مولانا فضل الرحمن اور مسئلہ کشمیر
(حدِ ادب...انوار حسین حقی)
شیئر کریں
پچھلے دنوں اسلام آباد جانا ہوا تو معلوم ہواکہ پیپلز پارٹی کے سید خورشید شاہ کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری پر اپوزیشن سیخ پا ہے اور اجلاس میںحکومت کو ٹف ٹائم دینے کے ارادے ہیں ۔حکمران جماعت نے مقابلے کے لیے اسد قیصر کی جگہ قاسم خان سوری کو میدان میں اُتارنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ قاسم خان سوری اپنی قبائلی اور خاندانی روایات کے حوالے سے پاکستان تحریک انصاف کے دوسرے رہنماؤں سے بہت مختلف ہیں ۔ پی ٹی آئی کے بہت سے وزراء اور رہنماء اپنی خواہشات اور سوچ کے مطابق عمران کے طرزِ عمل کے متقاضی رہتے ہیں جبکہ ان سب کے برعکس قاسم خان سوری کا یہ امتیاز یہ ہے کہ وہ یہ دیکھتا ہے کہ اُس کے قائد کا وژن اور سوچ کیاہے پھر اُس کے مطابق اپنی ترجیحات کا تعین کرتا ہے ۔
قومی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو دل تھام کر ہم بھی گیلری میں جا بیٹھے ۔ قاسم خان سوری کرسی صدارت پر بیٹھے ہوئے تھے۔ اپوزیشن ارکان رسمی احتجاج کے بعدچلتے بنے ۔ پسِ یوارِ زنداں خورشید شاہ اس اجلاس سے کیا اُمیدیں وابستہ کیے بیٹھے تھے یہ تووہ ہی جانیں ۔ ہمیں تو اُس روز یہ سبق ملا کہ جس کے اُوپر مصیبت آتی ہے اُسے ہی بھگتنا پڑتی ہے۔ خورشید شاہ کا غم غلط کرنے کے لیے مولانا فضل الرحمن کے بیٹے اسد الرحمن کو بات کرنے کا موقع ملا تو انہوں نے اپنے والدِبزرگوار کی تسکینِ قلب و جاں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے الزام عائد کر دیا کہ ’’ کشمیر کو بیچ دیا گیا ہے ‘‘۔ پی ٹی آئی کی خاتون ممبر اسماء عزیز نے تقریر میں مداخلت کی کوشش کی تو جے یو آئی کے ایک معزز رکنِ قومی اسمبلی جس انداز میں برہم ہوئے اُسے ہماری روایات میں کسی بھی طور پر مناسب نہیں کہا جا سکتا البتہ پارلیمانی روایات کے بارے میں میں کچھ زیادہ نہیں جانتا ۔
موجودہ حکومت پرکشمیرکی سودے بازی کا الزام مولانا فضل الرحمن کی جانب سے ایک تسلسل کے ساتھ عائد کیا جا رہا ہے با الکل اُسی طرح سے جس طرح سے وہ وزیر اعظم عمران خان کو یہودی لابی کا نمائندہ قرار دینے پر بضد ہیں حالانکہ جنرل اسمبلی میں عمران خان کی تقریر کی ماضی میں مثال نہیں ملتی ۔ اس سے ظاہرہوتا ہے کہ مولانا فضل الرحمن کا طرزِ عمل ان کی ذاتی پسند اور ناپسند کے تابع رہا ہے ۔ ورنہ رسول اللہ ﷺ کا طریقہ کار تو یہی ہے کہ ایمان اور عقائد کے حوالے سے دوسرے کی زبان سے کیے گئے اقرار کو تسلیم کیا جا نا چاہیے ۔ ہمارے ہاں علمائے کرام کو پرکھنے کا معیار بھی یہی ہے کہ ہم ان کی تقاریر اور درس وغیرہ سُن کر ہی انہیںاُس درجے پر فائز تسلیم کرتے ہیں جو علمائے حق کا ہوتا ہے ورنہ عمل کی میزان پر کسی کو بھی تولنا اور پرکھنا بہت مُشکل کام ہے ۔
اسلام آباد میں اپوزیشن کی’’ بنجمن سسٹرز ‘‘ کے ترجمان مولانا فضل الرحمن نے کشمیر کے موجودہ حالات کا ذمہ دار وزیر اعظم عمران خان کو ٹہرایا تو ذہن ماضی کی طرف لوٹ گیا ۔ اس مسئلہ کی بھیدوں بھری کائنات کے مختلف ابواب سامنے آ گئے ۔
جموں و کشمیر کی مشترکہ مزاحمتی قیادت کی جانب سے کالے قانون آرمڈ فورسسز سپیشل پاور ایکٹ کے نفاذ کے خلاف مہم عروج پر تھی اور 1990 ء کے شہدائے گاؤکدل، شہدائے ہندواڑہ اور شہدائے کپوارہ کی برسیوں کے مواقع پر تقریبات کے انعقاد کا سلسلہ جاری تھا، حُریت کانفرنس جموں کشمیر سمیت دیگر کشمیری جماعتوں کے قائدین یہ کہتے سُنے جا رہے تھے کہ مظلوم کشمیریوں کو اللہ کی مدد اور نصرت کے بعد پاکستان سے اُمیدیں وابستہ ہیں ۔ اس موقع پر زمانہ شناش مردِ حریت سید علی گیلانی نے پاکستانی حکومت سے قومی کشمیر کمیٹی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی برطرفی کا مطالبہ بھی کیا تھا ۔ سید علی گیلانی کا موقف تھا کہ پاکستان کی قومی کشمیر کمیٹی کی قیادت کشمیر کاز سے آگاہ نہیں ہے ‘‘۔
