میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
اسرائیل، فلسطین اور موہن بھاگوت

اسرائیل، فلسطین اور موہن بھاگوت

ویب ڈیسک
هفته, ۴ نومبر ۲۰۲۳

شیئر کریں

ڈاکٹر سلیم خان

راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت نے فرمایا اسرائیل اور حماس لڑ رہے ہیں اس مسئلہ پر ہندوستان میں کبھی کوئی لڑائی نہیں ہوئی۔ اس بیان کو سن کر ایسا لگتا ہے کہ موصوف نہ تو ہندوستان کی تاریخ سے واقف ہیں اور نہ یہ جانتے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان لڑائی کی وجہ کیا ہے ؟ موہن بھاگوت کو سب سے پہلے اس حقیقت کا ادراک کرلینا چاہیے کہ یہ اسرائیلی استعمار کے خلاف فلسطینیوں کی جنگ آزادی ہے ۔ ہندوتوا کے موجد اور سب سے بڑے دانشور وی ڈی ساورکر بھی اپنی کتاب میں اس بات کا اعتراف کرچکے ہیں کہ وطن عزیزمیں پہلی جنگ آزادی بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں لڑی گئی تھی۔ اس سے ترغیب لے کر بعد میں خود ساورکر نے بھی انگریزوں کے خلاف الم بغاوت بلند کیا اور اسی لیے انہیں انڈمان نکوبار کی جیل بھیجا گیا ۔ یہی سبب ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے وہاں کا ہوائی اڈہ ساورکر کے نام سے منسوب کیا۔ موہن بھاگوت یہ تو کہہ سکتے ہیں کہ آگے چل کر اس جنگ سے وی ڈی ساورکر تائب ہوگئے تھے ۔انہوں نے اس کو غلطی سمجھ کر انگریزوں کے تئیں اپنی وفاداری کا اظہار کردیا تھا اور ساری عمر خدمت کرنے کی پیشکش کے عوض جیل سے خلاصی حاصل کی تھی لیکن ان کے علاوہ دیگر ہزاروں مجاہدین آزادی نے کبھی ہتھیار نہیں ڈالے اور مسلسل لڑتے رہے ۔مولانا محمد علی جوہر سے لے کر گاندھی جی تک ، مولانا آزاد سے لے کر پنڈت نہرو تک اور نیتا جی سبھاش چندر بوس سے لے کر میجر جنرل شاہنواز حسین تک نے آزادی کے حصول تک اپنی جدو جہد جاری رکھی ۔ موہن بھاگوت یہ ضرور کہہ سکتے تھے کہ ان اپنی تنظیم اس کشمکش سے دور عافیت کی خاطر تہذیب و ثقافت کاچولہ اوڑھ کر انگریزوں سے ساز باز کرتی رہی لیکن جنگ آزادی کا ہی سرے انکار کردینا گویا شتر مرغ کی مانند ریت میں سر چھپا حقائق سے منہ موڑنے کے مترادف ہے ۔
موہن بھاگوت نے اپنے بیان میں مزید کہا کہ یہ ہندوؤں کا ملک ہے ، جو تمام مذاہب کا احترام کرتا ہے ۔ بیان کے اس حصے میں دو غلط بیانیاں ہیں ۔ اول تو یہ صرف ہندووں کا نہیں بلکہ یہاں بسنے والے سارے باشندوں کا ملک ہے ۔ بھگوت جی نے اس ملک کو صرف ہندووں کا کہہ کر آگے کے اپنے ہی دعویٰ کی نفی کردی کہ وہ تمام مذاہب کا احترام کرتا ہے ۔موہن بھاگوت کی زبان جو بات کہہ رہی ہے اگر وہی ان کے دل میں بھی ہوتی تو وہ ہندوستان کو صرف ہندووں کا ملک نہیں کہتے ۔ ویسے یہ سچائی ہے کہ اس ملک میں مٹھی بھر فسطائی عناصر کے علاوہ اکثریت تمام مذاہب کا احترام کرتی ہے لیکن بدقسمتی سے فی الحال فسطائیوں کی سرکار ہے جس نے ذرائع ابلاغ کو خرید رکھا ہے اس لیے میڈیا میں اس کا بول بالا ہے ۔
