہوئے ہیں لیکن اصل صورتحال تو آپریشن ختم ہونے کے بعد ہی سامنے آئے گی۔حیدرآباد ،کراچی کے حالات وواقعات سے متاثر ہوتا ہے وہاں جب اسٹریٹ کرائم بڑھے بھتہ خوری نے ایک عفریت کی صورت اختیار کی چائنا کٹنگ کے نام پر قبضہ مافیا سرگرم ہوئی تو کراچی کی ہوا کے ساتھ ہی ان بیماریوں کے جراثیم حیدرآباد بھی پہنچے، اسڑیٹ کرائم بڑھنے لگے موبائل اور گاڑیاں چھنے کی وارداتوں میں روز مرہ اضافہ ہوتا گیا، لیکن آپریشن کرنے والوں نے کراچی تک ہی محدود رکھا اس آپریشن کا دائرہ پورے سندھ بلکہ پورے پاکستان تک نہ بڑھانے کے اسباب کیا تھے اور ہیں یہ تو ارباب اختیار ہی جانتے ہیں ۔
حیدرآباد میں جب سے عرفان بلوچ نے ایس ایس پی کا چارج سنبھالا ہے حیدرآباد میں اسڑیٹ کرائم تو کم ہوئے ہیں اس کمی کا تناسب کیا ہے یہ معلوم کرنا مسئلہ فیثاغورث کا حل نکالنا نہیں ہے عرفان بلوچ کے احکامات کے مطابق جس علاقہ میں اسڑیٹ کرائم رپورٹ ہو نگے اس علاقہ کا تھانیدار، تھانیداری سے فارغ ہو گا، عرفان بلوچ کی تعیناتی کے ساتھ ہی حیدرآباد میں ایک اصطلاح عام ہوئی ہے ہاف فرائی ،فل فرائی ۔پہلے انڈے کا ہاف اور فل بوائل ہونا سنتے تھے یا پھر ہوٹلوں میں ہاف چکن فرائی اور فل چکن فرائی کے نرخ نامے کی تختیاں دیکھنے کو ملتی تھیں انسانوں کا ہاف اور فل فرائی ہونا ایک معمہ ہے ۔
پولیس میں موجود ذرائع کے مطابق ہاف فرائی وہ ہے جس کو پولیس عدالتوں سے سزا دلانے کے بجائے اسکے ایک یا دونوں گھٹنوں کے ارد گرد گولیاں مار کر عمر بھر کے لیے معذور کر دینا اور فل فرائی وہ ہے جس کے بلیک وارنٹ کسی عدالت نے نہیں تھانیدار نے جاری کیے ہوں۔کہا جاتا ہے کہ اس طریقہ کے بعد جرائم میں کمی آئی ہے لیکن انسانی نفسیات کو دیکھا جائے تو اس میں ضدکا عنصر عبرت کے عنصر سے زیادہ پایا جاتا ہے انسان فطرتاً ضدی ہے ۔
اگر ہم جرائم کی دنیا کا تجزیاتی مطالعہ کریں تو اس دنیا میں موجود 90 فی صد افراد ضد اور انتقام کے جذبے کی وجہ سے داخل ہوتے ہیں(ٹوپک زماقانون)۔
ہاف فرائی اور فل فرائی کے نتیجہ میں جب پولیس کو اختیار دے دیا گیا ہے تو یہ قانون نافذ کرنے والوں کی جانب سے قانون کے ناکارہ ہونے اور عدالتوں سے انصاف نہ ملنے کا اعتراف ہے، یہ عدالتوں پر عدم اعتماد کا اظہار ہے اور جب ریاستی ادارے ہی عدالتی نظام پر عدم اعتماد کا اظہار کر دینگے تو جرائم کی دنیا ہی آباد ہو گی ۔
یہ درست ہے کہ عدالتوں سے حقیقی ملزم بھی سزا نہیں پاتے لیکن اس میں بھی عدالتیں ذمہ دار نہیں ہیں عدالتیں نہ تو جائے وقوعہ کا معائنہ کرتی ہیں نہ مشیر نامہ تیار کرتی ہیںنہ ہی جرم ،میں ہی عینی شاہد ہوتی ہیںوہ تو پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پیش کردہ شواہد گواہیوں اور دستاویزات کی بنیاد پر سزا سناتی ہیں، اگر پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے قابل اعتبار گواہ درست شواہد جائے وقوعہ کا درست نقشہ اور دستاویزات پیش نہیں کر پاتے تو اس صورتحال میں عدالتیں کیا کر سکتی ہیں عدالتوں نے فیصلہ شواہد، گواہوں اور دستاویزات کی بنیاد پر سنانا ہوتا ہے، یوں ملزموں کے بری ہونے کا ملبہ عدالتوں پر نہیں ڈالا جا سکتا، ایک ذاتی مشاہدہ ہے علاقہ کا نام اور گرفتار شدہ فرد کا نام حذف کر کے بیان کرتا ہوںبنک فراڈ کے ایک مقدمہ میں پولیس نے ایک فرد کو اس کے گھر سے گرفتار کیا لیکن گرفتاری