سیدعلی گیلانی کشمیر کے دبستانِ حُریت کا وقار ہیں ۔جنت نظیر کشمیر اُن کا ستارہ ہے اور وہ اس بہشت برُوئے زمین کے بیٹے اور تحریک آزادی کشمیر کی رینگتی خون کی شریان ہیں ۔ان کے یہ حروفِ صدق سُن کر مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے پھولوں کا موضوعِِ سُخن شعلوں کی پہچان بن گیا ہے ۔ حریت رہنماء کا یہ بیان ہماری قومی کشمیر کمیٹی کی کارکردگی کے چہرے سے نقاب اُٹھانے کے لیے کافی تھا۔ اُس وقت مُلک میں میاں محمد نواز شریف کی حکومت تھی ۔ اس حکومت کی اپنی ترجیحات اور مقاصد تھے ۔ اس لیے میاں نواز شریف کی حکومت نے سید علی گیلانی کے مطالبے پر کوئی توجہ نہیں دی تھی۔ با لآخر سید علی گیلانی کو اپنے اس خواب کی تعبیر کے لیے پاکستان میں جولائی2018 ء کے عام انتخابات کا انتظار کرنا پڑا۔ مولانا فضل الرحمن کی کشمیر کمیٹی کی قیادت سے برطرفی کے لیے سید علی گیلانی کا یہ مطالبہ اس کمیٹی کی کارکردگی پر حُریت لیڈروں کے عدم اعتماد سے بڑھ کر مایوسی کا اظہار تھا ۔ ان دنوں کشمیریوں کے غم سے نڈھال ہونے والے مولانا نے جتنا عرصہ قومی اسمبلی کی کشمیر کمیٹی کی قیادت سنبھالے رکھی کشمیر کاز سے وابستہ طبقات کی مرتعش سانسیں سکوت میں رہیں کیونکہ مولانا فضل الرحمن کا سیاسی پس منظر کشمیر سے وابستگی کا کوئی ایک حوالہ بھی نہیں رکھتا تھا ۔
ماضی کے حکمرانوں نے اپنے سیاسی مفادات کی خاطر کشمیر کمیٹی کی سربراہی خراج کی صورت میں مولانا فضل الرحمن کو’’ ادا‘‘ کیے رکھی۔ ایک مرتبہ پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں حکومت کی حمایت کے عوض وہ اس منصب پر فائزکیے گئے۔ دوسری مرتبہ میاں محمد نواز شریف نے بھی انہیں اسی اعزاز کا مستحق سمجھا ۔ دونوں مرتبہ مولانا فضل الرحمن کی اس تعیناتی کے حوالے سے وقتاً فوقتاً آوازیں بُلند ہوتی رہی ہیں لیکن حکمرانوں نے اس جانب کوئی توجہ نہیں دی ۔ صورتحال شاید کچھ ایسی رہی کہ
وہ پریشاں تھا کہیں زندہ نہ ہو کوئی ضمیر
تخت پر قابض ہوا تحقیق کر لینے کے بعد
مولانا فضل الرحمن ہمیشہ ایک فعال سیاستدان کے طور پر سیاست میں سرگرم رہے ہیں ۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں وہ قائد حزب اختلاف رہے ۔ ایک طویل عرصہ خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کے ساتھ ساتھ مرکز کے اقتدار میں بھی شریک یا معاون رہے اب بھی وہ سیاست میں بہت زیادہ موثر ہیں ۔ پاک چائنا راہداری منصوبے کے روٹ کو اپنی مرضی سے موڑنے کا معرکہ سر انجام دے چُکے ہیں ۔ لیکن جس منصب کے سبب وہ قومی خزانے سے مراعات سمیٹتے رہے اور پرٹوکول کے مزے لوٹتے رہے اس کی جانب توجہ دینے کی فرصت انہیں کم ہی ملی ۔ عمران خان کو یہودیوں کا ایجنٹ قرار دینے کے بیانات کو ہی اُٹھا کر دیکھ لیجیے مولانا کی جانب سے کشمیریوں کی حمایت میں دیے گئے بیانات اُن کادسواں حصہ بھی نہیں ہیں ۔
سید علی گیلانی جیسی اوالعزم شخصیت کی جانب سے پاکستان کی قومی کشمیر کمیٹی کی سربراہی کی تبدیلی کے مطالبے پر ہماری حکومت کان دھرتی اور کمیٹی کا احتساب کرتی تو آج مولا نا کو اس قومی مسئلے کو اپنی سیاست کی بھینٹ چڑھانے یا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرنے کا موقع نہ ملتا ۔ جب بھی مولانا کی اس کارکردگی کا خیال آتا ہے تو مجھے ر سید نصیر شاہ کے یہ اشعار شدت کے ساتھ یاد آجاتے ہیں
۔
سسک کے مر گئی خوشبو گلاب قتل ہوئے
تمہارے عہد میں لوگوں کے خواب قتل ہوئے
دہکتے رہ گئے ہونٹوں پہ پیاس کے دوزخ
کئی حسین سرِِ سیل آب قتل ہوئے
فضا کی حشر زا دہشت دلوں پہ مہر ہوئی
دماغ و دل میں سوال و جواب قتل ہوئے
کہاں سے آئے کرن کوئی دستگیری کو
کہ حرف و لفظ کے سب ماہتاب قتل ہوئے
قلم کے قتل کا کیسے قصاص مانگیں گے
جلیسِ علم انیسِ کتاب قتل ہوئے
کباب سیخ سمندر کی موج ہوئی
ہوا ہلاک ہوئی حباب قتل ہوئے
جہانِ علم میں بھی دانشوروں کا قتل ہوا
خرد نواز جو تھے خانہ خراب قتل ہوئے
ّّّّّّّّّّّ_________