یہ لوگ زبان سے تمام مذاہب کے احترام کی بات تو کرتے ہیں مگر عملاً تضحیک اور تذلیل کرتے ہیں ۔ ا س لیے ملک کے اندر آئے دن مساجد اور گرجا گھروں پر حملے ہوتے ہیں ۔ گجرات اور منی پور جیسا فساد ہوتا ہے اور قتل و غارتگری کرنے والوں کو بچایا جاتا ہے ۔ ان کی سزاوں میں تخفیف کرکے اس کا سیاسی فائدہ اٹھایا جاتا ہے ۔ یہ گھناونی حرکت کوئی اور نہیں ان کی اپنی پارٹی بی جے پی کرتی ہے ۔ اپنے بغل بچہ کو روکنے سے قاصر آر ایس ایس کے سربراہ کو لمبی چوڑی ہانکنے سے گریز کرنا چاہیے ۔سنگھ کے سربراہ نے دعویٰ کیا کہ اس ملک میں وہ مذہب و ثقافت ہے جو تمام فرقوں اور عقائد کا احترام کرتی ہے ۔ وہ مذہب ہندومت ہے ۔ اس بات کو پڑھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ شاید موہن بھگوت اخبارات نہیں پڑھتے یا شتر مرغ کی مانند حقائق سے منہ چراتے ہیں۔ وہ جس دن تقریر فرما رہے تھے اسی دن یہ خبر آئی کہ دہلی ( تھانہ کنجھاولہ) کے علاقہ میں محمد سلمان نامی نوجوان کی ایک ہجوم نے نام پوچھ کر وحشیانہ پٹائی کی۔ اس سے نوے ّ ہزار روپئے لوٹنے کے بعد جئے شری رام کا نعرہ لگوایا اور پیشاب پینے پلانے کی کوشش کی۔سوال یہ ہے کہ کیا دہلی اسی ملک کی راجدھانی نہیں ہے جس کی وہ تعریف و توصیف کررہے تھے ؟ اگر ہے تو کیا وہاں ہندو مت کے ماننے والے تمام فرقوں اور عقائد کا احترام کرتے ہیں؟ بھاگوت نے جس مہاراشٹر میں یہ پروچن دیا اس میں اسی ہفتہ سورج دیو رام دھکارے نامی پولیس حوالدار نے نام پوچھ کرعظیم سید کو قتل اورفیروز شیخ کو زخمی کردیا ۔ اس سے قبل چیتن سنگھ چوہان نامی ریلوے پولیس کے اہلکار نے تین مسافروں کو نام پوچھ کر ہلاک کیا اور یوگی کی حمایت میں نعرے لگائے ۔ کیا یہ سب لوگ ہندونہیں ہیں ؟
نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے مطابق ہیٹ کرائم کے 2014 میں 323 کیسز تھے جو مودی راج میں 2020 تک بڑھ کر 1,804 ہوگئے یعنی سرکاری رپورٹ کے مطابق سات سالوں میں چھ گنا یاتقریباً 500 فیصد اضافہ ہوگیا ۔ تعزیرات ہند کی جس دفع کے تحت مقدمات درج ہوئے ہیں وہ "مذہب، نسل، جائے پیدائش، رہائش، زبان کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کے فروغ سے متعلق ہے ۔ موہن بھاگوت جی بتائیں کہ امیت شاہ کی وزارتِ داخلہ کے ذریعہ جاری کیے جانے والے یہ اعدادو شمار جھوٹے ہیں یا ان کا بیان غلط ہے ؟ یہ نفرت انگیزی صرف مسلمانوں کے خلاف نہیں ہے ۔ مدھیہ پردیش کی ڈبل انجن سرکار کے تحت ایک قبائلی پر پیشاب کرنے اور ویڈیو بنانے نیز دلت عورت کو برہنہ کرنے کے واقعات بی جے پی کے رہنما یعنی سنگھ پریوار کے لوگ انجام دے چکے ہیں ۔اس سوال کا جواب تو موہن بھاگوت کو دینا ہی پڑے گا کہ آر ایس ایس اپنے پریوار کے لوگوں کو ہندو مذہب کی تہذیب و ثقافت کا پابند کیوں نہیں بناسکی ؟ ورنہ ان کی باتوں پر کوئی یقین نہیں کرے گا ۔ موہن بھاگوت نے ناگپور کے ایک اسکول میں چھترپتی شیواجی مہاراج کی تاجپوشی کے 350 سال پورے ہونے پر منعقدہ پروگرام میں کہا کہ ساری دنیا میں ہر طرف لڑائی ہے ۔ روس یوکرین جنگ اور حماس اسرائیل جنگ جاری ہے مگر ہمارے ملک میں اس طرح کے مسائل پر کبھی لڑائی نہیںہوئی۔ اس کے بعد انہوں نے شیواجی مہاراج کے زمانے کی مثال دے کر کہا کہ اس وقت یہ صورتحال پیدا ہوئی تھی ، لیکن ہم نے مذہب کے معاملے پر لڑائی نہیں کی۔