علاقہ کی سیشن کورٹ کے احاطے سے ظاہر کی کہ ملزم سیشن کورٹ سے عبوری ضمانت کی توثیق کے لیے سیشن کورٹ آیا تھا اور عدالت کی جانب سے عبوری ضمانت کی عدم توثیق اور عدم توسیع کہ بعد سیشن کورٹ کے احاطہ سے گرفتار کیا ہے، وہ جو کہتے ہیں کہ جھوٹ کے پیر نہیں ہوتے یہ بات یہاں ثابت ہوتی ہے، تھانیدار صاحب نے کہانی تو بہت زبردست لکھی لیکن ہر مجرم کی طرح وہ بھی ایک نشانی چھوڑ گئے اور اپنی کہانی کے بودا ہونے کا ثبوت وکیل صفائی کو دے دیا کہ انہوں نے جو پوری ڈرامائی صورتحال بنائی تھی وہ ہائی کورٹ میں ایک ہی سماعت میں ناکام ڈرامہ ثابت ہوئی کہ جس دن تھانیدار صاحب نے کمال جرا¿ت کا مظاہر کرتے ہوئے ایک شاطر فراڈےہ کو سیشن کورٹ کی جانب سے ضمانت کی عدم توثیق پر پکڑا تھا وہ ہفتہ وار تعطیل اتوار کا دن تھا یوں وکیل صفائی کا کام تو خود پولیس نے آسان کر دیا فراڈ کا مقدمہ تو رہ گیا ایک طرف گرفتاری کا غلط طریقہ پولیس کے گلے پڑ گیا ۔
اسلام دین فطرت ہے اس نے انصاف کے بھی فطری انداز رکھیں ہیں اس میں سب سے زیادہ اہم نقطہ یہ ہے کہ انسانوں میں احساس اُبھارا جائے کہ دنیاوی عدالتوں کو تو دھوکہ دیا جا سکتا ہے رب کی عدالت سے فرار ممکن نہیں اول تو جرم ہی نہ کیا جائے لیکن اگر نادانستہ اور شیطان کے بہکاوے میں آکر گنا ہ سرزد ہو بھی جائے تو دنیاوی عدالت سے سزا پا کر آخرت کی سزا سے بچا جا ئے اس وقت آخرت کا خوف ختم ہو چکا یوں دنیاوی عدالتوں کو دھوکہ دینا ہی سزا سے بچنے کا ذریعہ بن چکا یہاں تاریخ اسلام کے ایک واقعہ پر ہی میں اپنا کالم ختم کرتا ہوں۔
نبی کریمﷺ کے دور میں ایک خاتون شیطان اور نفس کے بہکاوے میں آ کر گناہ کر بیٹھی اور حاملہ ہو گئی اس عورت نے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے گناہ کا اعتراف کیا اور پاک کرنے کی درخواست کی گناہ کی نوعیت یوں تھی کہ سنگساری ہی سزا تھی آپ ﷺ نے واضع حمل کے بعد آنے کا فرمایا ۔واضع حمل ہوا طہارت ہوئی تو پھر وہ عورت آپﷺکی خدمت میں حاضر ہوئی کہ اسے پاک کر دیا جائے آپ ﷺ نے فرمایا کہ بچہ کی رضاعت مکمل کرو تو اس عورت نے شریعت کے مطابق رضاعت کی مدت پوری ہونے کے فوری بعد یوں حاضر ہوئی کہ بچے کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھا آپ ﷺ نے حد جاری کرنے کا حکم دے دیا اور یوں وہ عورت سنگسار کر دی گئی اس وقت ایک شخص نے اس عورت سے حقارت کا اظہار کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اس نے ایسی توبہ کی کہ اگر اس کی توبہ پوری کائنات پر بانٹ دی جائے تو پوری کائنات کے گناہ معاف ہو جائیں اس نے شیطان اور نفس کے بہکاوے میں آ کر خطا تو کر لی لیکن رب کے حکم کے مطابق سزا پا کر اپنے گناہ کا کفارا بھی ادا کر لیا اب وہ ایسی ہی ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نا ہو فرشتے اس کی روح کو سلام کرتے ہیں کہ اس نے دنیاوی زندگی پر حکم ربی کو فوقیت دی اسلام میں جیل کا تصور نہیں ہے مجرم کو جیل میں ڈالنے سے نا تو جرائم کم ہوسکتے ہیں نا ہی مجرموں کو عبرت حاصل ہوتی ہے بلکہ مجرم کے اہل خانہ جرم بیگناہی کی سزا بھگتے ہیں دنیا کچھ بھی کہے لیکن اسلام کے مطابق برسرعام سزاہیں ہی جرائم کا خاتمہ کر سکتی ہیں اور فیصلہ بہرحال قاضی کی عدالت میں کرنا ہے پولیس نے نہیں۔
٭٭


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں