کشمیری صحافی بھی پابند سلاسل
شیئر کریں
ریاض احمدچودھری
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سالانہ رپورٹ2022ـ23 میں کشمیری صحافیوں کی قید وبند کی نشاندھی بھی کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت نے مذہبی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف غیر متناسب طور پر فوجداری قوانین کا استعمال کیا کیونکہ پولیس معمول کے مطابق مسلمانوں کو نماز پڑھنے، جائز کاروباری لین دین کرنے اور گائے کا گوشت کھانے کے جرم میں گرفتار کرتی ہے۔ہریانہ، اتر پردیش، مدھیہ پردیش، کیرالہ اور گجرات میں کچھ ہندوتوا گروپوں کی طرف سے مسلمانوں کے کاروبار کے معاشی بائیکاٹ کرنے کیلئے کہا گیا ہے۔ نفرت انگیز جرائم بشمول دلتوں اور آدیواسیوں کے خلاف تشدد کا ارتکاب مکمل استثنی کے ساتھ کیا گیا۔رپورٹ میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے انکشاف کیا ہے کہ بھارت نے انسانی حقوق کے محافظوں اور مذہبی اقلیتوں کے حقوق دبانے اور اپنے مخالفین کو خاموش کرانے کے لیے انسداد دہشت گردی اور منی لانڈرنگ سمیت جابرانہ قوانین کا استعمال کیا جن میں طویل مدت تک حراست میں رکھنا اور ماورائے عدالت ہلاکتیں شامل ہیں۔ حکام نے ڈیجیٹل ٹیکنالوجیز کا استعمال کرتے ہوئے انسانی حقوق کے محافظوں کو ہراساں کیا۔انسانی حقوق کی غیر سرکاری تنظیم لیگل فورم فار کشمیر (ایل ایف کے) نے 2024 کے لیے اپنی پہلی ششماہی جائزہ رپورٹ میں بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں رواں برس کے پہلے چھ مہینوں میں انسانی حقوق کی ‘سنگین خلاف ورزیوں’ میں اضافے کو اجاگر کیا گیا ہے۔جولائی میں جاری کی گئی رپورٹ میں کشمیری عوام کی حالت زار کو دیکھتے ہوئے اس معاملے پر فوری بین الاقوامی مداخلت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔جائزہ رپورٹ میں 2024 کی پہلی ششماہی تک انڈین حکام اور فورسز کی جانب سے وسیع پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے دستاویزی ثبوت پیش کیے گئے ہیں۔رپورٹ کے مطابق رواں سال جنوری سے جون تک بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ایک مستقل رجحان دیکھا گیا۔ مقامی میڈیا رپورٹس کے حوالے سے کہا گیا کہ محاصرے کر کے 202 کارروائیاں کی گئیں جو کہ وہاں ہونے والی کارروائیوں کا صرف چھوٹا سا حصہ ہیں۔ ‘مقبوضہ کشمیر’ میں مقامی لوگوں کے خلاف فوجی کارروائیوں میں چھ مہینوں میں تشدد کی کارروائیوں میں 72 افراد مارے گئے جن میں 19 شہری، آزادی کے لیے لڑنے والے 23 افراد اور 30 بھارتی فوجی شامل ہیں۔
لیگل فورم فار کشمیر کی تحقیقات میں ماورائے عدالت قتل، جبری گمشدگیوں اور اختلاف رائے کو دبانے اور انسانی حقوق کے کارکنوں کو خاموش کرنے کے لیے انسداد دہشت گردی کے بدنام قوانین کے استعمال کے متعدد واقعات کو بھی نمایاں کیا گیا ہے۔رپورٹ میں عام شہریوں کے خلاف منظم طریقے سے تشدد اور غیر انسانی سلوک کا بھی ذکر ہے جس کا مقصد خوف پیدا کرنا اور مزاحمت کی کسی بھی شکل کو دبانا ہے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح شدت پسندی نے خطے میں جاری تنازع میں انسانی المیے کو مزید سنگین کیا ہے جہاں بھارتی افواج نے نہ صرف اپنی فوجی کارروائیوں کو تیز کر دیا ہے بلکہ شہری املاک کی ضبطی اور گھروں کی مسماری میں بھی اضافہ دیکھا گیا جس کے نتیجے میں مقامی آبادی کو نمایاں طور پر نقل مکانی اور مصائب کا سامنا ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں، وکلا اور صحافیوں کو ہدف بنانے اور ڈرانے دھمکانے کا بھی ذکر کیا گیا۔بھارتی حکام کی طرف سے انسداد دہشت گردی کے قوانین کے غلط استعمال نے سول سوسائٹی کی تنظیموں، سماجی و مذہبی گروپوں اور آزاد میڈیا کی سرگرمیوں کو ‘جرم’ بنا دیا ہے جس سے آزادی اظہار رائے اور اجتماع کی آزادی کو مؤثر طریقے سے دبایا جا رہا ہے۔
ایل ایف کے کی اس رپورٹ میں زمینی تحقیق اور ڈیٹا، جس میں سرکاری ریکارڈز، میڈیا رپورٹس، اور این جی اوز کی جانب سے فراہم کیے گئے اعداد و شمار سمیت معتبر ذرائع سے معلومات شامل ہیں۔ ششماہی رپورٹ کے نتائج ایک ٹھوس بنیاد فراہم کرتے ہیں اور یہ تنظیم بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کرتی ہے کہ وہ نہ صرف براہ راست مجرموں بلکہ ان لوگوں کا بھی احتساب کرے جو انسانی حقوق کی ان خلاف ورزیوں کا حکم دیتے ہیں، یا اکساتے ہیں۔بھارت کے زیرانتظام کشمیر کی صورت حال پر مسلسل نہ صرف کشمیری بلکہ دنیا بھر میں بات کی جا رہی ہے۔ ‘پاکستان بھی کہہ رہا ہے کہ وہاں آزادی اظہار اور مذہبی آزادی ختم ہو رہی ہے۔’ابھی جو وہاں انتخابات ہوئے ہیں تو بھی عالمی سطح پر وضع کردہ معیار کے مطابق نہیں تھے۔ وکلا کی جو تنظیمیں ہیں ان پر پابندیاں ہیں۔’کشمیر میں انسانی حقوق کی بہت سے خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں لیکن اہم یہ ہے کہ عالمی برداری اس پر ایکشن لے گی یا نہیں اور کشمیری خود ہی بات کرتے رہیں گے۔’پاکستان کی طرف سے بھی بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں ‘بنیادی انسانی حقوق اور آزادیوں اور پرامن اجتماعات پر پابندیوں’ کی مذمت کی جاتی رہی ہے۔
بھارت نے پانچ اگست 2019 کو اس کے زیر انتظام جموں و کشمیر میں انڈین آئین کے آرٹیکل 370 کے تحت دی گئی خصوصی حیثیت، یا خود مختاری کو منسوخ کر دیا تھا۔پاکستان کے علاوہ اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کی بھی طرف سے بھارتی حکومت سے اس کے زیر انتظام جموں و کشمیر سے 2019 میں کیے گئے اقدامات کو واپس لینے کا مطالبہ کیا جاتا رہا ہے۔ آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد پاکستان نے بھارت کے ساتھ سفارتی تعلقات کم کرتے ہوئے تجارت معطل کرنے کا اعلان بھی کیا تھا۔