یہ بات درست ہے کہ وہ ایک سیاسی جنگ تھی مگر آر ایس ایس کے بانی ہیگڑیوار نے اسی کو مذہبی رنگ دے کر ہندووں کو منظم کرنے کی کوشش کی۔ ساورکر نے اس کو پوری طرح ہندو مسلم بنانے کے بعد مسلم شہزادی کے ساتھ شیواجی کے حسن سلوک پر تنقید کی اور آبروریزی نہیں کرنے کو غلط بتایا ۔ بھاگوت جی کے ذریعہ ہندو مت کی نئی تعریف کے بعد ساوکر کی ہندوئیت مشکوک ہوجاتی ہے کیونکہ بھاگوت کہتے ہیں ہم ہندو ہیں اور ایسا صرف ہندو ہی سوچ سکتا ہے ۔
وقت کے ساتھ سرسنگھ چالک کی یادداشت کمزور ہوچکی ہے ورنہ اس طرح کی جنگ کا انکار کرنے والے بھاگوت جی کو یادہوناچاہیے کہ چند ماہ قبل انہوں نے کہا تھا کہ ہندو گزشتہ ایک ہزار سال سے جنگ کی حالت میں ہیں۔ دوسری طرف، دلت رہنما وامن میشرم اکثر یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ نچلی ذات کے لوگوں کو اونچی ذات والے پچھلے تین ہزار سالوں سے ظلم و ستم کا نشانہ بناتے آ رہے ہیں۔ لہٰذا، یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ہندوستانی معاشرہ اپنی سماجی اور مذہبی ساخت کی پیچیدگیوں کی وجہ سے صدیوں سے تصادم کی حالت میں ہے ۔ اس کے علاوہ ابھی حال خود انہوں نے یہ اعتراف بھی کیا تھا کہ اس ملک دوہزا ر سالوں ہم وطنوں کے ساتھ انسانوں جیسا سلوک نہیں کیا گیا۔ یہ وحشیانہ سلوک خود ہندووں نے اپنے ہم مذہب لوگوں کے ساتھ کیا ۔ انہیں عبادتگاہ تک میں آنے سے روک دیا ۔ اس کی تو دنیا بھر میں کہیں کوئی مثال نہیں ملتی ۔
اپنے منہ میاں مٹھو بنتے ہوئے موہن بھاگوت نے کہا ہم دوسرے تمام (مذاہب) کو مستردنہیں کرتے ۔ وہ زور دے کر بولے کہ ‘ یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ ہم نے مسلمانوں کی حفاظت بھی کی ہے ‘۔کاش کے بھاگوت جی ایک آدھ مثال دے کر بتاتے کہ سنگھ کے ذریعہ مسلمانوں کو بچانے کا کام کس سیارے پر کیا گیا کیونکہ اس سر زمین پر تو سنگھیوں کو مسلمانوں اور عیسائیوں کی ماب لنچنگ کرتے اور دنگا فساد بھڑکاتے ہی دیکھا گیا ہے ۔ یہاں پر سنگھی سرکاریں مسلمانوں کا بے دریغ انکاونٹر کرتے اور مظلوموں کے مکانوں و دوکانوں پر بلڈوزر چلاتے نظر آتے ہیں۔ اس کے باوجود جب وہ کہتے ہیں کہ یہ(بچانے کا) کام صرف ہندو کرتے ہیں۔ یہ کام صرف بھارت کرتا ہے ۔
دوسروں نے ایسا نہیں کیا تو یہ سن کر ہنسی آتی ہے ۔ عام ہندو تو بیچ بچاو کام کرتا ہے لیکن جب اس پر سنگھ کا خمار چڑھ جاتا ہے تو پھر وہ درندگی پر اتر آتا ہے ۔ اس بیان کا واحد مثبت پہلو یہ اعتراف ہے کہ اگر سارے فرقوں اور عقائد کا احترام کیا جائے گا تو اسرائیل جیسی صورتحال پیدا نہیں ہوگی ورنہ یہاں بھی وہی ردعمل ہو گا جو یوکرین اور غزہ میں ہورہا ہے ۔وزیر اعظم نریندر مودی بھی اگر موہن بھاگوت کی طرح رک کر بیان دیتے تو شاید اس میں جذباتیت نہیں ہوتی لیکن جو تیر کمان سے نکل گیا سو نکل گیا اب واپس نہیں آسکتا۔ اس تیرنے سنگھ پریوار کے گھناونے چہرے کو بے نقاب کر دیا ہے ۔


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں