میگزین

Magazine

ای پیج

e-Paper
شفاف احتساب، مستحکم نظام

شفاف احتساب، مستحکم نظام

ویب ڈیسک
هفته, ۴ نومبر ۲۰۱۷

شیئر کریں

ملک کی دو بڑی پارلیمانی پارٹیاں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی 1999 میں سابق آمرجنرل (ر) پرویز مشرف کے بنائے گئے قومی احتساب بیورو کو ختم کر کے اس کی جگہ احتساب کمیشن قائم کرنے پر متفق ہو گئی ہیں جس سے امکانی طور پر کڑے لیکن شفاف اورمنصفانہ احتساب کی راہ ہموار ہوسکتی ہے۔ تحریک انصاف بھی پارلیمانی کمیٹی برائے قانون کی کارروائی کے دوران کمیشن کے قیام کی حمایت کرتی رہی لیکن آخری مرحلے میں اس نے نیب کو ختم کرنے کی مخالفت کر دی۔ پی ٹی آئی اور اس کی اتحادی پارٹی جماعت اسلامی نے اس سلسلے میں اپنے بعض خدشات ظاہر کیے ہیں اور مجوزہ قانونی بل میں شامل کرنے کے لیے اپنی ترامیم پیش کی ہیں۔ بدھ کو پارلیمانی کمیٹی برائے قانون کے اجلاس میں پیپلزپارٹی ججوں اور جرنیلوں کے احتساب کے متعلق دیگر جماعتوں کی حمایت نہ ملنے پر اپنے موقف سے دستبردار ہو گئی۔
اس طرح ججوں اور جرنیلوں کو مجوزہ قانون کے دائرے میں نہ لانے پر اتفاق ہو گیا اجلاس کے بعد وزیر قانون زاہد حامد نے بتایا کہ نیب قوانین زیادہ سخت تھے۔ جس کی وجہ سے احتساب کمیشن بنایا جا رہا ہے، تاہم نیب کے تحت مقدمات نئی عدالتوں کو بھجوا دیئے جائیں گے۔ فوج اور عدلیہ پر مجوزہ احتساب کمیشن کے قانون کا اطلاق نہیں ہو گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کی تمام سیاسی جماعتیں 99 کے نیب آرڈی نینس کو سیاہ قانون قرار دے چکی ہیں، اس لیے متبادل انتظام ضروری تھا۔ حتمی ترمیمی بل میں پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے تحفظات دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تحقیقاتی ریفرنس کی زد میں آنے والے ہر شخص کے بنیادی حقوق کا تحفظ ہونا چاہئے اور احتساب کے ساتھ انصاف بھی نظر آنا چاہئے۔ نئے قانون میں اس بات کا خیال رکھا جائے گا۔ وزیر قانون نے نئے احتساب کمیشن کی تفصیلات ظاہر نہیں کیں صرف اتنا بتایا کہ کمیشن مکمل طور پر بااختیار ہو گا اور احتساب عدالتیں برقرار رہیں گی۔
پیپلزپارٹی کے نوید قمر کا کہنا تھا کہ احتساب کمیشن کا اطلاق صرف وفاق پر ہونا چاہئے کیونکہ صوبوں کے اپنے احتساب قوانین موجود ہیں۔ احتساب کے نظام میں تبدیلی کی ضرورت کے حوالے سے ساری شکایات نیب میں پائی جانے والی خامیوں اور خرابیوں کے بارے میں بیان کی گئی ہیں۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ نیا احتساب کمیشن ان خرابیوں کو کس طرح دور کرے گا اور اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ کمیشن ان خامیوں سے مبرا ہوگا۔ احتساب کے موجودہ نظام پر بجا طور پر ایک عرصہ سے تنقید کی جا رہی ہے۔ اس کی اصلاح کے لیے غور و فکر کرنے میں بھی5 سال گئے۔ اس کی وجہ یا تو یہ ہو سکتی ہے کہ سیاستدان زبانی جمع خرچ سے آگے بڑھ کر اسے بہتر بنانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے تھے یا ان میں اختلافات اتنے زیادہ تھے کہ کسی نتیجے پر پہنچنے میں مشکل پیش آرہی تھی۔ تاہم بنیادی طور پر اصلاح انہی کی ذمے داری تھی جسے انہوں نے ادا کیا۔
نواز شریف اور بے نظیر بھٹو میں طے پانے والے میثاق جمہوریت میں بھی آزادانہ انتخابات اور غیر جانبددارانہ احتساب نظام پر اتفاق ہوا تھا جس پر بہت پہلے عمل ہو جانا چاہئے تھا۔ منصفانہ انتخابات کے بعد احتساب کا شفاف نظام کرپشن سے پاک معاشرے کے فروغ اور اچھی طرز حکمرانی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔ اب جبکہ بڑی سیاسی پارٹیوں کے اتفاق رائے سے اس توقع کے ساتھ احتساب کمیشن بنایا جا رہا ہے کہ اس سے نیب دور کی خرابیاں دور ہو سکیں گی۔ تو اختلاف رکھنے والی پارٹیوں کی مفید تجاویز پر بھی سنجیدگی سے غور کیا جائے اور انہیں حتمی قانون کا حصہ بنایا جائے، جہاں تک ججوں اور جرنیلوں کے احتساب کمیشن سے استثنا کی بات ہے تو یہ بات درست ہے کہ عدلیہ اور فوج میں احتساب کا اپنا داخلی نظام موجود ہے جس کے تحت خلاف ضابطہ کام کرنے والوں کا سختی سے محاسبہ کیا جاتا ہے لیکن انصاف کا تقاضا یہ بھی ہے کہ محاسبے کے ادارہ جاتی نظام میں بھی اپیل اور نظر ثانی کی گنجائش موجود ہونی چاہئے اس لیے بے لاگ احتساب کے لیے اس پہلو پر بھی ضرور غور کرلینا چاہئے۔ یہ ملک و قوم کے مفاد میں بہتر ہوگا۔
(تجزیہ)


مزید خبریں

سبسکرائب

روزانہ تازہ ترین خبریں حاصل کرنے کے لئے سبسکرائب کریں